پچھلے ہفتے یونان کے سمندروں میں مہاجرین سے بھری ایک کشتی حادثے کا شکار ہو گئی۔ کشتی پر سوار تمام افراد بہتر مستقبل کی خاطر یورپ آنا چاہتے تھے تاہم کشتی بیچ سمندر ہی غرقِ آب ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس کشتی پر 700 سے زائد افراد موجود تھے جن میں شام، مصر اور پاکستان کے باشندے شامل تھے۔ان میں سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق 310 سے زائد پاکستانی تھے جن میں سے 300 پاکستانی یا تو سمندر کی نذر ہو چکے ہیں یا پھر لاپتہ ہیں۔ ان پاکستانیوں میں زیادہ تر افراد کا تعلق وسط پنجاب سے تھا نہ کہ پاکستان کے کسی پسماندہ یا جنگ زدہ علاقے سے۔ جبکہ باقی کا تعلق آزاد کشمیر سے بتایا جا رہا ہے۔ یہ تمام افراد غیر قانونی طریقے سے ایک بہتر مستقبل کی اّمید میں یورپ اور دیگر مغربی ممالک جانا چاہتے تھے۔ ان میں پورے پورے خاندان تھے۔ بچے ،عورتیں اور جوان، جنہیں سمندر کی بے رحم موجیں بہا لےگئیں کہ اب تاقیامت انکے رشتہ دار انکی راہ تکیں۔
ان بدنصیب پاکستانیوں نے پاکستان میں موجود ایجنٹوں(انسانی سمگلروں) کو اپنی جمع پونجی دی ہو گی جنہوں نے انسانی سمگلنگ کے بری اور بحری راستوں پر انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ پاکستان کی حکومت کو اس واقعے کے بعد ہوش آیا کہ اس کی تحقیقات کی جائے اور انسانی سمگلنگ میں ملوٹ افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے مگر اگر تاریخ شاہد ہے تو ہونا ککھ ہے۔ اول تو سب کو معلوم ہے کہ انسانی سمگلنگ پاکستان میں عام بات ہے۔ جگہ جگہ ایجنٹ بیٹھے ہیں اور حکومت اور حکومتی ادارے ان لوگوں کے معاونین ہیں جن کی ناک تلے یہ سب ہوتا ہے۔ اور دوم یہ کہ حکومت اس سلسلے میں کیا اپنی تحقیقاتی کمیٹیوں سے یہ پوچھے گی کہ اس ملک میں کونسی ایسی وجوہات ہیں کہ ہر شخص یہاں سے زندہ بھاگنے کے چکروں میں ہے، کوئی یہاں رہنا نہیں چاہتا، جو ایک مرتبہ باہر جاتا ہے وہ واپس نہیں آنا چاہتا، جو واپس آتا ہے تو پچھتاتا ہے اور دوبارہ جانا چاہتا ہے۔
آپ بھلے پود کی پود تیار کر لیں، نسلوں کی نسلوں کو حب الوطنی کے نعرے رٹوا لیں، قومی اداروں کی زبردستی عزت و تکریم کروا لیں، قربانیاں یاد دلوا کر اوپر نیچے سے آنسو نکلوا لیں، نسلوں کی نسلوں کو مغربی ممالک سے نفرت کروا لیں، امریکہ سے امداد لیکر امریکہ کے خلاف نعرے لگوا لیں، غرض جو کوئی حربہ آزما کر انہیں دولے شاہ کے چوہے بنا لیں، انکی سوچ سلب کر لیں مگر ایک چیز آپ کبھی ختم نہیں کر سکتے اور وہ ہے بقا کی جنگ۔ اس جنگ میں نہ کوئی دھرم ہوتا ہے نہ کوئی ایمان، نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی وجدان، نہ کوئی اصول ہوتا ہے اور نہ کوئی ضابطہ۔ یہ بھوک کی جنگ ہے اپنی نسلوں کو بچانے کی جنگ ہے۔ اگر اس ملک میں ایسے سازگار حالات نہیں ہونگے تو آپکے تمام نعرے، تمام جھوٹے نظریے، تمام بودی دلیلیں، تمام سکھائی نفرتیں، سب کچھ بالائے طاق رکھ کر ہر شخص بقا کی خاطر ایک ایسے ملک سے نکلنے کی پوری کوشش کرے گا جہاں محض رسوائی، عزتِ نفس کی پامالی، خواہشوں کا گلا گھونٹتا پھندہ، ڈر اور خوف کی فضا، منافقت کی معاشرتی زندگی جہاں گلی کا پارسا آپکے اعمال کا ٹھیکیدار بنا پھرے مگر اپنے گھر میں بیوی کو ، بیٹی کو ، بہو کو درندوں کی طرح کوٹتا ہے، جہاں رشوت لینے والا آپکو نیکی کی تبلیغ کرتا ہے، جہاں حرام کھانے والا آپکو صفوں میں آگے آگے ملتا ہے، جہاں ہر شخص اپنے علاوہ دوسرے کے گریبان میں جھانکتا ہے، جہاں ظلم و بربریت کو صبر اور سہانے وعدہ فردا کی گولیاں چٹا کر رام رام کیا جاتا ہو، وہاں اسی معاشرے میں بقا کی جنگ لڑتا نوجوان یا بوڑھا چاہے اُسکا دماغ کتنا بھی بھوسے اور خرافات سے بھرا ہو، بہتر مستقبل کی خاطر باہر کے ممالک جانا چاہے گا۔ قصور اُسکا نہیں آپکا ہے۔ کیونکہ آپ نے اپنی ریاستی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں،بس دھونس دھمکی اور نظریاتی نعروں پر اسے اس ملک کا شہری بنایا، اُسکی عزتِ نفس پامال کر کے اُس سے زبردستی کی عزت کروائی ہے، اسے زبردستی کی ملک سے محبت کروائی۔ تو گزارش ہے کہ اس تحقیقاتی کمیٹی کو بنانے کی بجائے ایک ایسی کمیٹی بنائیں جو مکمل چھان بین کے بعد یہ فہرست تیار کر کے دے کہ اچھے اور قابلِ بھروسہ انسانی سمگلر کونسے ہیں جو کم سے کم اپنے کام میں ویسے ڈنڈی تو نہ ماریں جو پچھلے پچھتر برس سے ریاست مارتی آئی ہے۔ شاید اس طور ان کئی کمی کمینوں کا کچھ بھلا ہو جائے جسے عرفِ عام میں عوام کہتے ہیں۔ اب تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ شکر ہے ہمارے حالات شام والے نہیں کہ اس کشتی میں شامی اور پاکستانی دونوں ہی موجود تھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں