آخری راؤنڈ۔۔محمد عامر خاکوانی

حکومت اپوزیشن لڑائی کا یہ آخری رائونڈ چل رہا ہے۔ باکسنگ کی فائٹس دیکھنے والوں کو معلوم ہے کہ کسی بڑے اور سخت مقابلے میں کئی بار مقابلہ اتنا کلوزہوتا ہے کہ جیتنے ، ہارنے والے کا پتہ نہیں چل پاتا۔ مقابلہ ختم ہونے کے بعد ججز کے فیصلہ سے ہی فاتح کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسی کلوز فائٹ چل رہی ہے، جس کے نتیجے کا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے حتمی اندازہ نہیں ہو پائے گا۔ ممکن ہے پہلے کوئی اتحادی ٹوٹ جائے یا ایسا اعلان کہیں سے آ جائے جس سے لگے کہ فیصلہ ہوگیا۔ پڑھنے والے احباب کو مشورہ ہے کہ آپ پھر بھی سکون اور صبر سے کام لیجئے گا۔ عین وقت پر بھی کچھ لوگ اِدھر اُدھر ہو سکتے ہیں۔ ا س بار لگتا ہے سرپرائز فیکٹر بار بار ابھرتا، ڈوبتا رہے گا، آخری لمحوں تک دلچسپی برقرار رہے گی۔ میرے حساب سے اس سیاسی لڑائی کے تین رائونڈ ہوچکے ہیں، چوتھا اور فائنل جاری ہے۔ پہلا رائونڈ اپوزیشن کے نام رہا تھا۔ اپوزیشن کا متحد ہو کر تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کرنا اور پھر کچھ دنوں بعد باقاعدہ تحریک اسمبلی میں جمع کرا دینا ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔پاکستان پیپلزپارٹی تو بہت پہلے سے اس آپشن کی طرف توجہ دلا رہی تھی، مگر ن لیگ اور مولانا کا خیال تھا کہ جب تک حکومت ، اسٹیبلشمنٹ ایک ہی پیج پر ہیں، اس کا فائدہ نہیں۔

چیئرمین سینٹ سنجرانی صاحب کے خلاف دو سال پہلے تحریک عدم اعتماد میں جو ہوا، وہ دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا۔ چند ماہ پہلے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں پہلے پیپلزپارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹر بنوا کر اپنی قوت اور سیاسی نقب زنی کی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ حکومت کے ایک درجن کے قریب ارکان اسمبلی ان کے ساتھ خفیہ طور پر ملے ہوئے ہیں۔ تاہم چیئرمین کے الیکشن میں جو ہوا اور جس طرح گیلانی صاحب کو شکست ہوئی، اس نے ’’ایک ہی پیج‘‘کی طاقت واضح کر دی۔ اس بار اپوزیشن کی اصل کامیابی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے مکمل طور پر نیوٹرل ہونے کا تاثر سامنے آیا اور ابھی تک کوئی ثبوت یا فٹ پرنٹ نہیں ملے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کسی فریق کی حمایت کی ہے۔اس غیر جانبداری کافائدہ ا پوزیشن ہی کو ہوا کیونکہ وہ جوڑ توڑ کے ماہر اوران کی صفوں میں سیاسی خرید وفروخت کا وسیع تجربہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ یوں پہلی بار یہ تاثر پیدا ہوا کہ عمران خان حکومت ڈیڑھ سال پہلے جا سکتی ہے۔ اس پہلے رائونڈ میں اپوزیشن واضح نمبروں سے فاتح ٹھیری ۔ دوسرے رائونڈ میں اپوزیشن کو ایک ناکامی ہوئی جب وہ حکومتی اتحادیوں کو توڑنے اور ساتھ ملانے میں ناکام رہی۔ تحریک انصاف کے ساتھ موجود اتحادیوں میں سے اگر ق لیگ (پانچ ارکان) اور ایم کیو ایم (سات ارکان) کی حمایت ختم ہوجاتی تو حکومتی اکثریت نہ رہتی، اگر بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ کے پانچ ارکان اسمبلی ساتھ مل جاتے تب تو کھیل فوری ختم ہوجانا تھا۔ اپوزیشن نے خاصی کوشش کی اور یقینا دل لبھانے والی پیش کش کی ہوگی، مگر اس مرحلے پر کوئی اتحادی نہیں ٹوٹ سکا۔اس کی ایک وجہ میاں نواز شریف کے حوالے سے ق لیگ وغیرہ میں عدم اعتماد کی کیفیت ہے۔

وہ میاں صاحب کے زبانی وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اپوزیشن کو البتہ یہ بڑی کامیابی حاصل ہوئی کہ تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کا ایک گروہ سامنے آ گیا۔ زیادہ تر ان میں فیصل آباد یا جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی تھے۔ کئی ایسے جو آزاد حیثیت میں جیتے تھے، مگر جہانگیر ترین کی مساعی سے وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ اب جہانگیر ترین کی ناراضی اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی لاتعلقی اور بے نیازی کے باعث ان ارکان اسمبلی کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔حکومت نے اس معاملے کو اچھے طریقے سے ہینڈل نہیں کیا اور ابتدا میں حکومتی وزرا، مشیر ان منحرف ارکان کو طعنے ، کوسنے اور حتیٰ کہ گالیاں تک دیتے رہے۔ یہ دوسرا رائونڈ مکس رہا، اگرچہ اپوزیشن کو اس میں برتری رہی۔ حکومت نے البتہ ایک اچھی چال چلی کہ منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیج دیا۔ ا س سے ان کی سٹی گم ہوگئی اور وہ پہلے جیسی بے باکی سے ٹی وی چینلز پر آنے کے بجائے خاموش ہوگئے،ہر ایک نے پارٹی شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ منحرف نہیں ہوئے۔ اگر سپریم کورٹ سے کوئی بڑا فیصلہ آتا ہے تو پھر ان منحرف ارکان کی غالب اکثریت فلور کراسنگ کرنے سے گریز کرے گی۔ تیسرا رائونڈ۔

یہ پچھلے چند دنوں پر مشتمل ہے۔ اس رائونڈ میں حکومت نے گیم میں کم بیک کیا اور اس رائونڈ میں اپوزیشن کو پیچھے دھکیلا ۔ عمران خان اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے ابتدا میں گڑبڑا گئے تھے، پھر انہوں نے جارحانہ جواب دینے کی ٹھانی، نہایت تیز رفتار ی سے ملک کے مختلف شہروں میں کئی بڑے جلسے کئے اور ان میں اپوزیشن رہنمائوں کو نہایت سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا، وہ ایسا کرتے ہوئے غیر شائستگی کی حد کو بھی چھو گئے۔ عمران کے جلسے بھرپور اور چارجڈ کرائوڈ والے تھے۔ ان جارحانہ حملوں سے یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کا مایوس کارکن اور حامی بھی نئے جوش وجذبہ سے پارٹی کے ساتھ آ ملا۔ عمران خان نے اپنی مخصوص سیاسی عصبیت کو بھرپور طریقے سے بیدار کیا ۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی پارٹی پوری طرح ان کے ساتھ یکجا کھڑی ہے۔ اس رائونڈ میں دو اہم کامیابیاں حکومت نے حاصل کیں ۔ اتوار ستائیس مارچ کو انہوں نے اسلام آباد میں ایک تاریخی جلسہ کیا، جس میں لاکھوں لوگ شامل ہوئے۔ یہ ہر لحاظ سے بہت بڑا، غیر معمولی جلسہ تھا، جس کی خاص بات یہ تھی کہ جتنے شرکا گرائونڈ میں تھے ، کم وبیش اتنے باہر تھے جو رش کی وجہ سے اندر نہیں پہنچ پائے۔ اسی جلسہ کے آخر میں عمران خان نے ایک اہم بات بتائی کہ ان کی حکومت کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے، بیرون ملک فنڈنگ بھی ہے اور اندرون ملک اس ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی۔ یہ بہت سنگین الزام ہے، اس پر اگرچہ ابھی بات آگے نہیں بڑھی، مگر نیشنل سکیورٹی اداروں کو اس پر تحقیق کرنی چاہیے اور اگر واقعی یہ عالمی سازش ہے تو پھر غیر جانبدار رہنے کے بجائے سرگرم ہونا چاہیے۔ اگر حکومت اپنی کارکردگی کی بنا پر گرنے کی مستحق ہو ، تب بھی کسی بیرونی قوت کے انوالو ہونے کی صورت میں اس حکومت کو گرنے سے روکنا چاہیے۔ اداروں کا کام ہی غیر ملکی سازشوں کو کائونٹر کرنا ہے اور ہم نے یہی دیکھا ہے کہ عالمی قوتیں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے اداروں سے نہیں جیت سکیں۔

اس بار بھی یقینا ًملک کے لئے بہتر ہی ہوگا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ بیچ میں آگیا۔ کہنایہ تھا کہ جلسہ پہلی کامیابی تھی جبکہ دوسری بڑی کامیابی ق لیگ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے اورچودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی پیش کش ہے۔ اس سے حکومت بچنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں اور گیم ففٹی یا ففٹی فائیو ، فورٹی فائیو ہوگئی۔یہ تیسرا رائونڈ تحریک انصاف کے نام رہا۔ فائنل رائونڈ۔ اس رائونڈ کا فیصلہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد ہوگا۔ تب ہی پتہ چلے گا کہ کون فاتح ٹھیرا اور کس کے حصے میں شکست کی رسوائی آئی۔ اپوزیشن اس وقت پراعتماد ہے، اگر ان کے اعتماد میں پہلے سے کچھ کمی آ چکی ہے۔ باپ کو ساتھ ملانا ان کی کامیابی ٹھیری۔ وہ شاہ زین بگٹی کو بھی ساتھ ملا چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا تکیہ کسی حد تک تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی پر ہوگا۔ اس وقت فیصلہ کن قوت ایم کیو ایم کو حاصل ہوگئی ہے۔ اگر وہ اپوزیشن کے ساتھ جائے تو پھر حکومت کے بچنے کی امید کم ہی ہے۔ اگر تحریک انصاف پلس ق لیگ کسی طرح ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملائے رکھیں تو پھر اپوزیشن کے لئے بازی مارنا آسان نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ سے ریفرنس پر فیصلہ اگر پرسوں تک آ گیا تواس کا بھی اپنا کردار ہوگا۔ چودھریوں نے بہت مشکل اور بڑا ٹاسک اپنے ذمے لیا ہے۔ یہ کسی بھی صورت آسان نہیں۔ آصف زرداری جیسے جوڑ توڑ، لین دین کے ماہر کو مات دینا پڑے گا۔ چودھری پرویز الٰہی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ن لیگ سے بعض ارکان اسمبلی منحرف کرانے میں وہ کامیاب ہوجائیں۔ اگلے دو دنوں میں صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔ مقابلہ کلوز رہنے کا امکان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کو ایڈوانٹیج یہ ہے کہ انہوں نے ارکان اسمبلی لے کر نہیں آنے۔ دوسرا یہ بھی کہ اگر اپوزیشن صرف ایک نمبر کم رہی تب بھی ناکام سمجھی جائے گی۔ اتنی بڑی موو کے بعد اگر ناکامی ہو تو پھر انتشار فطری ہے۔ ایسے میں پھر منظم ہو کر حملہ کرنے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی ، تب بھی اپوزیشن کے لئے حکومت سازی آسان نہیں ہوگی۔ منحرف ارکان اسمبلی نے آخرکار نااہل ہوجانا ہے۔ صرف دو ماہ بعد بجٹ نے آ جانا ہے، اسے منظور کرانے کے لئے ایک بار پھر سادہ اکثریت درکار ہوگی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں صورتوں میں خاصے گمبھیر حالات پیدا ہوں گے۔ اللہ خیر فرمائے، آمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply