نئے دور کے آدم و حوا اور ان کی زمینی جنت کی بربادی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنت تھی جس میں‌ آدم اور حوا ہمیشہ کے لیے خوش رہتے تھے۔ آدم اور حوا کو جنت بنی بنائی نہیں‌ ملی تھی، اس کو آدم اور حوا نے بہت محنت سے بنایا تھا۔ حوا کے والدین نے اپنے پرانے آسمان میں‌ جا کر حوا کے رشتے کے لیے اخبار میں‌ اشتہار دیا۔ بہت سارے لڑکے آدم بننے کے لیے آئے۔ آدم شرمیلا اور شریف تھا۔ وہ اپنی زندگی کے حالات سے تنگ آکر خود کشی کرلینا چاہتا تھا۔ جس دن وہ خود کو پنکھے سے لٹکا رہا تھا تو اخبار پر نظر پڑی جس میں‌ ایک حوا آدم کو ڈھونڈ رہی ہے۔ اس نے سوچا کہ خود کشی کرنے میں کیا جلدی ہے، پہلے حوا سے مل آئے۔ حوا نقلی آدم دیکھ دیکھ کر تنگ آچکی تھی۔ اس نے جب اصلی آدم دیکھا تو خوشی سے اس کا ہاتھ تھام لیا، چاہے آدم کے پاس اس کو دینے کے لیے کوئی قیمتی تحائف تھے اور نہ ہی وہ خوبصورت پھول خریدنا افورڈ کرسکتا تھا۔

آدم کو جب بڑے آسمان کے لیے ویزا مل گیا تو وہ اور حوا ساتھ میں‌ رہنے لگے۔ انہوں‌ نے ایک ایک اینٹ رکھ کر اپنی نئی جنت کا ہر کونہ تعمیر کیا۔ ان کے دو خوبصورت بچے بھی تھے۔ ایک ننھا اور ایک ننھی۔ جنت میں‌ وہ سب کچھ تھا جس کی ان کو ضرورت تھی یا ضرورت پڑ سکتی تھی۔ جنت میں‌ صاف ٹھنڈا پانی بھی آتا اور گرم بھی۔ جنت میں‌ آدم اور حوا کی راحت کے لیے ہمیشہ درجہ حرارت ایک سا رہتا، جنت رنگ برنگے حسین پودوں اور درختوں‌ سے گھری ہوئی تھی۔ وہاں پھول اس طریقے سے لگائے گئے تھے کہ ایک کے بعد ایک کے کھلنے کا وقت آتا اس طرح‌ سارے گرمیوں‌ کے موسم میں‌ کوئی نہ کوئی پھول کھلے ہوتے۔ ان کے پاس سوئمنگ پول کی چابی بھی تھی جس میں‌ نیلے آسمان کا رنگ جھلکتا رہتا تھا۔ آدم اور حوا کے پاس ہیلتھ انشورنس بھی تھی اور ڈینٹل انشورنس بھی تاکہ اگر ان کو کبھی نزلہ، زکام، کھانسی یا بخار ہوجائے تو وہ باآسانی جا کر ڈاکٹر کو دکھا سکیں۔ وہ سال میں ایک مرتبہ اپنا چیک اپ ضرور کراتے تاکہ آنے والے مسائل کو ہونے سے پہلے ہی قابو میں‌ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ آدم اور حوا کے بچے اپنے اسکول میں‌ اچھا پڑھتے تھے اور اگر وہ نہ بھی پڑھتے تو بھی وہ جنت میں ہی رہ سکتے تھے۔

ان کے بچے جنت میں‌ خوبصورت موسیقی کے آلات بجاتے جن سے جنت میں‌ جنتی موسیقی بھر جاتی۔ جنت میں‌ بہت اچھا فرنیچر بھی تھا، آرٹ بھی، ان کے پاس اچھی اوریجنل پینٹنگز بھی تھیں اور مجسمے بھی۔ حوا کے پاس دو کرسیاں‌ تھیں جو ڈھائی سو سال پرانی اینٹیک تھیں۔ ان پر خدا اور شیطان کی تصویریں کھدی ہوئی تھیں۔ جب لوگ ان کی جنت میں‌ گھومنے آتے تو وہ حیران ہوکر پوچھتے کہ یہ کرسیاں‌ کہاں‌ سے آئیں؟ وہ کہاں‌ سے آئیں اور کہاں چلی جائیں‌ گی یہ تو حوا نہیں جانتی تھی لیکن وہ یہ جانتی تھی کہ ان کرسیوں‌ میں‌ وہ خود بیٹھتے ہیں۔ آدم اور حوا کے پاس ایپل کمپیوٹر بھی تھے، آئی پیڈ بھی، آئی فون بھی، بڑے اسکرین کے ٹی وی، ریڈیو اور سی ڈی پلیر بھی۔ اگر کچھ غلطی سے ٹوٹ جاتا تو اس کو ہٹا کر نیا آجاتا۔ آدم اور حوا کی جنت میں‌ بہت سارے ملازم تھے جو صفائی ستھرائی کرتے، پودے سنبھالتے اور ان کی خدمت میں‌ حاظر رہتے۔ ان کے پاس اچھی گاڑیاں تھیں جو ہائی وے پر کبھی بند نہیں‌ ہوئیں اور نہ ہی ان میں‌ کبھی پیٹرول ختم ہوتا تھا۔ جب وہ دونوں ہاتھ میں‌ ہاتھ ڈال کر مال جاتے تو وہاں‌ ایسا کچھ نہیں‌ تھا جو وہ نہ لے سکتے ہوں۔ وہ گھوم پھر کر واپس آجاتے کیونکہ مال میں‌ جو کچھ بھی تھا وہ جنت میں‌ پہلے سے تھا۔

جب نیا سال شروع ہوتا تو آدم اور حوا اپنے بچوں‌ کو نئے کپڑے، جوتے اور کتابیں، پینسل اور شارپنر دلاتے۔ وہ ان بچوں‌ کو بھی اسکول سپلائز دلاتے جن کے والدین اپنے بچوں‌ کو یہ سپلائز نہیں دلا سکتے تھے۔ اس وجہ سے آدم اور حوا کو ان کے شہر میں‌ لوگ عزت سے دیکھتے تھے۔ آدم اور حوا کے بچے بہت خوبصورت تھے اور ذہین بھی۔ ان کے آگے چل کر زندگی میں کامیاب ہونا دور سے دکھائی دیتا تھا۔ آدم اور حوا کی جنت کے پاس گروسری اسٹور بھی تھا، فارمیسی بھی، ان کی نوکری کی جگہ، بینک اور کھیل کا میدان سب جنت کے اندر ہی تھے۔ آدم اور حوا مل کر مزے مزے کے کھانے بناتے اور ساتھ میں‌ کھاتے۔ وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے تاکہ صحت مند رہیں۔ ان کے پاس اتنی دولت تھی کہ جنت میں‌ ان کے بوڑھا ہونے تک کے لیے کافی تھی۔ وہ نہ صرف اپنے بچوں‌ کے تمام خرچے اٹھا سکتے تھے بلکہ اپنے ماں باپ کو بھی پیسے بھیجتے تاکہ وہ اپنا خیال رکھ سکیں۔ حوا پر بھی بہت سارے لوگوں‌ کی ذمہ داری تھی اور آدم پر بھی لیکن وہ بڑے دل سے ان سب ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ آدم اور حوا کے اچھے دوست تھے جن میں‌ سے ایک سمندر کے ساحل پر رہتے تھے۔

ہر سال آدم اور حوا اپنے بچوں کے ساتھ جنت سے اڑ کر ساحل پر چھٹی منانے جاتے جہاں وہ شارکس کے ساتھ تیرتے اور بچوں کے ساتھ سنو کون کھاتے۔ لیکن جنت میں‌ آدم دل میں‌ خوش نہیں‌ تھا۔ وہ مسلسل حوا پر تنقید کرتا اور چاہتا کہ وہ وہی پہنے جو آدم کہے، وہ وہی کھائے جو آدم کھائے اور وہ وہی سوچے جو آدم سوچتا ہو۔ حوا کی ساری زندگی اور اس کا کیریر انڈیپنڈنٹ تھنکنگ یعنی کہ انفرادی آزاد سوچ پر مبنی تھا اور اسی سوچ کی وجہ سے وہ جنت بنانے میں‌ کامیاب رہے تھے۔ ایسی جنت آدم اور حوا کی پچھلی سات نسلیں بنانے میں ناکام رہی تھیں۔ حوا آدم سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ اس کے لیے چیزیں لاتی، اچھا کھانا بھی پکاتی، گھنٹوں اس کے ساتھ ٹی وی دیکھتی تاکہ آدم کمپنی محسوس کرے۔ وہ روزانہ کام پر جانے سے پہلے اس کا ماتھا چومتی اور دن کے درمیان ٹیکسٹ کرتی کہ آدم ٹھیک ہے کہ نہیں۔ آدم کی ناخوشی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگی جس کی سب سے بڑی وجہ ان کے بچے تھے۔ آدم یہ سمجھ کر ان کو جنت میں‌ لایا تھا کہ وہ تتلاتے رہیں‌ گے اور اس کی گود میں‌ کھیلیں گے۔ خاص طور پر جب ننھی بڑی ہونے لگی تو وہ اس کے لیے شدید صدمے کا لمحہ تھا۔ وہ نظر اٹھاتا تو اس کے ابھرتے ہوئے سینے کو دیکھ کر چلاتا کہ کپڑے بدل لے۔

حوا نے آدم کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ جس وقت ننھی کا جسم اور دماغ نارمل تبدیلیوں‌ سے گذر رہا ہے، وہ اس کے لیے انتہائی اہم اور مشکل وقت ہے۔ اس وقت اس کو اس کے حال پر چھوڑدینا چاہیے۔ جو چاہے پہنے، جتنا چاہے کھیلے کودے یا سوئمنگ کرے۔ اگر اس وقت اس کے دل میں اپنے جسم کے بارے میں‌ منفی جذبات پیدا ہوئے تو وہ ہمیشہ کے لیے ان میں‌ پھنس جائے گی اور اس کی ساری زندگی خراب ہوگی۔ وہ ہمیشہ جھک کر چلنے لگے گی اور اس میں‌ کبھی سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ پیدا نہیں‌ ہوپائےگا۔ آج کی جنت میں اس کو پراعتماد بننا ہے۔ جب وہ جنوں، فرشتوں اور دیگر جنتیوں کو کوئی لیکچر دے یا بزنس ڈیل بنائے تو اس وقت اس کی توجہ اپنے پراجیکٹ پر ہونی چاہیے نہ کہ اپنی چھاتی یا کولہوں پر۔ یہ دماغ خود بخود نہیں بنے گا، اس کو بنانا پڑے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ننھا اور ننھی بھی اپنی ایسی جنت بناسکنے میں‌ کامیاب ہو سکیں جیسا کہ ہم خود بھی ہوئے تو ان کی نشونما کو بڑھاوا دینا ہوگا۔ جب ننھا باتھ روم جاتا تو آدم باہر کھڑا ہو کر انتظار کرتا کہ ننھے نے اتنی دیر باتھ روم میں‌ کیا کیا؟ اس کو سمجھانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں‌ کہ ننھے کے گرد ایک دائرہ ہے جس سے باہر رہنے کی ضرورت ہے۔ ننھے سے کئی مختلف زبانوں‌ میں‌ بات کی جاسکتی تھی جن میں‌ “حقیقتستانی”، “سچستانی”، “اصلی جنتانی” اور “نارمل زندگانی” شامل تھیں۔

لیکن افسوس کی بات یہ کہ آدم ان میں‌ سے کوئی زبان نہیں‌ جانتا تھا جس کی وجہ سے اس کے اور ننھے کے درمیان ایک دیوار حائل ہوگئی تھی جس کے دونوں طرف سے وہ ایک دوسرے کو پہچاننے میں‌ ناکام ہوچکے تھے۔ آدم کو نہ ہی یہ باتیں‌ سمجھ آتی تھیں‌ اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس کو نہ ہی ان کو سمجھنے میں‌ کوئی دلچسپی ہے۔ اس کو دنیا میں صرف ایک بات کی فکر معلوم ہوتی تھی اور وہ یہ کہ جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو تو باقی آدموں کے سامنے ایک ایسا آدم نظر آئے جس کی مٹھی میں‌ ماضی، حال اور مستقبل سب قابو میں‌ رہیں۔ یہ خواہش اس کے لیے اتنی بڑی تھی کہ وہ اس پر حوا اور اپنے دونوں‌ بچے قربان کرنے کو تیار تھا۔ اس کی نظر میں وہ الگ انسان نہیں بلکہ اس کی ملکیت تھے جن کی وجہ سے وہ اچھا یا برا دکھائی دیتا تھا۔ دن گذرتے گئے۔ اچھا کھانا کھانے کے بعد، ورزش کے بعد، چھٹیوں‌ کے بعد جب حوا تھک ہار کر اپنے بستر پر لیٹ جاتی اور آدم کے سینے پر سر رکھتی تو وہ اس کو جھٹک دیتا اور کہتا کہ وہ جنتیات سے عاری ہے۔ وہ روزانہ جنت کے کونے کونے میں جاتا اور اس میں خامیاں‌ تلاش کرتا۔ جنت اس کو ایک اجنبی جگہ لگتی تھی اور وہ جب اپنے ماں باپ کے گھر سے لوٹ کر آتا تو اس کو لگتا کہ حوا اس کی حوا نہیں ہے اور اس کے بچے جو جنت میں‌ پلے بڑھے ہیں وہ اس کے لیے اجنبی ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کے بچے یا حوا جنت میں‌ خوش کیسے تھے اور ان کو بلند تر آسمان سے لٹک کر خودکشی کرلینے کے خیال میں‌ کوئی دلچسپی کیوں نہیں‌ تھی۔

ایک مرتبہ آدم سو رہا تھا اور اس نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا۔ وہ، حوا، ننھی اور ننھا چاروں جنت کے دروازے کے باہر کھڑے ہیں۔ وہ مکمل طور پر ننگے ہیں اور سب لوگ ان کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں۔ آدم کی جھٹکے سے آنکھ کھل گئی، اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور وہ پسینے میں‌ شرابور تھا۔ حوا سے آدم کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی، وہ آدم کے ساتھ ایک عقلمند فرشتے کے پاس گئی جن کے پاس جنت کے مسائل حل کرنے کی ڈگری تھی۔ انہوں‌ نے جنت میں‌ ہونے والے مسائل کے بارے میں‌ توجہ سے سنا اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آدم نے صاف الفاظ میں‌ کہہ دیا کہ حوا وہ حوا کبھی نہیں‌ بن سکتی جس کی اس کو ضرورت ہے۔ حوا نے اس کی آخرت برباد کردی ہے اور وہ ایک نئی حوا کے ساتھ ایک بہتر جنت بنائے گا جس میں‌ ایسے ننھی اور ننھا ہوں گے جو ہمیشہ تتلاتے رہیں‌ گے اور اس کی گود میں‌ کھیلتے رہیں گے۔ وہ وہی پہنیں گے جو وہ پہنائے گا، وہی کھائیں‌ گے جو ان کو کھلایا جائے گا اور ویسے ہی چلیں‌ گے جیسے وہ چاہے گا تاکہ اپنی جنت سے باہر وہ باقی آدموں‌ کے سامنے ایک سپر آدم دکھائی دے۔ وہ سب مل کر ان سے بلند آسمان سے لٹک کر خودکشی کرنے کی باتیں کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ حوا کے لیے ایک دکھی دن تھا۔ حوا آدم سے اور جنت کے ہر کونے سے محبت کرتی تھی اور کیوں نہ کرتی اس نے اپنا سب کچھ اس جنت میں‌ اور اس کے مستقبل میں‌ انویسٹ کردیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ آدم تھکا ہوا اور دکھی دکھائی دے رہا ہے۔ اس نے دیکھا کہ آدم میں ایک اور قدم چلنے کی ہمت باقی نہیں‌ رہی ہے، اتنی بھی نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ کرسکے۔ اس نے آدم کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کیے اور اس کے خوبصورت چہرے کو چوم لیا۔ “تم جانتی ہو کہ تمہیں‌ کیا کرنا ہے!” سانپ پھنکار چکا تھا۔​

Facebook Comments

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
طب کے پیشے سے وابستہ لبنی مرزا، مسیحائی قلم سے بھی کرتی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply