لال لہو کی دھوپ میں لرزاں
دلوں کے پچھلے دالانوں میں
خوابوں کی ٹوٹی الگنیوں پر
خوں رنگ
دھاڑتے چھیدوں والی
وردیاں آ ج بھی لہراتی ہیں
ان چھیدوں نے جن پھولوں کے جسموں کو بانسری بنایا
ان کی دھن پر
درد کے ناگ ہیں اب تک رقصاں
ہیرے کا جگر پتھر کا نکلا
دل کے دھڑکتے برگ گل پر
یادوں کا
تیزاب گرے گا
لیکن ۔۔ میری روح کے لب پر
تڑخی دعا کا نیلا لہجہ۔۔۔
تجھے بھی مولا علم تو ہو گا
مدرسے سے لوٹے نہیں ہیں
میرے بچے!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں