ابوجی کے نام۔۔۔۔طاہر حسین

مجھے آپ سے بہت شکائتیں ہیں اور بہت شکوے کرنے ہیں۔ آپ نے مجھ سے مرد بننے کی امید کیوں رکھی جبکہ آپ خود ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ جذبات کے اظہار کو کیوں آپ مردانگی کے خلاف جانتے تھے۔

مجھے یقین تھا کہ آپکو مجھ سے بالکل بھی پیار نہیں۔ ہمارے درمیان کچھ فاصلہ سا رہا اور پھر لڑکپن آگیا۔ میرے لباس پر اعتراض، میرے دوستوں پر تنقید، میرے مشاغل پر نگاہ کہ یہ سب آپکے طے کردہ مردانگی کے پیمانے سے میل نہیں کھاتے تھے۔ اپنے دوستوں کے بیٹوں سے میرا تقابل حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ سب پرلے درجے کے کوڑ مغز ہیں۔ مگر آپ کی نظر میں وہ اس لئے مجھ سے بہتر تھے کہ انکے ڈیل ڈول میں آپکو مردانگی دکھائی دیتی تھی۔

آپکو یاد ہے وہ دن جب آپ میرا میچ دیکھنے آئے تھے میں اپنے نیٹ کے کسی بھی بیٹسمین کے ٹخنے اپنے یارکر سے توڑ سکتا تھا۔ اس روز میں یہ تہیہ کر کے آیا تھا کہ آپ کے سامنے یہ ثابت کروں گا کہ میں واقعی ایک مرد ہوں مگر آپ کی چبھتی نگاہیں، ساری لائن اور لینتھ بھول گئی۔ مجھے پڑنے والی ہر شاٹ آپکا قہقہہ اور تالیاں، ناکامی اور ذلت کا وہ احساس میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ اس کے بعد شائد آپ نے مجھ سے یہ امید ہی چھوڑ دی کہ میں آپکی بنائی ہوئی مردانگی کی تعریف پر پورا اتر سکتا ہوں۔

میٹرک سے انٹر اور پھر پیشہ ورانہ زندگی۔ ہم میں شائد کچھ فاصلہ بڑھ گیا تھا۔ آپ مجھے کامیابی کی مبارکباد دینے آئے۔ آپکی آنکھوں میں وہ مخصوص طنزیہ چمک نظر نہ آئی بلکہ ایک شفیق سی روشنی تھی۔ آپ زبان سے کچھ نہ بولے بس اچانک جیب سے ایک سنہری گھڑی نکالی اور خاموشی سے مجھے پکڑا کر چلے گئے۔ میں سمجھا کہ شائد مرد ایسے ہی کرتے ہوں۔

دن گزرتے گئے میں قریہ قریہ گھومتا رہا۔ امی کی خواہش تھی کہ میں ہر ہفتے خط ضرور لکھوں اور میں نے ایسا ہی کیا مگر مجھے آپ کے ہاتھ کے لکھے خط کا انتظار رہتا تھا۔ ایک دن آپکا بھیجا ہوا پارسل ملا جس میں آپ کاڈ لیور آئل کی دو بوتلیں، لال کھوہ کی برفی اور کچھ ڈرائی فروٹ اور ساتھ میں آپکا لکھا ہوا ایک خط۔ آپ نے لکھا تھا کہ برفباری کے موسم میں چھت پر برف نہ ٹکنے دینا، پہاڑ چڑھتے ہوئے جب سانس پھول جائے تو رُک کر ضرور سستا لینا کہ پہاڑ کبھی نہیں تھکتے اور کاڈ لیور آئل ضرور استعمال کرنا کہ اس سے جسم گرم رہتا ہے اور آخر میں وہی تاکید کہ مرد بن کے رہنا۔

پہلے جمپ سے چند روز قبل آپ کا ایک اور خط ملا آپ نے اپنے تجربے کی روشنی میں لکھا تھا کہ لینڈنگ سے پہلے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر سانس روک لوں کہ اس سے گرنے کا جھٹکا کم لگتا ہے اور آخر میں وہی بات، کہ خوف زدہ نہ ہوں خیال رہے کہ مرد ڈرا نہیں کرتے۔ میں آج یہ اعتراف کررہا ہوں کہ ہر چھلانگ سے چند لمحے پہلے میری زبان خشک ہو جایا کرتی تھی اور میری ٹانگیں بھی کانپ جایا کرتی تھیں۔

آپ مجھ سے وہ امیدیں کیوں رکھیں جو آپ خود کبھی نہیں کر سکے۔ یاد ہے آپکو جب میں زخمی ہوا تھا۔ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ آپ اسپتال میں آئے تھے لیکن صرف ڈاکٹر سے مل کر چلے گئے کہ آپ مجھے اس حال میں نہیں دیکھ سکتے تھے اور میرے سامنے اپنی تشویش کا اظہار شائد مردانگی کے خلاف تھا۔

جلیس کی قبر پر کھڑے جب آپکی آنکھوں میں آنسو آگئے تو آپ ایک ضروری کال کا بہانہ کر کے گاڑی میں جا بیٹھے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ میں نے وہ سب دیکھ لیا تھا۔ مگر میرے آنے پر آپ نے جھوٹ موٹ کی کال سنتے ہوئے ہیلو ہیلو کہنا شروع کر دیا۔

آپ کا پوتا دو سال کا ہو گیا ہے۔ اسکی شکل، اسکی چال ڈھال اور اس کی عادتیں آپ سے بہت ملتی ہیں۔ مگر میں آپ سے آج برملا کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے محمد علی کو آپ جیسا مرد ہر گز نہیں بنانا جو اپنے آنسؤوں سے ہی ڈرتا ہو۔ جو اظہار سے ہی خوفزدہ ہو اور یہ کہنے کا موقعہ بھی ناں دے کہ “مجھے آپ سے محبت ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپکا بیٹا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply