ادھوری خوشی۔۔(افسانہ) انعام رانا

خبر اتنی اچانک تھی کہ حسن کو یقین ہی نہ  آیا اور وہ کچھ دیر خالی نظروں سے جویریہ کو تکتا رہا۔ اک ندی جس کی آبپاشی کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہوں، اگر اچانک اس کے کنارے پانی سے چھلکنے لگیں تو خوشی ثانوی اور غیر یقینی  حیرت اوّلین ہو جاتی ہے۔ یہ ہی کیفیت حسن کی تھی۔

شادی کو کچھ سال بیت چکے تھے مگر کان اس خبر سے محروم تھے جو عورت کو مکمل اور مرد کو مطمئن کرتی ہے۔ ماں نے تو چھ ماہ بعد ہی دبے دبے اور سال گزرتے ہی کھل کر پوچھنا شروع کر دیا تھا کہ خبر کیوں نہیں آ رہی۔ یہ شکر کہ اس پوچھنے میں اپنائیت اور خیال اس قدر تھا کہ جویریہ تک کو بھی کبھی بُرا نہ  لگا۔ بلکہ ایک دن وہ خود ہی جا کر اپنے ٹیسٹ کروا آئی۔ اب جو جویریہ کے  ٹیسٹ ٹھیک آئے تو ماں نے کھل کر حسن کو ٹیسٹ کروانے کے لیے کہہ دیا۔ ایک مرد کے پاس آ جا کر جو کچھ چیزیں واقعی اس کی ذاتی ہوتی ہیں، ان میں شاید سب سے اہم مردانگی ہے۔ مردانگی ہی ہے جو اسے کولہو کا بیل بنائے تمام ذمہ داریاں ہنس کر پوری کرنے کی طاقت دیتی ہے، مشکلات سہنے کا حوصلہ دیتی ہے اور چلائے رکھتی ہے۔ اب اس مردانگی سے وابستہ معاملات میں بھی سب سے اہم اسکا بچہ پیدا کرنے کے قابل ہونا ہے کہ مرد اور عورت انٹیلکچوئل مباحثوں میں جو بھی کہیے، انکی پیدائش کا سب سے اہم مقصد نسل ِ انسانی کی افزائش ہی ہے۔ سو جب کسی مرد کے بیج پر سوال آئے تو اسے اپنی مردانگی کا پورا محل زلزلے کی زد میں لگتا ہے۔ حسن بھی اسی زلزلے کی زد میں رہا، جب تک کہ ٹیسٹ کا نتیجہ اسکی مردانگی کا ثبوت نہ  بن گیا۔

دونوں ہی کے ٹیسٹ نارمل آئے تو بات اب طب سے نکل کر روحانیات پہ پہنچ گئی۔ ماں کے وظائف میں اضافہ ہو گیا اور جویریہ نے پنج وقتہ نماز شروع کر دی۔ بلکہ کبھی کبھی تو اب حسن بھی سجدے دے لیتا تھا۔ دعا میں اٹھے ہاتھوں کو اولاد کے سوا کچھ اور مانگنے کے لیے کیا اٹھانا تھا۔ کبھی کبھی جویریہ کا حوصلہ ٹوٹنے لگتا تھا، تنک مزاج ہو جاتی تو کبھی حساس۔ حسن نے کئی بار اسے اکیلے روتا ہوا پایا۔ کیا ہوا ؟۔۔پوچھنے پر  جوا ب  خاموشی ہوتی یا پھر کبھی کبھار کوئی شکوہ  بھرا جملہ۔ جیسے اک دن کہنے لگی کہ شرابیوں نشئیوں کے بچے ہو جاتے ہیں نجانے مجھ میں کیا کمی ہے۔ حسن ان مواقع پہ فوراً  کونسلر بن جاتا تھا۔ دیکھ ہم جو کچھ کر سکتے تھے کیا، کچھ چیزیں خدا پہ بھی تو چھوڑنا ہوتی ہیں۔ تو فکر نہ  کر ،وہ ہمیں مایوس نہیں کرے گا۔ کبھی کبھار اسکو ہنساتا تھا، اچھا اگر تو اجازت دے تو میں پتہ کروں کیا پتہ میرا کوئی بچہ ہو اور مجھے پتہ نہ ہو، وہ لے آتا ہوں۔ یا پھر کبھی چھیڑتا کہ اگر میرے سے نہیں ہو رہا تو کوئی اور مرد ٹرائی کر لے اور وہ توبہ توبہ کہہ کر ہنسنے لگتی۔ وہ جانتی تھی کہ حسن اسے تسلی دیتا ہے مگر اندر کہیں بچے کی خواہش اسے بھی ٹیس دیتی ہے،مگر مردانگی کہیے یا جویریہ سے محبت، وہ اس ٹیس کا درد چہرے پہ نہیں آنے دیتا تھا۔

اب اس سب میں جب یکدم جویریہ نے باقاعدہ آنسو بہاتے ہوئے اسے خبر دی کہ وہ امید سے ہے تو حسن کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ ری ایکشن کیا دینا ہے۔ وہ کچھ دیر تو خالی آنکھوں سے اسے تکتا رہا اور پھر اسے چمٹا کر ہنسنے لگا۔ سوائے الحمداللہ کہنے کے اسکے منہ سے کچھ اور نہ  نکل پایا۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس خبر پہ زیادہ خوش حسن اور جویریہ تھے یا حسن کی ماں۔ مائیں جو بیٹے کی پیدائش کے ساتھ ہی شاید انکے بچوں کا نام بھی سوچ لیتی ہیں، انکی زندگی کی ایک بڑی خواہش یہ خبر سننا ہی ہوتی ہے۔ بہنیں اور بھائی خواہ حسن کے تھے یا جویریہ کے وہ اپنی جگہ خوش تھے کہ حسن جو ان پہ اور انکے بچوں پہ جان دیتا تھا اب خود اسکی گود میں اپنا بچہ آنے کو تھا۔ حسن جویریہ کو چھیڑتا تھا کہ دیکھا میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں، بالآخر نتیجہ دے ہی دیا نا اور وہ مسکرا دیتی۔

کچھ ہفتوں بعد دونوں سکین کے لیے گئے۔ جب ڈاکٹر کی سکرین پہ ایک دھبہ سا ابھرا تو جویریہ آنسوؤں کے ساتھ کھلکھلا کر ہنسنے لگی، مگر حسن ہونق بن کر سکرین کو دیکھتا تھا۔ اسے تو بس ایک سیاہ دائرہ سا نظر آیا جسے ڈاکٹر اسکا بچہ کہہ رہا تھا۔ لیکن اسکی شکل کہاں ہے؟ حسن نے پوچھا۔ ڈاکٹر ہنسنے لگی۔ “ارے بھئی ابھی تو پورے نو ماہ باقی ہیں، دھیرے دھیرے یہ مٹر کا دانہ جو سفید سا ہے یہ بڑا ہو گا، دھڑکن بنے گا، شکل بنے گی اور پھر تمھاری گود میں آئے گا، صبر رکھو”۔ حسن نے بیالوجی پڑھی تو تھی مگر ایسے سکرین پر پہلی بار ہی دیکھی تھی۔ گھر آئے تو وہ کتنی دیر الٹ پلٹ کر سکین کو بلب کی روشنی میں دیکھتا رہا۔ جب بھی وہ اس سفید نقطے کو دیکھتا تو مسکرا دیتا۔ اس مسکراہٹ میں اطمینان بھی تھا اور فخر بھی۔ جویریہ کی جون تو کچھ ایسی بدلی کہ جیسے بچہ بس ہونے کو ہے۔ کچھ احتیاطیں تو اسے حسن کی ماں ،اسکی اپنی ماں اور حسن کی بہنوں نے بتائیں اور کچھ وہ انٹرنیٹ سے پڑھ پڑھ کر کرنے لگی۔ حسن کا گھر کے اندر سگریٹ پینا بند ہو گیا، جویریہ کا جنک فوڈ یا بے وقت کا کھانا ختم ہوا۔ روز جویریہ انٹرنیٹ سے ایسے میوزک سننے لگی جو پریگننٹ عورتوں کےلیے ہوتے ہیں، وہ دعائیں مانگنے لگی جو اس حالت میں عورتوں کو مشکلات سے بچنے کےلیے تعلیم کی جاتی ہیں۔ ایک دن کہنے لگی کہ حسن تمھیں بیٹا چاہیے یا بیٹی؟ وہ ہنسا، پاگل بیٹا ہو یا بیٹی، ہمیں اولاد مل رہی ہے اسی کا شکر ہے۔ لیکن پھر بھی؟ ہمم۔ پتہ نہیں پر میں نے جب بھی سوچا کوئی بیٹی والا نام ہی ذہن میں آتا تھا، حسن نے مسکراتے ہوے کہا۔ مردوں کی یہ بھی عجب نفسیات ہے کہ اکثر انکو پہلی اولاد بیویوں کے برعکس بیٹی زیادہ بھاتی ہے۔

سب کچھ ہی ٹھیک تھا مگر خدا اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ یکدم جویریہ کو درد اٹھا اور خون کے دھبوں نے اسکی شلوار کو آلودہ کر دیا۔ دونوں ڈاکٹر  کے پاس  بھاگے اور جب ڈاکٹر بولی تو حسن خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ یکدم جویریہ کی سسکیوں نے اسے چونکا دیا اور اسے احساس ہوا کہ ڈاکٹر نے جو الفاظ بولے ہیں  ان کا مطلب کیا تھا۔ خوشی جوآئی تھی ادھوری رہ گئی تھی۔ وہ جویریہ کو لپٹائے ہوئے گھر لے آیا۔ اب اسکا مزید امتحان تھا کہ اک جانب تو جویریہ کو سنبھالے اور دوسری جانب ماں ڈھے گئی تھی۔ جویریہ اور حسن کی ماں جب گلے مل کر رونے لگیں تو وہ انکو حوصلہ دینے لگا۔ ارے بھئی اللہ پہ یقین رکھیں، اسکے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔ وہ حوصلہ دیتا رہا۔ ماں بیٹے کو گلے لگائے رونے لگی تو اسے سمجھانے لگا۔ امی کیا ہو گیا، آپ اسکو سمجھائیں، یہ ہو جاتا ہے، اللہ کی ایسے ہی مرضی، اللہ پھر کرم کر دے گا۔ ماں بے شک ،بے شک اور آمین کہتی رہی ،مگر روتی رہی۔ جویریہ کے ساتھ تنہا ہوا تو روتی ہوئی جویریہ کو سینے سے لگا کر بیٹھ گیا۔ سن، ہاں رونا نیچرل ہے، پر پریشان نہ  ہو، کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا کہ ہم ماں باپ بن سکتے ہیں۔ جویریہ ڈپریشن کے اس موڑ پہ تھی جب عورتیں خود کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ نجانے مجھ سے کیا غلطی ہوئی، میں تو اتنی احتیاط کر رہی تھی۔ ایسے بالکل نہ سوچو، حسن نے جھنجھلا کر مگر نرم لہجے میں کہا۔ دیکھ یار بس یہ ہونا تھا ہو گیا، نہ  تیرا قصور ہے نہ  کسی اور کا۔ اللہ پہ یقین رکھ، وہ ہمیں پھر نوازے گا۔ جویریہ فقط آنسو بہا کر جواب دیتی رہی۔ حسن نے اسکا چہرہ اپنی انگلیوں سے اٹھا کر کہا، ڈارلنگ تو فکر ہی نہ  کر، میں ڈبل محنت کروں گا تو کچھ ہی مہینوں میں دوبارہ پیٹ پکڑ پکڑ کر چلے گی اور جویریہ روتی روتی اسکی بغل میں منہ دے کر رونے لگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

رات کے دو بجے تھے۔ حسن کی ماں نیند کی گولی کھا کر سو گئی تھی۔ جویریہ نے گولی تو نہیں کھائی مگر حسن کی تسلیاں اور تھپتھپاتا ہاتھ اس کےلیے لیگزوٹنل کا کام کر گیا تھا۔ نیند میں بھی اسکے تکیے کا اک گوشہ تر تھا کہ شاید سوتے ہوئے بھی کچھ آنسو گرتے رہے تھے۔ مردوں کا معلوم نہیں مگر عورت کے لیے پریگننسی کا احساس ہی انکو ماں بنا دیتا ہے۔ ان کےلیے انکے وجود میں ایمبریو یا مٹر کا دانہ نہیں، مکمل بچہ ہوتا ہے، جس سے وہ باتیں کرتی ہیں، کہانیاں سناتی ہیں، شوہروں اور ساسوں کی برائیاں بھی کر لیتی ہیں۔ مس کیرج عورت کےلیے جیتے جاگتے بچے کی موت ہوتی ہے خواہ وہ ابھی فقط خون کا قطرہ یا لوتھڑا ہی کیوں نہ  ہو۔ حسن نے نیم تاریک کمرے میں بہت پیار سے جویریہ کو دیکھا اور انگلی سے اسکی پلکوں پہ اٹکا ہوا آنسو صاف کر دیا۔ وہ بہت آہستگی سے اٹھا، دراز سے اک لفافہ نکالا اور کمرے سے نکل آیا۔ گھر کے ایک کونے پہ اک الگ تھلگ سا پاؤڈر روم تھا۔ حسن نے بتی جلائی، کموڈ پہ بیٹھا اور لفافے کو کھول لیا۔ سامنے ایک سکین تھا۔ وہ کچھ دیر سفید نقطے کو دیکھتا رہا اور پھر اسے سینے سے لگا کر آہستہ آہستہ رونے لگا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply