مزدور بچوں کی زخمی مسکراہٹ۔مہر ارم بتول

بچے ہمیشہ ہنستے مسکراتے، کھیل کود کرتے ہی  اچھے لگتے ہیں۔ بچے جو ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ ہوتے ییں۔ لختِ جگر ہوتے ہیں اور پڑھ لکھ کر ماں باپ کا غرور ہوتے ہیں۔ وہیں کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے کھیل کود کی عمر میں بد قسمتی سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ بچوں کی مزدوری کے حوالے سے پاکستان چھٹے نمبر پر ہے جو کہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ویسے تو دنیا بھر میں کمسن بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد 17 کروڑ سے زیادہ ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 1 کروڑ ہے اور تقریباً اتنی ہی تعداد محنت مزدوری کرنے والے بچوں کی بھی ہے جن میں زیادہ تر بچے 14 سال سے کم عمر ہیں۔ اس کی بڑی وجہ غربت ہے۔ اسی غربت کی وجہ سے ماں باپ بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ مجبوراً انہیں محنت مزدوری کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ اسی مجبوری کے تحت مختلف ہوٹلوں، ورکشاپوں، بھٹوں، پٹرول   پمپوں اور فیکٹریوں کے علاوہ بڑی تعداد گھروں میں بھی کام کر رہی ہے اور حال ہی میں کتنے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں ان کام کرنے والے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

کچھ میڈیا پر سامنے آئے اور ہزاروں ایسے بھی ہیں جن پر ہونے والے ظلم و تشدد کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ پیسوں سے یا ڈرا دھمکا کر منہ بند کر دیا جاتا ہے   اور کچھ بد نصیب اپنی جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔ پر بھلا ہو ہمارے انصاف دلانے والے اداروں کا جن کے چکر میں عدالتوں کے دھکے کھا کھا کر ہی انصاف کے متلاشی خرچ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اب تو پاکستان میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون بھی موجود ہےپر لگتا ہے کہ جیسے یہ قانون فقط کاغذوں تک ہی محدود ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ ملک سے غربت کے  خاتمے کے لئے مؤثر اقدامات کرے۔ لیکن یہاں معاملات الٹ ہیں۔ چائلڈ لیبر کے خلاف قانون تو بنا دیا مگر کیا قانون بنانے والوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا یہ بچے جو دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ کوئی فیکٹ فائنڈنگ کی گئی؟ کسی بچے کے گھر کے حالات یا افرادِ خانہ کی تعداد کتنی ہے جن کی ذمہ داری اس معصوم بچے نے اٹھائی ہے؟ کیا اس کے ماں باپ زندہ بھی ہیں؟ کہیں کوئی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے ان کا سائبان تو نہیں چھن گیا؟

یہ سب جاننا بے حد ضروری ہے کیونکہ آپ صرف قانون کے نام پر کسی غریب کے منہ کا نوالہ نہیں چھین سکتے۔ یہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے چند اہم کام کرنا بہت ضروری ہیں جیسے کہ جو بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں ان کے افرادِ خانہ کی تعداد معلوم ہو۔ حکومت ایسے بچوں کے مالکان، جہاں وہ کام کرتے ہیں، کو پابند کرے کہ بچوں کے لئے کام کا وقت متعین کریں اور معاشرے میں ایسے سٹریٹ سکول قائم کئے جائیں جہاں یہ بچے اپنے کام سے ایک گھنٹہ رخصت پر اس سکول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔

ویسے تو حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ مختلف بھٹوں پر کام کرنے والے 50 ہزار بچے سکول میں داخل کروائے جا چکے ہیں اور انہیں ماہانہ وظیفہ بھی دیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو کام کی جگہ پر تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کو ان کی محنت کے حساب سے اجرت دی جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو ان بچوں کےلئے ہیلتھ کارڈز کا اجراء بھی کرنا چاہیے تاکہ یہ غریب بچے یا ان کے گھر والے کسی بیماری کے باعث موت کے منہ میں نہ چلے جائیں۔

چھینک بھی آنے پر لندن چلے جانے والے حکمران ان معصوم بچوں کیلئے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں (اگر ضمیر اس کی اجازت دے تو) کیونکہ اگر ان بچوں کے لئے کوئی مؤثر اقدامات نہ کیے گئے اور چائلڈ لیبر قانون کے تحت ان سے محنت مزدوری کا حق بھی چھین لیا گیا تو یہ بچے یقیناً غلط ہاتھوں میں جانے پر مجبور ہو جائیں گے جہاں وہ چور، ڈاکو اور دہشت گرد ہی بنیں گے۔ اس گھمبیر مسئلے کو حل کرنے کے لئے  ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔ اس کے علاوہ یہ کام ملک میں ہیومن رائٹس پر کام کرنے والی این جی اوز، سوشل سکیور ٹی  کے ادارے اور مخیر حضرات بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے تو اعمال کر دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ نیت کریں تو سہی، یقیناً ان مزدور  بچوں کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ہم سے مل کر ان کی تکلیف ختم نہ ہو لیکن درد کو تو کم کر ہی سکتے ہیں۔

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply