آج والدین کو بھی تربیت کی ضرورت ہے۔اسماء مغل

بچوں کو کچھ بھی سکھانے اور تربیت کا مسئلہ تو ہمیشہ سے رہا ہے لیکن فی زمانہ بچوں سے زیادہ والدین کی تربیت ضروری ہو گئی ہے۔ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں کچھ بھی ہو جائے الزام آرام سے سامنے والے پر دھر دیا جاتا ہے۔گھروں میں اس رویے نے سرطان کی مانند اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس رویے کے نقصانات کیا ہیں۔بحث مباحثوں میں،الزام تراشی میں کئی گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں،لیکن دد لفظوں میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے،معذرت کرنا پسند نہیں کرتے،اپنا اور دوسرے کا وقت نہیں بچاتے۔

گھروں کے بڑوں میں جب یہ رویہ موجود ہو وہاں بچوں کی ذہنی حالت کتنی ابتر ہو گی اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔اگر والدین اس رویے کے عادی ہو ں تو یہ اور بھی سنگین بات ہے کیوں کہ بچے ہمیشہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھتے ہیں، ان کی تربیت اور کچھ سیکھنے کا پہلا ذریعہ والدین ہی ہوتے ہیں۔والدین کے مابین لڑائی جھگڑا،چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث،ایک دوسرے پر چیخناچلانا،بچوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے،بچے انہی رویوں کو اپنا لیتے ہیں۔

والدین کے یہ رویے بچوں میں عدم برداشت،جلد بازی،اور رویوں کے غلط استعمال کو فروغ دیتے ہیں،بڑے بچے چھوٹے بچوں پر حکم چلا کر اور چھوٹے بچے بڑوں کی نا فرمانی کرکے اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ امی بھی تو ایسے بات کرتی ہیں،ہم کیوں نہ کریں۔۔۔۔بچوں سے کیسے بات کرنی ہے؟کن باتوں کا خیال رکھنا ہے؟نرم اور سخت الفاظ کا چناؤ کس کس مقام پر کرنا ہے؟بچوں کے سامنے بڑے آپس میں کیسے بات کریں؟ان سب باتوں کا سیکھنا بچوں سے زیادہ بڑوں کے لیے ضروری ہو چکا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ بچو ں کے سامنے آپس کے جھگڑوں اور بحث سے پرہیز کریں،ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کریں۔والدین کے ایسے جارحانہ رویوں کی بدولت بچے نفساتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں،اندر ہی اندر گھٹنا شروع کر دیتے ہیں،خود اعتمادی سرے سے ہی غائب ہو جاتی ہے،ایسے حالات میں بچے والدین سے بھی اپنے دل کی بات کہنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں اور اسی جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں کہ ان کی بات یا سوال پر والدین کس ردعمل کا اظہار کریں گے۔لہذایہی خوف انہیں دل کی بات دل میں ہی رکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ اگر ان کے بیچ کسی بات پر کوئی اختلاف ہو جائے تو اس بارے میں بچوں کے سامنے گفتگو نہ کریں،اگر بات کرنا بہت ضروری ہو تو مہذب انداز اور شائستہ الفاظ کا استعمال کریں جس سے ہر گز بچے کے ذہن میں کوئی منفی سوال اور خیال نہ ابھرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خود اعتمادی کی کمی بچوں کو زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے لے جاتی ہے۔بچوں کی ذات میں رہ جانے والی زیادہ تر خامیوں اور کمی کے ذمہ دار گھر والے ہی ہوتے ہیں اور بعد میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے بچے کو ہی اس کی تربیت میں رہ جانے والی کمی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔رویے کی یہ صورت ٹھیک نہیں۔اپنے بچوں کی زندگی میں موئثر کردار ادا کیجیئے۔ان کے لیے عملی نمونہ بن کر زندگی میں آسانی پیدا کریں اور بہترین انسان اور والدین ہونے کا ثبوت دیجئے۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply