ستیہ پال آنند کی تحاریر
ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

میں ڈورین گرؔے ہوں(دو شخصیتوں کا مر قع ایک شخص)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اک مستغیث ، بد گو، تہمت تراشتا ہے کیڑے نکالتا ہے، کیچڑ اچھالتا ہے بدعت، دروغ حلفی اس کی شہادتیں ہیں دھوکا دھڑی میں ماہر، سب کو پچھاڑتا ہے سالوس، ڈھونگیا ہے، بکواس جھاڑتا ہے جھوٹا، دروغ گو تو ۔۔←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب و ستیہ پال آنند

یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ کہ جب دل میں تمھیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند یقیناً صنعت ِ ترسیع وہ تسبیع ہے جس سے سبھی ارکان←  مزید پڑھیے

ستیہ پال آنند بنام مرزا اسد اللہ خان غالب

(ایک نظم جس میں صرف ستیہ پال آنند ہی محو کلام ہیں۔ مرزا غالب شاید عالمِ لاہوت میں ان کی شکائتیں سن رہے   ہیں) اسدؔ کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں، در←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب و ستیہ پال آنند

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیوں کر ہو ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند عجیب حلیہ ہے اس شعر کا، جناب من ہے فارسی کا فقط ایک لفظ گنتی←  مزید پڑھیے

پوسٹ کارڈ نظمیں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

زندہ درگور اور قبرستان میں بیٹھے ہوئے میت کے ساتھی لوگ جن میں  پوپلے منہ کے بڑے بوڑھے ضعیف العمر بیوہ عورتیں بُدبُداتے، سر ہلاتے اور رہ رہ کر سناتے اُن کے قصے جو کبھی زندہ تھے۔۔اور اب اپنی قبروں←  مزید پڑھیے

تم تو سیدھے بچپن سے بوڑھے ہو گئے آنندؔ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اپنی ساٹھویں سالگرہ(1977) کے دن تحریر کردہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سن تو، ستیہ پال آنند وید، شاستر، گیتا عمر کی اکائیوں کو آشرم سمجھتے ہیں چار آشرم، جیسے زندگی کے عرصے میں وقت کے پڑاؤ ہیں عازم ِ سفر ہونا شرط ہے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب وستیہ پال آنند

ہم موحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترک ِ ر سوم ملتیں جب مٹ گئیں ، اجزائے ایماں ہو گئیں ۰۰ ۰۰ ۰۰ ستیہ پال آنند آپ اگر منظور فرمائیں تو بسم اللہ کریں مر زا غالب ہاں، عزیزی، صبح کاہنگام←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم اُلٹے پھر آئے، در کعبہ اگر وا نہ ہوا ستیہ پال آنند آپ اگر کہتے , بصد نخوت و طرہ بازی الٹے پھر آئے، در میکدہ گر وا نہ←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

شب خمار ِ شوق ِ ساقی رستخیز اندازہ تھا تا محیط ِ بادہ صورت خانہ ٗ خمیازہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند بندہ پرور، پرسش ِ احوال ہے، بے جا ، مگر اہم کیوں ہے رات کا احوال نامہ ،←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

جوہر ِ دست ِ دعا آئینہ یعنی تاثیر یک طرف نازش ِ مژگاں و دگر سو غم بار ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند میں سمجھ پایا نہیں مصرع ء  اولیٰ کو، حضور مر زا غالب ہاں ، بتاؤ  تو ذرا، کیا←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آ ئینہ  ء باد ِ بہاری کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آ نند سمجھنا چاہتا ہوں آپ کی کچھ رہنمائی سے لطافت تو کنایہ سادگی، پاکیزگی کا ہے صفائی، سادہ←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے شعلہ ء عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد ۔۔۔ ستیہ پال آنند شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے شعلہء  عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد پہلے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

نہ حشر و نشر کا قائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند خدا کے واسطے‘‘ خود میں ہی اک قسم ہے، حضور تو کیا یہ نقص ہے یا←  مزید پڑھیے

وما ارسلنک الا رحمت اللعالمین۔۔ستیہ پال آنند

کئی برس پہلے جب امریکہ  میں اہل اسلام کے خلاف نفرت زوروں پر تھی تو یہ واقعہ پیش آیا کہ میں مسجد کے باہر کھڑا ایک شاعر دوست سے گفتگو میں مصروف تھا۔ قریب سے کار پر جاتے ہوئے دو←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

شور ش ِ باطن کے ہیں احباب منکر، ورنہ یاں دل ِ محیط ِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے ۔۔۔ ستیہ پال آنند اہل ِ فارس کی طرح، اے بندہ پرور، آپ بھی کچھ عجب اغلاط کے وہم و←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

خیال ِ مرگ کب تسکیں دل ِ آزردہ کو بخشے مر ے دام ِ تمنـا میں ہے اک صید ِ زبوں، وہ بھی ستیہ پال آنند مجھے تو سیدھی سادی بات کرنےکا سلیقہ ہے مجھےیہ استعارہ غیر شائستہ سا لگتا←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

تیرا انداز ِ سخن شانہ ٔ زلف ِ الہام تیری رفتار ِ قلم، جُنبش ِ بال ِ جبریل ستیہ پال آنند شاہ کی شان میں ہے یوں تو قصیدہ، لیکن کیوں مرے د ل میں کھٹکتی ہے یہ اک بات،←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

کمال ِ گرمیٗ سعی ِ تلاش ِ ِ دید نہ پوچھ برنگ ِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند کوئی حساب بھی ہے ان اضافتوں کا، حضور؟ ’’کمال ِِ گرمی ء سعی ِ ِ تلاش دید‘‘←  مزید پڑھیے

غزل پلَس۔۔ستیہ پال آنند

کون ہیں یہ دو جَنمے اِنساں ؟ مَیں اور مَیں ایکــ اکَہرے’ پھر بھی جُڑواں ‘ مَیں اور مَیں تُو اور تُو تو شاید بُوڑھے ہو بھی چکے دیکھ کہ اِس پیری میں جواں ہیں ‘ مَیں اور میں مَیں←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا میری آہ ِ آتشیں سے بال ِ عنقا جل گیا ستیہ پال آنند بندہ پرور، مجھ سے گر شاکی نہ ہو ں تو یہ کہوں کیا ضر ورت تھی غلو کی←  مزید پڑھیے