ستیہ پال آنند بنام مرزا اسد اللہ خان غالب

(ایک نظم جس میں صرف ستیہ پال آنند ہی محو کلام ہیں۔ مرزا غالب شاید عالمِ لاہوت میں ان کی شکائتیں سن رہے   ہیں)

اسدؔ کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے
نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں، در پردہ ’یا رب‘ ہا
۔۔۔۔۔۔
(اس نظم کو رن۔آن لائنز کے طریق کار سے پڑھا جائے)
۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند گویا ہیں
“قوافی ’رّب‘ و ’تب‘، ’مطلب‘، ردیف اک صوت، یعنی “ہا‘
عجب حلیہ ہے اس حلقوم مقطع کا
کہ ’یا رب‘ اِسم ِواحد ۔۔۔اور ’ہا‘ اس پر
برائے ’جمع‘ کردن ریزہ ہائے عنفی و عطفی۰)۱)
چلیں ، اک عام قاری سا سمجھ کر آپ سےپوچھیں
کہ کیا ’’ربّ ہا ‘‘ غلط العام ہو گا یا کہ ’’یا ربّ ہا‘‘؟
کہ دونوں ہی غلط ہوں گے؟

(۲)
چلیں چھوڑیں کہ ہم سب جانتے ہیں ۔۔
آپ کے وقتوں میں ایسی کوئی جدت ہی نہیں تھی ۔۔
دونوں جانب ’واؤ‘ کے دو حرف یا ’’واوَین ‘‘لکھ کر
لفظ یا ترکیب یا جملے کو قلعہ بند کرنے کی
چلیں چھوڑیں کہ ’یا ربّ‘ کو
فقط ’یک صوت ‘ ہی سمجھا گیا ہے ،یعنی اک نعرہ
تو ’’یا ربّ ہا‘‘ کو بالّسان ہی سمجھیں

(۳)
چلیں پیچھے؟
’’اسدؔ کوبت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے‘‘
یقینا ً ہے
مگر اک ’آشنائی‘ تک ہی رہتا یہ تعلق تو ۔۔۔
یقیناً  مان جاتے ہم
مگر اس پر اضافہ۔۔۔ ’درد‘ کا؟
’درد آشنائی‘ ؟ اور بتوں سے؟
کون بہتر جانتا ہے ایک قاری سے
کہ سچ کیا ہے، دروغ ِ نا روا کیا ہے

(۴)
’’غرض‘‘ کو بھی ذرا دیکھیں
’’غرض‘‘ ۔۔۔۔تخفیف ۔۔۔ ’’غرضیکہ‘‘ کے لیے، شاید؟
چلیں، تسلیم۔۔۔
پر یہ لفظ در آیا ہے گویابے سبب،بے معنی و مطلب
کہ اس سے پیشتر اک شائبہ تک بھی نہیں ملتا
کہ کوئی بحث جاری تھی اسدؔ کے بت پرستی سے تعلق کی
کہ ’غرضیکہ‘ کے لیے شاعر کوتکیے کی ضرورت ہو
’’غرض‘‘ کی کیا غرض تھی یاں؟
کہو، ’بھرتی‘ کہیں اس کو؟
کہ یہ فاضل تو لگتا ہے کسی آگاہ قاری کو

(۵)
غلط ہے ’’نالہ ٔ ناقوس‘‘ ۔۔۔ شاعر کو کوئی کیسے یہ سمجھائے
کہ اک ناقوس(یا اک ’شنکھ) کی آواز ہوتی تھی
بلانے کے لیے بھگتوں کو مندر میں
خوشی تھی اس میں۔۔
کوئی رونا دھونا، نالہ کش ہونا نہیں مطلوب تھا
ناقوس کی آواز سے ۔۔۔ یعنی
لڑائی میں سپاہی اک اسی آواز کو سن کر
ہی دھاوا بولتے تھے اپنے دشمن پر
پجاری بت کدے کابھی وہی پیغام دیتا ہے
(پرستش کرنے والوں کو
کہ  آؤ ، وقت ہے اب آرتی کا اِس شوالے میں
یہی مُلّا کا فرض ِ اوّلیں ہے اُس کی مسجد میں ۔۔۔۔
نماز ِ با جماعت کا بلاوا ، یااذاں آہنگ ِ شیریں میں
تو گویا ’نالۂ ناقوس‘ میں’ نالہ‘
فقط اک غیر طلبیدہ اضافہ ہے

(۶)

نہاں ہیں نالہ ٔ ناقوس میں در پردہ ’ یا ربّ ہا‘
چلیں، ’یا ربّ‘ سے ’ہا‘ کو تسمہ پا کرنے پہ لے دے ہو چکی۔۔۔۔
اب مدعا اس شعر کا دیکھیں

(۷)

بہت ہیں بت پرستی کے حوالے غالب دیندار میں، لیکن
بلاغت اور طلاقت کا یہ اک نادر نمونہ ،بے بدل مصرع
یقیناً سب پہ حاوی ہے

(۸)

’’نہاں ہیں نالہ ٔ ناقوس میں در پردہ ۔۔۔۔‘‘
کیا؟ دیکھیں ، ذرا سمجھیں
وہی آواز، لا اللہ ال اللہ ۔۔ یقینا جو اذانوں کی صدا بھی ہے
ہزاروں پردہ ٔ ہائے صوت میں مخفی، مگر ظاہر
(وہی آواز ’’اللہ ایک ہے‘‘، (دُوجا نہیں کوئی)

(۹)

تو یہ ناقوس ہو ۔۔۔ آواز بھگتوں کو بلانے کی
نماز ِ با جماعت کے لیے میٹھی اذاں ہو ۔۔۔
ایک ہی آہنگ ہے
اللہ کی توحید کا ، لوگو!
۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

غالب کی فارسی غزل سے ماخوذ

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply