ستیہ پال آنند کی تحاریر
ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔9)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم ِ سماع ٍ گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں ——– طالبعلم ایک “جاں”اور ” دم ِسماع”ہیں اسماءالصفات “چنگ و ربا ب ” ہیں مگر اشیاء کے اسم ِخاص ان←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔8)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پئے نظر ِ کرم تحفہ ہے شرم ِ نا رسائی کا بخوں غلطیدہ ء صد رنگ دعویٰ  پارسائی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ استاد ستیہ پال آنند عزیزو ، پہلے میں ہی پوچھتا ہوں کچھ سوال اپنے یہ تحفہ کیا ہے جو نظر←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔7)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھُلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک ـ’’یک قدم وحشتـ ‘‘؟ فقط اک ہی قدم کیا، اور بس؟ سر حد ِ قائم مزاجی سے پر ے←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔6)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​دل حسرت زدہ تھا مائدہ لذتِ درد کام یاروں کا بقدر لب و دنداں نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک دیکھیں حسرت زدہ ” آزردہ “کے معنی میں اگر اور پھر “مائدہ” ۔۔۔۔”آمادہ” یا” راضی” سمجھیں “لذت ِ در د” کو لیں←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔5)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​ اصل و شہود و شاہد و مشہو د ایک ہے حیران ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں (اس نظم میں دو بحور کا اشتمال اور اشتراک روا رکھا گیا) طالبعلم ایک ہے”اصل ” سے مراد کیا بنیاد، بیخ،←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔4)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر بے تکلف ہوں وہ مشت ِخس کہ گلخن میں نہیں ۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک پہلے دیکھیں کیا وطن غالب کا ہے ہندوستاں؟ اور پھر پوچھیں وطن سے ہے فقط دِـلی←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔3)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​ نہ حشر و نشرکاقائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے، ایسے کی پھر قسم کیا ہے طالبعلم ایک ذرا جو غور سے دیکھا تو یہ نظر آیا “خدا کے واسطے” خود میں ہی اک قسم ہے، جناب←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔2)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اسد ؔ بزم ِ تماشا میں تغافِل پردہ دار ی ہے اگر ڈھانپے توُ آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ عر یاں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک اسد خود سے مخاطب تو نہیں اس شعر میں شاید یہ کوئی اورہی ہے جو←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔2)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ۔ ایک دونوں جہان کیا ہیں ذرا یہ، بتائیں تو دنیا و مافیہا ہیں کیا؟ یا اور بھی کچھ ہیں؟←  مزید پڑھیے

یہ ایلچی گری لفظوں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ ایلچی گری لفظوں کی (ایک) یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا←  مزید پڑھیے

لاوارث۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​(سمتھسونین انسٹیٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی میں منعقد کی گئی قدیم ہندوستانی نوادر کی ایک نمائش دیکھنے کے بعد) چھ ہزار برسوں کی جاگتی ہوئی آنکھیں اس گپھا کے اندر تک میرا پیچھا کرتی ہیں مجھ سے پوچھتی ہیں کچھ اس←  مزید پڑھیے

​ فَا عتَبِرُوُ یا اولی اَلبصار۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیسی بینائی، کہاں کی پیش بینی؟ جانتے بھی ہیں کہ دشمن کون ہے لیکن سبھی پنبہ دہن ہیں دائیں بائیں دیکھتے سب ہیں مگر یہ سوچنا اک چیستاں ہے کون مار آستیں ہے؟ کس نے پھن کاڑھا ہواہے؟ دور بیں←  مزید پڑھیے

کفن کی جیب کہاں ہے؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ تین دن بہت بھاری ہیں مجھ پہ جانتا ہوں مجھے یہ علم ہے، تم اپنے اختیارات کے تحت مری حیات کا اعمال نامہ پرکھو گے برائیوں کا، گناہوں کا جائزہ لو گے میں جانتا ہوں فرشتو کہ مجھ پہ←  مزید پڑھیے

آسماں کی چھت کہاں ہے؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

آسماں کی چھت کہاں ہے؟ وَجَعَلُنَا اُلسََُمَاّئ سَقَّفَا مَحّفوظَا سورۃ النبیا (۳۲) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے گھر کے صحن میں یوں ششدرو حیراں کھڑا ہوں جیسے رستہ کھو گیا ہو دھیرے دھیرے پاؤں میرے صحن کے کیچڑ میں دھنستے جا رہے ہیں←  مزید پڑھیے

ہسٹیریا کی ہسٹری۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

وہ نیک لڑکی تھی ۔۔ صلح کُل، پاکباز، بے داغ، بھولی بھالی وہ اپنی معصوم نیک چلنی میں لپٹی،لپٹائی، باکرہ تھی غریب گھر کی کنواری کنیا نجانے کیسے ذرا سے اونچے، امیر گھرمیں بیاہی آئی تو اپنےشوہر کے لڑ لگی←  مزید پڑھیے

نسل کا آخری نمائندہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​PANDEMIC POEMS. یہ نطمیں پہلے انگریزی میں لکھی گئیں۔ نسل کا آخری نمائندہ وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے جھانکتا ہے کہ دور سے کوئی راہرو آئے اور وہ اس کو گھر میں مدعو کرے، محبت سے بیٹھ کر←  مزید پڑھیے

ٹورسٹ گائیڈ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں بھی ٹورسٹ گائیڈ ہوں میں آپ کو اے صاحبو یہ گنبد و مینار یہ اونچی فصیلیں لال قلعے سنگ مرمر کے جھروکے بیگموں کے حوض خاص و عام کے دیوان تخت و تاج کلغی جبہّ و دستار بڑھتے لشکر←  مزید پڑھیے

ROUGE POEMS۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ROGUE POEMS یعنی ـ’’شریر نظموں‘‘کی ایک شعری وبا سی انگلینڈ میں 1972-74کے برسوں میں پھیلی ،جب میں وہاں مقیم تھا۔ ؎ انگریزی میں یہ نظمیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ ’’دی گارڈین‘‘ سمیت کئی  روزنامو ں  نے باقاعدگی سے اپنے←  مزید پڑھیے

مجھے پڑھنے والوں کی آنکھیں سلامت رہیں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دعا بارگاہ حقیقی میں ہے یہ مری شاعری پڑھنے والوں کی آنکھیں سلامت رہیں تا کہ پڑھتے رہیں و ہ ! سبھی پڑھنے والوں کے شوق وتجسس کی خاطر مری طبع ِ تخلیق اُن کے لیےموتیوں کی یہ لڑیاں پروتی←  مزید پڑھیے

کہتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اگر مجھ جیسے شاعر کو مصرع طرح دے کر یہ کہا جائے کہ اس پر طبع آزمائی کرو تو وہ یہی کچھ لکھ سکے گا۔ کچھ بر س پہلے غالب اکادمی (مسی ساگا) کینیڈا کے مرحوم دوست اطہر رضوی کی،←  مزید پڑھیے