روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

تیرا انداز ِ سخن شانہ ٔ زلف ِ الہام
تیری رفتار ِ قلم، جُنبش ِ بال ِ جبریل

ستیہ پال آنند
شاہ کی شان میں ہے یوں تو قصیدہ، لیکن
کیوں مرے د ل میں کھٹکتی ہے یہ اک بات، حضور
مقطع ٔ فخریہ شاید ہے فقط اپنے لئے
شہ کا انداز ِ سخن”، اور وہ رفتار ِ قلم”
(“زلف ِ الہام” ہو یا “جنبش ِ بال ِ جبریل”)
آپ کی ذات پہ صادق ہیں، مگر شہ پہ نہیں

مر زا غالب
کیا کہا؟ پھر سے ذرا کہنا، عزیزی آنند
گویا یہ مقطع ء فخریہ ہے خود میرے لیے
جس سے ہے اپنی، (فقط اپنی ) بڑائی مقصود
میں نے حیلے سے نبھائی ہے روایت، گویا؟

ستیہ پال آنند
وقعت و قدر ہے مقطع کی تو اس میں مضمر
اس سے ہو اپنی، (فقط اپنی ) بڑائی مذکور
اپنے “پیش از ہمہ” ہونے کو جتایا جائے
سارے شعرائے مُمیّز کا وطیرہ ہے یہی

مرزا غالب
میں نے بھی شہ کی ستائش میں ہی، اے ستیہ پال
اس روایت کو اسی طرح روا رکھا ہے

ستیہ پال انند
جی، بجا، شاہ کی تعریف تو ہے بڑھ چڑھ کر
(اور قصیدہ تو اسی طور لکھا جاتا ہے)
پر یہاں مقطع ِفخریہ میں تو آپ ہی ہیں
شہ کا مذکور نہیں، ذکر فقط آپ کا ہے

مرزا غالب
کیا کہا؟ سوچو ذرا۔۔پھر سے کہو ، ستیہ پال

Advertisements
julia rana solicitors london

ستیہ پال آنند
آپ کا اپنا ہے یہ شاہ کا مذکور نہیں
(“زلف ِ الہام” ہو یا “جنبش ِ بال ِ جبریل”)
شاہ نے سیکھا ہے کیا ذوق کی شاگردی میں۔۔۔
جس کی تعریف میں یوں چرب زبانی ہوتی؟
آپ نے رکھ تو دیا شاہ کے سر پر یہ تاج
عندیہ تھا یہ مگر اپنے ہی بارے میں، حضور
زیب دیتے ہیں فقط آپ کو یہ نیک الفاظ

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply