روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

نہ حشر و نشر کا قائل، نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے
۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
خدا کے واسطے‘‘ خود میں ہی اک قسم ہے، حضور
تو کیا یہ نقص ہے یا صرف قابل ِ بر داشت؟

مرزا غالب
کبھی کبھی تو مجھے تم پہ غصہ آتا ہے
صحیح و سالم و ثابت، درست مصرعے میں
تم انحراف کا نکتہ اچھال دیتے ہو
’خدا کے واسطے‘‘ اس جا ہے دُہرے معنی میں
’ـقسم کہ ’’واسطہ‘‘ دونوں بہم ہیں پیوستہ
یہ انطباق و تماثل کا استعارہ ہے

ستیہ پال آنند
معافی چاہتا ہوں، اور اگر اجازت دیں
تو میرے ذہن میں دو چار نکتے اور بھی ہیں
جنہیں اچھالنا میرے لیے ضروری ہے

مرزا غالب
کہو جو اور بھی کہنا ہے تم کو، ستیہ پال

ستیہ پال آنند
یہ ’’حشر و نشر‘‘ کی تر کیب خوب ہے ، قبلہ
ہے حشر طاٗیٗفہ، اجماع یا کوئی محفل
ہے نشر ایک اکیلے میں چھپ کے جی لینا
مراد یہ ہے کہ یہ شخص بے سر و پا ہے
نہ اس کی جگہ اکیلے میں ہے نہ صحبت میں
جو شخص اکھڑا ہوا ہےخود اپنی معیت میں
پھر اس سے کیسی توقع ہے قسما قسمی کی
قسم خدا کی ہو یا واسطہ خد ا کا ہو
ہیں دونوں ایک برابر ہی توڑنے کے لیے

مرزا غالب
یہاں تلک تو ہوئی بات سادہ لفظوں میں
ہیں زیر ِ سطح مگراور بھی معانی گم
انہیں سمجھنا تمہارے لیے ضروری ہے

ستیہ پال آنند
حضور، آپ کے آگے ہوں طفل مکتب میں
میں سن رہا ہوں بہت غور سے، ہمہ تن گوش

Advertisements
julia rana solicitors

مرزا غالب
جو حشر و نشرکا قائل نہیں ۔ وہ کافر ہے
وہ بے ایمان ہے، بے اعتقاد و منکر ہے
ہے ایسا شخص بس الحاد و زندقہ کا شکار
وہ معتصم نہیں، مومن نہیں، امین نہیں
تو ایسے شخص کی ہر اک قسم ہے بے توقیر
خدا کا واسطہ بھی دے اگر تو لایعنی
ضمیمہ میرا تو بس یہ ہے ستیہ پال آنند
کہ ایسے شخص سے دو ہاتھ دوری اچھی ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply