وفاقی حکومت نے بھنگ کی کاشت کی حکومتی کنٹرول میں اجازت کیا دی کہ ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا ہے۔ ہاتھ ہولا رکھیں جناب,یہ کوئی انہونی تو نہیں ہو رہی۔ پاکستان میں اسے صرف 3 علاقوں میں سخت حکومتی کنٹرول میں کاشت کیا جائے گا جن میں مری ایکسپریس وے سے ملحقہ علاقہ موضع لوکوٹ، صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہری پور اور سندھ کے ضلع ٹھٹہ کا علاقہ میرپور ساکرو شامل ہے۔ ان علاقوں میں بھنگ کاشت کرنے کے لئے کراچی یونیورسٹی میں قائم ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) نے کئی سالوں کی تحقیق کے بعد ہی انہیں منتخب کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں بھنگ کی کاشت سے اگلے 3 سال میں پاکستان ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔چونکہ معاملہ ایک ارب ڈالرز کے زرمبادلہ کا ہے تو یقین خاطر رکھا جائے کہ حکومت ملک کے مالی وسائل میں اضافہ کے لئے ایسا ضرور کرے گی۔ بھنگ کی کاشت حکومت کی سخت نگرانی میں ہوگی جبکہ نجی شعبے کو اس منصوبے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ جن علاقوں میں بھنگ کو کاشت کیا جائے گا وہ اینٹی نارکوٹکس یا انسداد منشیات کی فورس کی نگرانی میں رہیں گے۔
حکومتی ذرائع کا خیال ہے کہ بھنگ کینسر سمیت ان دیگر بیماریوں کی ادویات بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے جن میں مریض شدید درد کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے حکومت نے نے رواں سال اپریل میں وزارتِ انسداد منشیات کو ہدایت کی تھی کہ وہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت کے ساتھ مل کر بھنگ کی کاشت کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کریں تاکہ بھنگ کو ادویات میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک برآمد بھی کیا جاسکے جہاں پر یہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کے ہمسایہ ملک چین میں 40 ہزار ایکڑ پر بھنگ کاشت ہو رہی ہے جبکہ کینیڈا میں ایک لاکھ ایکڑ پر بھنگ کاشت کی جا رہی ہے جبکہ دنیا بھر میں بھنگ کی کاشت کا بزنس 25 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ بھنگ کا استعمال درد کو دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے تاہم ایسی کوئی ٹھوس تحقیق نہیں جس کے مطابق بھنگ کسی بیماری کا علاج بھی ہو۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہوگا کہ اسے دوا سازی میں استعمال کیا جائے گا حالانکہ ’اس کا استعمال نجی سطح پر بطور جڑی بوٹی ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ملنگوں کے ڈیروں پر بھنگ عام طور پر گھوٹ کے شربت یا دودھ میں مکس کر کے پی جاتی ہے۔ بھنگ کے پکوڑے بھی لوگوں میں مستعمل ہیں۔ بھنگ کے پودے سے تیل بھی نکالا جاتا ہے اور جن کھلاڑیوں کو کوئی چوٹ وغیرہ آجائے، وہ بھی اس کو استعمال کرتے ہیں۔
ہزاروں سال قبل بھی دنیا کی مختلف ثقافتوں میں بھنگ کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں۔مئی 2020ء میں اسرائیل کے ایک 2700 سال پرانے معبد کے آثار سے کچھ ایسے کیمیائی اجزا ملے تھے جس کا سائنسی تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ بھنگ کے اجزا ء ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے معبد میں عبادت کے دوران بھنگ اس لئے جلائی جاتی ہو تاکہ لوگوں پر ’وجدانی کیفیت‘ طاری ہو جائے۔ اسی طرح چین اور تاجکستان کی سرحد کے قریب واقع جرزنکل قبرستان جہاں کھدائی کا کام سنہ 2013ء میں شروع ہوا تھا، وہاں بھی تحقیق کاروں کو قبر کشائی کے مقام سے دس لکڑی کی انگیٹھیاں ملیں جن میں پتھر اور جلائے جانے کے واضح نشانات تھے۔لکڑی کی انگیٹھی کے ساتھ جو بھنگ کے عناصر ملے وہ خاص طور سے کینابائنول (سی بی این) تھے جو بھنگ کے عناصر ہیں۔ پاکستان میں بھنگ کی حکومتی کنٹرول من یں محدود کاشت کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک جیسے برطانیہ، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فن لینڈ، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، پولینڈ، پرتگال، سری لنکا، تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک کے علاوہ امریکہ کی 33 ریاستوں میں طبی مقاصد کے لئے بھنگ کو قانونی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم امریکہ کے وفاقی قانون کے مطابق یہ اب بھی شیڈول 1 کی منشیات کی فہرست میں شامل ہے۔
ایک امریکی جریدے ڈینورپوسٹ (Denver Post)نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن اورکولوریڈو میں بھنگ کی فروخت کو قانونی شکل دئیے جانے کے بعد مقامی سوئٹس اور بیکرز کمپنیوں نے ’’بھنگ کے شوقین صارفین‘‘ کی تفریح طبع کے لئے بھنگ سے جب مٹھائیاں ، چاکلیٹ ، کیک اور لولی پاپ تیار کرنے شروع کئے تو نشے کے شوقین امریکیوں میں ان مصنوعات کو بے انتہا پذیرائی ملی۔ڈینور پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقامی دکان داروں ، بیکری مالکان اور سوئیٹ شاپس کے ورکرز نے بتایا کہ ان کی دکانوں پر ’’بھنگ کی میٹھی پروڈکٹس ‘‘ کے لئے عوام نے یلغار کر دی تھی اور صرف پہلے دن ہی 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی مٹھائیاں ، پیسٹریاں اور لولی پاپ فروخت ہوئے تھے۔ ادھر امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کولوریڈو کے اسکولوں کی انتظامیہ ، ڈاکٹروں اور سول سوسائیٹی نے بھنگ سے تیار مٹھائیوں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے کیوںکہ بھنگ کی مٹھائیوں، ٹافیوں اور کینڈیز کی فروخت سے بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
انسداد منشیات کے ادارے کے سابق سربراہ ایوانوف وکٹر نے کہا تھا کہ مغربی یورپی ممالک، امریکا، کینیڈا، چین اور برازیل, بھنگ کی کاشت کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ اب بھی روس میں بھنگ کا زیرکاشت رقبہ ایک ہزار ہیکٹر سے زیادہ نہیں جب کہ 1960 کے عشرے میں یہ رقبہ چھ تا سات لاکھ ہیکٹر ہوا کرتا تھا۔روسی سائنس دانوں نے نشے سے خالی بھنگ پیدا کر لی تھی، جس سے حاصل ہونے والے تیل کو فالج کی روک تھام کے لئے استعمال کیاجاتا ہے ۔ دراصل بھنگ طبی مقاصد سے وسیع پیمانے پر زیر استعمال ہے۔ روسی کمپنی ’’فرم ایکسپرٹ ‘‘کے شعبہ تحقیقات کے سربراہ بسپالوف نکولائی نے کہا تھا کہ ماضی میں بھنگ سے خاص طور پر سرطان کے مرض میں دوائی کاکام لیا گیا تاکہ مریض کے درد کو کم سے کم کیا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ روس دنیا میں نئی قسم کی بھنگ سے اس طرح کی ادویات کی تیاری میں پہلے نمبر پر آ جائے گا۔بہر حال ماہرین زور دیتے ہیں کہ روس میں جس بھنگ کی کاشت کا منصوبہ چل رہا ہے اس میں کچھ نشیلے مادے کم مقدار میں بہرحال موجود ہیں۔ اس لئے ایسی بھنگ کی کاشت سے کچھ نہ کچھ خطرہ درپیش ہوگا۔
دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ بھنگ، ٹیکسٹائل صنعت میں بھی استعمال ہوتی ہے۔روس میں صدیوں پہلے جب بھنگ کے نشے کے بارے میں کسی کو علم تک نہ تھا، تب بھی اس پودے سے کپڑا بنانے کی روایت موجود تھی جب کہ آج بھنگ سے بنے روسی لباس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ روس کے ان تجربات کی روشنی میں حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی بھنگ ٹیکسٹائل کی صنعت میں بھی استعمال ہوگی کیونکہ کپاس کی کاشت کم ہو رہی ہے، اس لئے بھنگ کو اس کے متبادل کے طور استعمال کئے جانے کے واضح امکانات ہیں۔
کیمسٹ دوست کہتے ہیں کہ بھنگ کے پودے میں سینکڑوں مختلف کیمیائی اجزا ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سرور کی کیفیت بھی پیدا کرتے ہیں تاہم طبی مقاصد کے لئے استعمال کی جانے والی بھنگ میں سے یہ اجزا عموماً نکال دئیے جاتے ہیں۔ ماہرین کی جانب سے اس کے طبی فوائد کے حوالے سے وسیع تر تحقیق کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن دنیا کے کئی ممالک میں اسے خطرناک نشہ آور مواد کا درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس پر تحقیق کا دائرہ محدود رہا ہے۔چونکہ اس وقت ہمارے محترم وزیراعظم عمران خاں پاکستان کے علاؤہ دنیا بھر کے محبوب لیڈر تسلیم کئے جاتے ہیں تو یقین کیا جانا چاہئے کہ اب ان کی پیروی میں دنیا کے دوسرے ممالک بھی بھنگ پر اپنی تحقیق کے دروازے کھولیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں