روداد سفر /چائنیز نوجوان کے سوال۔۔قسط 41/شاکر ظہیر

کراچی سے چھندو chengdu پہنچ کر سب گروپس کے راستے جدا جدا ہو گئے ۔ مسٹر چھن اور ان کی پارٹی نے چھنگ شاہ ( Chang sha ) کی فلائٹ لی اور دوسرے شہروں جانے والوں نے وہاں کی ۔ میری چھندو ( chengdu ) سے ہانزو ( Hangzhou ) کی امیگریشن کلیر کرنے کے قورا بعد کی فلائٹ تھی ۔ یاسین بھائی اور محترم باسط صاحب کی ہانزو کی فلائٹ دو گھنٹے بعد کی تھی اس لیے انہیں خدا حافظ کہا اور رابطے میں رہنے کی گزارش کی ۔

پانچ گھنٹے کراچی سے چھندو ( chengdu ) پھر دو گھنٹے چھن دو chengdu سے ہانزو فلائٹ پھر دو گھنٹے ہانزو Hangzhou سے ایوو کی بس اتنا لمبا سفر کر کے کافی دیر سے گھر پہنچا لیکن اپنی بیٹی حنا کو منتظر دیکھ کر ساری تھکاوٹ دور ہو گئی ۔ وہ بھی مجھ سے لپٹ گئی ۔ نہا دھو کر کپڑے بدلے تب تک میری بیوی ماریا کھانا گرم کر کے لگا چکی تھی ۔ تھکاوٹ بہت تھی اپنی محبتوں بھری تھانیدار بیوی کو اس وقت کارکردگی سننے کا موقع نہیں تھا ۔ بس بستر پر پڑا تو اگلی صبح ہی آنکھ کھلی ۔ وہ بھی بیٹی حنا نے آ کر جگایا کہ اُ ٹھ کر میرے ساتھ باتیں کرو ۔ اور پھر ہم نے جمعہ پڑھنے بھی جانا ہے ۔ میں منہ ہاتھ دھو کر حنا کے ساتھ باتیں کرنے بیٹھ گیا اور میری بیوی ماریا ناشتہ لے کر آ گئی ۔ اور پھر وہ بھی ساتھ بیٹھ گئی ۔ گپ شپ میں بارہ بج گئے تو جمعہ پڑھنے مسجد جانے کی تیاری کر کے موٹر سائیکل پر مسجد کی طرف چل پڑے ۔

ماریا اور حنا عورتوں والے حصّے میں چلی گئیں جہاں ماریا کی سہیلیاں موجود تھیں اور ان کے ساتھ حنا کے ساتھ کھیلنے کےلیے ان سہیلیوں کے بچے اور میں مردوں والی سائیڈ پر ۔ ابھی نماز کےلیے وقت تھا اس لیے میں بھی ایک سائیڈ پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر میں میرے جاننے والے کراچی کے حاجی امین صاحب مسجد میں داخل ہوئے تو ان پر نظر پڑی۔ ان کے ساتھ ایک چائینز بائیس چوبیس سال کا ایک نوجوان بھی تھا ۔ حاجی امین صاحب عرصے چھ سال سے ایوو شہر میں مقیم تھے بہت پیاری شخصیت اور ہنس مکھ ، کاسمیٹکس پیکنگ کا کام کراچی کےلیے کرتے اور ایک دوست کے سعودیہ میں موجود سٹور کےلیے بھی مال بھیجتے تھے ۔ بہت ہی شاذ و نادر ملاقات ہوتی تھی ، جب بھی ملاقات ہوتی طبیعت خوش ہو جاتی ۔ بہت ہی حاضر جواب شخصیت ۔ کراچی کی میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے اور میں ان سےکہا کرتا تھا کہ میمن تو جاپان والا ، موتی والا ہوتے ہیں ، اب جدید دور  آگیا ہے آپ حاجی امین مریخ والا ہو جائیں ۔ برا نہیں مانتے تھے اور ہنس دیتے اور کہتے میں اس سے بھی آگے حاجی امین اللہ والا ہوں ۔ میں نے   آگے بڑھ کر پکڑ کر اپنے ساتھ بیٹھا لیا ۔ ان سے حال احوال پوچھا اور ساتھ جو چائنیز جوان تھا اس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس کا تعلق ہرنان ( Henan ) صوبے سے ہے اور ہوئی ( Hui ) مسلمان فیملی سے تعلق رکھتا ہے ۔ حاجی امین صاحب کے دفتر میں کام کرتا ہے ۔ امین صاحب نے بتایا کہ بڑا اچھا پڑھا لکھا جوان ہے لیکن مذہب کے متعلق کچھ شکوک و شبہات اپنے ذہن میں رکھتا ہے جن کو شاید میں چھیڑنے کی جرات نہیں کر رہا یا میرے پاس شاید معقول جوابات نہیں ہیں ۔ یہ باتیں اس وقت تک ہم اردو زبان میں کر رہے تھے اس لیے اس لڑکے ماون ( ma won ) کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ۔ اگر وہ سوالات کر رہا تھا تو یہ بہت اچھی بات تھی کہ وہ اپنے شکوک و   شبہات کو دور کرنا چاہتا ہے ۔

خیر میں نے امین صاحب سے کہا کہ میں اس سے بات چیت کرتا ہوں ۔ میں نے اس سے حال احوال اور اس کے علاقے کے متعلق پوچھا تو کچھ گپ شپ کی راہ نکلی ۔ اس نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں مسلمان موجود ہیں اور مساجد بھی ہیں ۔ زیادہ تر کا پیشہ کھیتی باڑی ہے اور ابھی بہت سے لوگوں نے دیسی مرغیوں کے فارم بنائے ہوئے ہیں جن سے انڈے حاصل کیے جاتے ہیں جنہیں اورگینک انڈے کے نام سے بیچا جاتا ہے ۔ لیکن نوجوان نسل پڑھ لکھ کر اس دیہاتی ماحول سے نکل کر شہروں کا رخ کر رہی ہے ۔ شہروں میں نئے لوگوں ، نئے ماحول اور نئے سوالات سامنے آ جاتے ہیں جو کہ اکثر عقائد ہی کے متعلق ہونے ہیں ۔ کالج اپنے علاقے سے دور ہوتے ہیں اس لیے کالج تک پہنچنے والے مسلم طلب علموں کو بھی اپنے علاقے سے باہر نکلنا ہوتا ہے ۔ والدین سے دور ، آبائی علاقے سے دور تعلیم کےلیے نکلنے سے آزادی کا احساس اپنے ساتھ جہاں خود اپنے آپ پر انحصار کرنا سیکھاتا ہے وہیں بہت سی مشکلات بھی ساتھ لے کر آتا ہے ۔ مختلف علاقے کے کلاس فیلوز کے ساتھ جہاں مختلف موضوعات ڈسکس ہوتے ہیں وہاں مذہب اور اس کے عقائد بھی زیر بحث آتے ہیں جو کہ کالج میں دی جانے والی تعلیم سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں ۔ پھر کچھ سوالات اپنے ذہن میں اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں جن کو نوجوان اپنے والدین یا عزیر و اقارب سے خوف کی وجہ سے ڈسکس نہیں کرتا کہ وہ اسے ملحد سمجھ کر اس سے دوری اختیار کرنے لگیں گے ۔ پھر یہی سوالات بغیر جوابات کے وہ دنیا کی زندگی میں گم ہو جاتا اور اپنی اگلی نسل کو مذہب کا صرف نام ہی منتقل کرتا ہے اور کچھ بھی نہیں دے سکتا ۔ پھر اگر دونوں میاں بیوی میں سے ایک غیر مسلم ہو تو معاشرے میں مسلمان کے گم ہو جانے کی رفتار بہت ہی تیز ہوتی ہے ۔

ماون ( ma won ) نے بتایا کہ اس کے بہت سے مسلمان دوست بس سامنے سے ہی مسلمان ہیں اندر سے وہ یقین کی دولت کھو چکے ہیں اور وہ خود بھی اپنے سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہے ۔

میں نے اس کی ساری باتیں سننے کے بعد اس سے کہا کہ وہ سوالات ہم آپس میں ڈسکس کرتے ہیں امید ہے ہم ایک دوسرے سے کچھ حاصل کر سکیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سوالات میرے ذہن میں بھی ہوں ۔ میں نے قصداً جوابات کا لفظ استعمال نہیں کیا کہ یہ بات ہماری ڈسکشن میں بے تکلفی کی فضا کو خراب کر دے گی اور کھل کر اعتراضات اور اپنے دل کی بات کا اظہار نہیں ہو سکے گا۔

ماون ( ma won ) نے کچھ بے تکلفی محسوس کرتے ہوئے سوال کیا ۔
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق اس زندگی کا مقصد کیا ہے اور ہم یہاں کیوں ہیں ۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ بے مقصد ہی ہے ۔ کھاؤ پیو اور بس زندگی کے دن پورے کرو ۔ لیکن اگر ایسی بے مقصدیت ہی ہو تو بھی مایوسی اور زندگی میں دلچسپی ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ آخر یہ سب کس لیے اور کیوں ہے ۔

میں اپنے خیال میں اس سوال کی امید رکھ رہا تھا کہ خدا ہے کہ نہیں ، ہے تو کہاں ہے ۔ لیکن شاید اب سائنس کا بھی خدا کے بغیر گزار نہیں ۔ یا شاید وہ بھی کسی خالق کے بغیر زندگی کی ابتداء کو بیان ہی نہیں کر سکتی ۔

خیر میں نے بات شروع کی کہ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس سے انسان کسی بھی حالت میں پیچھا  نہیں چھڑا سکتا چاہے وہ کسی مذہب کا بھی ماننے والا نہ ہو ۔ ہر انسان یہ سوچ ضرور رکھتا ہے کہ آخر وہ کوئی جینے کا مقصد بھی رکھتا ہے ؟

میرے خیال میں خدا پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اور اسے اپنی بنائی خوبصورت جنت کےلیے پاکیزہ نفس چاہئیں جو اپنی مرضی اور خواہش سے اس کے فطرت میں دیے گئے پاکیزہ طریقوں پر اپنی یہ مختصر زندگی بسر کریں اور خدا اسکے بدلے میں انہیں اپنی ابدی جنت کا حقدار بنائے ۔ یعنی دین کے احکامات کا محور و مقصد تزکیہ ہے ۔ اخلاقی تزکیہ ، بدن کا تزکیہ اور خورد و نوش کا تزکیہ ۔ یہ خدا کی تخلیق کی سکیم تھی جس پر فرشتوں نے بھی اعتراض کیا تھا کہ ایک مخلوق کو ارادہ و اختیار دے کر تخلیق کیا جا رہا ہے اور اسے اس ارادے و اختیار کو استعمال کرنے کی کھلی اجازت بھی دی جا رہی ہے تو یہ ضرور فساد برپا کرے گا ۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے اعتراض کو ریجیکٹ کر دیا اس تجربے کے ذریعہ کہ میں اس مخلوق کو ارادہ و اختیار کے ساتھ ساتھ علم بھی عطا کروں گا ۔ جس پر فرشتے پکار اٹھے کہ بے شک تو ہر بات کا  جاننے والا ہے ۔

ماون ,( ma won ) نے میری اس بات پر کوئی بحث کرنے کی بجائے اگلا سوال کر دیا وہ شاید پہلے مجھے پوری طرح جانچنا پرکھنا چاہتا تھا یا پہلے میرے خیالات سے پوری طرح واقفیت چاہتا تھا۔

خدا نے ہمیں تخلیق کرکے اس زمین پر مصائب جھیلنے کےلیے کیوں بھیجا ہے ؟
تخلیق کے بعد اس ارادے و اختیار کی صفت جو انسان کو دی گئی تھی اسے چیک کرنے کےلیے ، کہ کیا یہ اختیار کو آزادانہ استعمال کر سکتا ہے خدا نے آدم اور حوا کو ایک باغ میں رکھا اور آزمائش کےلیے شجر الخلد یعنی ہمیشگی کے درخت ( جنسی عمل ) سے منع کیا جیسے ہم رمضان میں اسی جائز عمل سے روزے کے دوران  تک رُک  جاتے ہیں ۔ لیکن انسان نے اپنے ارادہ و اختیار کو استعمال کرکے اس حکم کی خلاف ورزی کی ۔ پھر شرمندہ ہوا تو توبہ کےلیے رب نے الفاظ بھی خود دیے ۔ اور پھر میدان عمل میں اتار دیا اور بتا دیا کہ یہ شیطان تمہارا دشمن ہے ۔ یہ زمین پر اتارنا کوئی سزا نہیں تھا بلکہ انسان کو اصل تخلیق کرنے کا مقصد ہی اس زمین پر اسے بسانا تھا ۔ یہاں ایک کو پیش آنے والے مصائب دوسرے کےلیے امتحان ہیں کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرے جس کا خدا نے اسے حکم دیا ہے ۔ اگر یہ مصائب اور تکالیف نہ ہوں تو خدا امتحان کیسے لے اور اپنی جنت کےلیے اچھے لوگ کیسے سلیکٹ کرے ۔ یہ مصائب اور تکلیف اگر نہ ہوں تو سکون و راحت کا تصور بھی محال ہے ۔ یہ دکھ ، سکھ کی اہمیت بتاتا ہے ، یہ بیماری ، تندرستی کی اہمیت بتاتی ہے اور خالق کا شکر گزار بناتی ہے اور تکلیف کی صورت میں اس سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ۔ دیکھو ناں ہمارے پاس خوراک کا ذائد ہونا بھی آزمائش ہے کہ کیس ہم اسے ضرورت مند بھائی کے ساتھ بانٹتے ہیں جس کا خدا نے حکم دیا ہے ۔ اور خوراک کا کم ہونا بھی آزمائش ہے کہ کیا اس تکلیف میں بھی ہم اسے حاصل کرنے کےلیے ناجائز ذرائع تو استعمال نہیں کرتے جس سے کسی کی حق تلفی یا کسی کے ساتھ ناحق زیادتی ہو جس سے خدا نے منع کیا ہے ۔ اس لیے یہ مصائب ہر ایک کےلیے امتحان ہی ہیں ۔ حقیقت میں یہ مخلوق اللہ پاک نے بنائی ہی اس زمین کےلیے اور یہ جنگ ہے رب کے دعوی کی اور شیطان کے دعوی کی ، کہ شیطان نے یہ خدا سے کہا تھا کہ تیری بنائی اس مخلوق کو میں بھٹکاوں گا اور خدا پاک نے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ میرے بندے تیری پارٹی میں شریک نہیں ہوں گے ۔

نماز کا وقت قریب آ لگا تھا اور شاید ماون ( ma won ) پہلی ملاقات کو اتنا ہی ہلکا پھلکا رکھنا چاہتا تھا اس لیے اس نے اپنے والدین کے بارے میں بتایا کہ اس کے والد تبلیغی جماعت کے ساتھ دو تین دفعہ گئے تھے اور اس کے بعد وہ کچھ متشدد رویے کے حامل ہو گئے ۔ جیسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اضافی پارسائی کے حامل ہو گئے اس لیے ان سے اس طرح کے سوالات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے اور دوسرے وہ مذہب کے معاملے میں دلیل سے بات کرنا جانتے ہی نہیں ۔ ماون ( ma won ) نے کہا کہ اسے میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اچھا محسوس ہوا اور آئندہ بھی ملاقات کرتا رہے گا۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تو کوئی خاص بات نہیں ہے یہ سب کچھ قرآن نے خود آسان لفظوں میں بیان کیا ہے اور انسانی عقل بھی یہ سب باتیں مانتی ہے صرف معاملات اور سوالات کو سمجھنے اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مجھے خوشی ہو گی اگر ہم آپس میں بیٹھ کر دلائل سے گفتگو کریں ۔ جب تمہیں وقت ملے ضرور کال کرنا ۔

ماون ( ma won ) سنتیں پڑھنے لگا اور میں حاجی امین صاحب کو سوال و جواب کی اس مختصر نشست کے متعلق بتانے لگا کیونکہ ان کی چائنیز اتنی اچھی نہیں تھی لیکن وہ بہت شفیق اور تدبر کے حامل تھے ۔ حاجی صاحب نے کہا کہ شکر ہے پاکستان میں ہمارے نوجوان ایسے سوال نہیں کرتے ورنہ تو ہماری حالت بس چلے ہوئے کارتوس ہی کی ہوتی ۔ میں نے جواب دیا حاجی صاحب اس خوش فہمی سے نکل آئیے مولانا گوگل نے سب کو سوالات پر لگا دیا ہے ۔ آپ کسی سوال کا جواب بھی عقیدت نہیں ہو سکتی ۔ جو بات بھی ہو گی جواب عقلی دلیل ہی سے دیں گے تو بات چلے گی ورنہ ہماری نسل بھی ایسے ہی شکوک وشبہات لیے زندگی بسر کر رہی ہے ۔ مذہب کا اصل موضوع ہی ما بعد الطبیعیات ہے وہ باتیں جو ہم تجربے کی میز پر نہیں رکھ سکتے ۔ لیکن عقلی دلائل سے انہیں سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں یا دوسرا موضوع کہ ہماری ابتداء کیا ہے اور ہم نے جانا کس طرف ہے ۔ کوئی خالق بھی ہے یہ تو انسانی فطرت میں ودیعت کی گئی بات ہے کون ہے یہ اس خالق کے نمائندے انبیاء نے ا کر بتایا جن تک خالق کی بات اس کے پیغامبر فرشتوں نے پہنچائی ۔ اس لیے ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ باقی دین فطرت ہے جس میں اچھائی برائی کی تمیز اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے کسی سے ناحق زیادتی اور کسی کی حق تلفی نہ کرنا اس لیے ہے تاکہ یہ زندگی بہتر بنائی جا سکے اور اس کی خلاف ورزی پر رب کے ہاں سزا اس لیے ہے کہ یہ اس کی مخلوق کو ناجائز تنگ کرنا ، اذیت دینا ہے ۔

حاجی صاحب نے مجھے کہا یار شاکر اگر ایسی باتیں اور سوال بقول تمہارے میرے پاکستان میں موجود بیٹوں بیٹیوں کے ذہنوں میں بھی ہوں گے تو پھر تو مجھے بھی تم جوابات کی تیاری کرواؤ لیکن تمہارا استاد کون ہے ۔ میں نے جواب دیا میری تھانیدار پیاری بیوی میری استاد ہے جو یہ سارے سوالات رکھتی ہے جن کے جواب دینا مجھے پر لازم ہے ۔ اگر وہ نہ ہوتی تو میں بھی ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کی بجائے کسی چوک میں کھڑے ہو کر اسلامی انقلاب کے نعرے مار رہا ہوتا ۔
خیر امام صاحب نے نماز کےلیے خطبہ شروع کیا اور حاجی صاحب سے آئندہ رابطے کےلیے کہہ کر نماز کےلیے تیار ہو گئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply