سچی بات تو یہی ہے کہ اب اگر مجھے اس شدنی کا علم ہوتا کہ جونہی میں باب اجیاد کے صحن میں قدم رنجہ فرماؤں گی۔ میاں کے دل و دماغ میں جانے کب کا پکتا ہوا گلے شکووں کا← مزید پڑھیے
وہ سرُخ عرُوسی لباس پہنے بیٹھی تھی۔ قیمتی طلائی زیورات بھی اُس کے بدن کی زینت بنے ہوئے تھے۔ خوبصورت ہیروں کا بریسلٹ کلائی کا حُسن بڑھا رہا تھا۔ نفاست اور عمدگی سے کئے گئے میک اَپ نے چہرے کو← مزید پڑھیے
ماں کوئی گھنٹہ بھر سے وقفے وقفے سے اُسے آوازیں دئیے جا رہی تھی۔ ”اُٹھ نا پُتر۔ تیرے انتظار میں کب سے بیٹھی ہوں تو ناشتہ کرے تو کسی اور کام میں لگوں۔ ابھی مجھے ہانڈی لینے بازار بھی جانا← مزید پڑھیے
تو پھر ترکی کی کونسل آف اسٹیٹ نے دس جولائی کو اپنا فیصلہ سُنا دیا جو عین طیب اردگان کی توقعات اور وعدے کے مطابق تھا۔فیصلے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد اس نے بڑی جی داری سے اس کا اعلان← مزید پڑھیے
دوپہر اِس قدر ہنگامہ خیز ہوگی۔ اُس کے گمان میں بھی ایسا ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہ تھا۔ اُس کا طوفانی انداز اُسے اندر باہر سے ہلاکر رکھ دے گا۔ یہ تو اُس کے تصّورمیں بھی نہ← مزید پڑھیے
سوشل میڈیا کے جتنے بھی پلیٹ فارمز ہیں مجھے نہیں پتہ کہ ان کے لیے کوئی ضابطہِ اخلاق بھی وضع ہے یا نہیں۔ ہاں البتہ سائیبر کرائمز کے لیے ضرور کچھ سزائیں ہیں۔یہاں سوال اٹھتا ہے کہ دورِ جدید کی← مزید پڑھیے
چاندنی فسوں خیز تھی اور ماحول سحر زدہ۔دھان منڈی کے غربی حصّے میں واقع شاندار گھر کی بیرونی منڈیر پر وہ چُپ چاپ بیٹھی تھی۔اُس کے پاس ہی وہ بھی بیٹھا ہو ابائیں ٹانگ کو ہولے ہولے ہلا رہا تھا۔اُس← مزید پڑھیے
اب یہ کہیں ممکن تھا کہ جادُو اور وہ بھی عشق کا بھلا سر چڑھ کر نہ بولے گا تو پھر کیا قدموں میں آہ وزاریاں کرتا پھرے گا۔ وہ اِس میدان کی کوئی تجربہ کار کھلاڑی تو تھی نہیں← مزید پڑھیے
وہ سب اس کی چاہنے والیاں تھیں پر اب بہت مایوس تھیں۔سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے اس کی ہجو لکھنے ایک گھر میں اکٹھی ہوئی تھیں۔اظہاریہ کا طریقہ کیا ہوگا؟اس پر بحث ہونے لگی۔ ایک نے رنجور لہجے میں← مزید پڑھیے
”میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ ایک پوری رات گزارو۔“ اُس وقت وہ باہر نظاروں میں گُم تھی۔ تاحدّ نظر دھان کے سر سبز کھیتوں کے پھیلاؤ نے دھرتی پر گہر ے سبزے کے جیسے قالین بچھا رکھے تھے۔ اِن← مزید پڑھیے
ایسا ٹائٹ شیڈول تھا کہ جس نے دو دنو ں کے گھنٹوں اور منٹوں کو جکڑ کر رکھ دیا تھا۔ ذرا دم لینے کی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ بہتیرا چاہا کہ تھوڑی سی گنجائش کسی نہ کسی طر ح← مزید پڑھیے
پاکستان سے دیوانگی کی حد تک پیار کرنے والا پاکستان کا بیٹا،پاکستان زندہ باد کے نعرے کو حرز جان بنانے والا کس موسم میں،کن دنوں میں ہم سے جُدا ہوا۔لاہور شہر کیا پورا پنجاب املتاس کے کچے پیلے رنگے لانبے← مزید پڑھیے
اس تحریر کو لکھنے کا محرک حسن نثار کا،16 جون کا کالم ہے۔اُن کے قارئین اُن سے ابنِ عربی کے بارے کچھ جاننے کے خواہش مند تھے۔”ارے“خود سے کہا میں تو اُس عظیم ہستی کے مزار پر حاضری کی سعادت← مزید پڑھیے
کیسی طوفانی بارش تھی۔ لگتا تھا جیسے آسمان کے سینے میں چھید ہو گئے ہوں۔ گھُلے ہوئے بادلوں میں سارا ماحول دُھواں دُھواں ساہو رہا تھا۔ہوا کے تیز تھپیڑے کسی پاگل جنونی کی طرح جو بپھرا ہوا اپنے شکار کا← مزید پڑھیے
کیا کروں کوئی ایک سیاپا ہے۔کوئی ایک رنڈی رونا ہے۔جدھر دیکھتی ہوں ادھر کروناکی آگ ہے جو ہر گھر کے اندر داخل ہو گئی ہے۔ہسپتالوں کے حالات کا کیا ذکر کروں اب جلنا، کڑھنا اور اپنا خون آپ پیناوالا معاملہ← مزید پڑھیے
”ٹھیک سے بیٹھو۔گھبرا کیوں رہی ہو؟ اور ہاں شیشہ نیچے کرو۔ تمہیں ٹھنڈی ہوا لگے۔“ اُس نے شیشہ آہستہ آہستہ نیچے کیا۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ سختی سے بھینچے ہونٹ یوں بند تھے جیسے کبھی نہیں کھُلیں گے۔← مزید پڑھیے
” تُف ہے اِس لُتری پر۔“ اتنی لگائی بُجھائی کی اُس نے رحمان بھائی سے کہ خود چیزیں پہچانے کی بجائے اُس نے اُنہیں اِس چھمک چھلّو کے ہاتھ بھیج دیں اور وعدہ کرنے کے باوجودخود نہیں آئے۔ ٹام بوائے← مزید پڑھیے
چٹا گانگ کے اِس اعلیٰ درجے کے چینی ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے اُسے شدید خفّت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ایسے کھانے اور کھانوں کے یہ ایٹی کیٹس بھلا اُس نے کب دیکھے اور کہاں سیکھے تھے؟ وہ تو← مزید پڑھیے
علی الصبح جاگنے کے بعد اُس کا سب سے پہلا کام چٹا گانگ اپنی فرم کے مینجر شمس الدین عُرف گورا کو فون پر اطلاع دینا تھا کہ وہ آج تقریباً دو بجے چاٹگام پہنچ رہا ہے اور یہ کہ← مزید پڑھیے
اُس وقت جب تیزی سے مغرب کو جاتے ہوئے سورج کی سنہری کرنیں کنٹین کی دیواروں کے لمبے لمبے شیشوں کے دریچوں سے چھن چھن کر اندر قطار در قطار رکھے فارمیکا کی چکنی شفاف میزوں کی سطح پر بکھرتے← مزید پڑھیے