گھروندا ریت کا(قسط15)۔۔۔سلمیٰ اعوان

کیسی طوفانی بارش تھی۔ لگتا تھا جیسے آسمان کے سینے میں چھید ہو گئے ہوں۔ گھُلے ہوئے بادلوں میں سارا ماحول دُھواں دُھواں ساہو رہا تھا۔ہوا کے تیز تھپیڑے کسی پاگل جنونی کی طرح جو بپھرا ہوا اپنے شکار کا تیا پانچہ کرنے پر تُلا ہو گاڑی پر وار  کر رہے تھے۔وائپرز ونڈ سکرین کی صفائی میں دیوانوں کی طرح چکر کاٹ رہے تھے۔
دل میں ہلچل مچانے والا خوبصورت موسم، رائل بلیوٹیوٹا اور اُسے ڈرائیور کرتا ڈیشنگ قسم کا مرد۔
”میں اگر یہ کہوں کہ تم اُس دن قصداً نہیں آئیں تو یقیناًغلط نہ ہوگا۔“
ساور جانے والی اِس سڑک پر گاڑی اُس نے ایک طرف روکی۔ سٹیرنگ پر جھُکے جھُکے سگریٹ جلائی۔ لمبا سا کش لیا اور سکُون سے اُسے دیکھا جو کہہ رہی تھی۔
”میری طبیعت ٹھیک نہ تھی۔“
”اپنی اُن سوچوں کے بارے میں مجھے کچھ بتاؤ گی؟ جنہوں نے تمہاری طبیعت ٹھیک نہ رہنے دی۔“
”آپ قیاس آرائیوں میں بُہت ماہر معلو م ہوتے ہیں۔“
وہ مُسکرایا۔ سگریٹ کا لمبا کش کھینچتے ہوئے بولا۔
”غلط بات کرتی ہواور وہ بھی مجھ سے۔“
وہ تھوڑا جز بز ضرور ہوئی۔ پر خاموش رہی۔ سمجھ گئی تھی کہ تردید کے لئے جو کچھ بھی کہے گی اُس میں جان نہیں ہوگی اور وہ اُسے یقین کی چھُری سے کاٹ پھینکے گا۔گاڑی میں خاموشی تھی۔ باہر بارش برسنے کی نغمگی تھی۔ سگریٹ کا دھواں تھا جسے وہ تھوڑا سا شیشہ کھول کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد باہر نکال دیتا۔
دیر بعد اُس نے نگاہیں اُس کے ملیح چہرے پر جمائیں اور خفیف سا مسکراتے ہوئے بولا۔
”اگر میں تمہیں وہ سارے خدشات بتا دوں جو تمہارے دل ودماغ پر یورش کرتے رہے ہیں تب کیا کہوگی؟“
اُسے تو سمجھ نہیں آر ہی تھی کہ وہ اپنی مدافعت میں بولے تو کیا بولے؟ وہاں تو قیاسوں اور اندازوں کی بات نہیں تھی۔ دعوے تھے اور ہر دعوے کے تعاقب میں پختہ یقین کا اعلان تھا۔ اِس لئے وہ سرجھُکائے گلابی ڈوپٹے کے پُلو کو اُنگلیوں پر لپیٹتی اور کھولتی رہی۔ فضول بہانہ تراشیوں کا قطعی کوئی فائدہ نہ تھا۔
اُس نے اندر کی لائٹ جلائی۔ اُس کے سُرخی مائل سیاہ بال گلابی پھولدار قمیض پر بکھرے ہوئے تھے۔ اُس کا خوبصورت چہرہ کسی حد تک اُن کے سائے میں چھُپا ہوا تھا۔ سفید نازک لابنی اُنگلیوں والے ہاتھ جن کے ناخن قمیض کے ہمرنگ پالش میں ڈوبے ہوئے ڈوپٹے کے کونے سے کھیل رہے تھے۔
فوراً اُس نے بتی بُجھا دی تھی۔
”مجھے بلند بانگ دعوؤں سے سخت نفرت ہے۔ دوبارہ پہلے کہہ چکا ہوں تیسر ی بار پھر بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے تمہارے اندردوڑتے نیک اور شریف خون کا پورا احساس ہے۔ تمہیں میرے اُوپر اعتماد کرنا چاہیے۔“
اُس کے لب ولہجے میں جو یقین اور اعتماد تھا۔ اُس کا ڈوبتا اُبھرتا دل لمحہ بھر کے لئے سکون پا گیا۔
لیکن شک نے پھرسر اُٹھایا۔ وہ جو کتابوں میں اتنا کچھ لکھا ہوا ہے ایسی لمبی چوڑی کہانیاں،مرد کی ذات ناقابل اعتماد اور دغا دینے والی۔ کیا سب غلط ہے؟
”ہاں غلط بھی ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی ضروری تھوڑی ہے کہ لکھنے والوں کے تاثرات پرکھ اور تجربے کی کسوٹی پر پورے اُترتے ہوں۔ دُنیا رنگا رنگ انسانوں سے بھری پڑی ہے۔ نیک بد۔اچھے بُرے ہر طرح کے لوگ۔ طبیعتوں، مزاجوں، عادات وخصائل میں مختلف۔ سب کو ایک لاٹھی سے کیسے ہانکا جا سکتا ہے؟“
یہ جوابی اعتراض اُس کے دل نے دیا تھا اور یہ اتنا قوی تھا کہ اِ س بار دماغ خاموش رہا۔
اُس نے باہر دیکھا۔ بارش رُک گئی تھی۔
نمی میں ڈوبی بوجھل ہوائیں سارے میں دوڑتی پھر رہی تھیں جہاں لطیف سی ٹھنڈک کا احساس رَگ وپے میں اُتر کر لمحات کو بُہت خوشگوار بنا رہا تھا۔ وہیں سڑک کے اطراف میں اُگی گھنی جھاڑیاں، درخت، اندھیرا، سب نے مل جل کر فضا کوبُہت پُرا سرا اور ڈراؤنا سا بنا دیا تھا۔
دفعتاً اُس نے سکرین پر جمی نگاہیں اُٹھائیں اور اُسے دیکھا۔ وہ سموکنگ میں یوں مگن تھا جسے دُنیا میں اِس سے بڑا کوئی اور کام ہی نہ ہو۔
پل بھر وہ اُسے غور سے دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے رُخ پھیرا۔ اپنے سر کو بیک سے ٹکاتے ہوئے لمبی سانس بھری اور اپنے آپ سے یو ں گویا ہوئی جیسے اپنے اُوپر بیتی بپتا اپنے آپ کو سُناکر خود کو ہلکا کرنا چاہتی ہو۔
”اللہ یہ دن تو یوں لگتے تھے جیسے میں نے پھانسی کے تختے پر گزارے ہوں۔“
دماغ جیسے پھوڑابن گیا تھا کہ جس میں سے اُٹھتی ٹیسیں بے کل کر تی تھیں۔یہ ٹھیک تھا کہ یہ شاندار سی کار، اُس میں بیٹھا باوقار سا مرد جس کا تعلق ہائی جنریٹری سے ہے، اُسے بُہت اچھے لگے تھے۔ چاہے جانے کی تمناکسے نہیں ہوتی۔ اُسے بھی یہ خواہش تھی کہ کوئی اُسے پسند کرے۔ چاہے۔ پر اب وہ اتنی بھی احمق نہ تھی۔ مانا کہ اُس نے دُنیا نہیں دیکھی تھی۔ ایک قدیم اور دقیانوسی روایات والے گھر میں پرورش پائی تھی۔ جہاں فلمیں دیکھنی معیوب تھیں۔ گانے سُننے بُرے تھے۔ بے محابانہ پھرنا ناپسندیدہ تھا۔ پر پھر بھی وہ کالج پڑھنے جاتی تھی۔ چوٹی کے کالج میں جہاں ہر دن وہ ایک نیا سکینڈل سنتی۔ فلاں کا  افیئر فلاں سے چل رہاہے۔فلاں فلاں سے فلرٹ کر رہی ہے۔ لمبی لمبی گاڑیاں آتیں اور لڑکیوں کو پِک کر کے چلی جاتیں عین اِسی طرح جیسی آج اور دو دن پہلے اُسے کسی نے پِک کیا تھا۔ کالج بس سٹاپ پر کھڑی لڑکیاں اُن کے بخیئے اُدھیڑ نے پر ہی اکتفا نہ کرتیں بلکہ کھال تک نوچ ڈالتیں۔ اگلی پچھلی سات پُشتوں تک تبصرہ آرائی ہوتی۔
ایسے میں یہ سوال بار بار سامنے آتا۔
”کیا یہ شخص بھی فلرٹ کرنا چاہتا ہے؟“
اُن اضطرابی دنوں میں اِس سوال کے بار بار سامنے آنے پر اندر باہر جنگ وجدل کا بازار گرم رہا۔ سوچوں کی گھمن گھیریوں اور کھولاؤ نے دماغ کی چُولیں ڈھیلی کر دی تھیں۔ لگتا تھا اُس کا سارا وجود آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پر کھڑا ہے کہ بس ایک ہی لمحے میں سب کچھ پھٹ پھٹا جائے گا۔ مختلف اوقات میں متضاد کیفیات کے رُخ سامنے آتے۔ کبھی وہ اُسے اپنا سا لگتا۔ اُس کے بارے میں ذرا سی گھٹیا سوچ یا خیال اُسے بے چین کر دیتا۔
رات کو سوتی تو جیسے کوئی کہتا۔
”ارے تم دُھت سو رہی تھیں۔ رحمان بھائی تم پر اپنا کمبل ڈال گئے۔ موسم اتنا ٹھنڈا ہوگیا تھانا۔“
”میں تو اِس لڑکی کے لئے چٹا گانگ گیا تھا۔ مہمان جو ہوئی ہماری۔“
”جی چاہتا ہے تمہیں اپنے گھر لے جاؤں۔“
ایک آدھ بار اُس نے یہ بھی سوچا کہ آخر اتنی لڑکیوں کے درمیان اُس نے اُسے ہی دوست بنانے کے لئے کیوں پسند کیا؟ پر اِس سوال کا جواب بھی مشکل نہ لگتا۔ آئینے کی طرح ہر چیز سامنے تھی۔وہ بُہت خوبصورت تھی۔ قیمتی کپڑے پہنتی تھی۔ اپنے آپ کو اُونچے گھر کی لڑکی ثابت کرتی تھی۔
شانوں پر جھُولتے بالوں، خوش رنگ لباس اور ہلکے ہلکے میک اَپ کے ساتھ جب وہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتی تو میٹھی سی مُسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر خودبخود بکھر جاتی اور وہ اپنے آپ سے کہتی۔
”تو یہ میں ہوں۔ اللہ۔ میں تو خود اپنی پہچان میں نہیں آرہی ہوں۔“
ایسے لمحوں میں وہ یکسر بھُول جاتی کہ اُس کا باپ تین سو روپلی کے لئے گذشتہ دو سالوں سے آزاد کشمیر کی سنگلاخ چٹانوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اُس کی ماں ملگجے کپڑوں میں لپٹی لکڑیوں کے کڑوے کسیلے دھوئیں سے اُلجھ رہی ہوگی۔ اُ س کے چھوٹے بھائی پیسو ں کے لئے ماں سے جھگڑتے ہوں گے۔
آئینے میں جو عکس اُسے نظر آتایہ اُس کے خوابوں کی تعبیر تھا۔
یوں ذہن کو اُلجھانے میں ایک اور بات بھی بڑی نمایاں تھی اور وہ اُس کا شادی شدہ ہونا تھا۔ جب وہ یہ سوچتی کہ گھر میں اُس کی بیوی ہے جو یقیناً خوبصورت بھی ہوگی۔ اُسی کی طرح بنگال کے امیر کبیر خاندان سے ناطہ ہوگا۔خود اُس کی باتوں سے ظاہر ہے کہ اُن کے درمیان اچھے خوشگوار تعلقات ہیں۔ بچے بھی ہیں۔ تو پھر اُسے کیا مصیبت پڑی ہے کہ یہ پرائی لڑکیوں سے دوستیاں کرتا پھرے؟ اِسے ہوس کانا م ہی دیا جاسکتا ہے۔
یہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ معصو م سی لڑکی پھر پٹڑی سے اُتر کر سوچوں کے گرداب میں پھنس گئی۔ احمق اور جذباتی لڑکی نے گردن اُٹھا کر اُسے دیکھا۔
اور وہ اُس کی چہرے کے اُتا ر چڑھاؤ پڑھنے میں مصرو ف تھا۔ نگاہوں کا ٹکراؤ۔ شربتی چمکدار آنکھیں اور ذہین روشن کالی آنکھوں کا تصادم۔
سٹپٹا کر اُس نے سر جھُکا لیا۔
تب اُس گھمبیر سناٹے میں اُس کی نرمی اور محبت کی پھُوار میں بھیگی آوازاُس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”ذہن کو اتنا مت اُلجھاؤ۔ آؤ واپس چلیں۔“
”اللہ یہ کِس قدر زیرک ہے۔ میرے دل کا حال کیسے جان لیتا ہے؟ میرے دماغ کو کیسے پڑھ لیتا ہے؟ کیا اُس کے پاس کوئی آلہ ہے۔ ایک میں پاگل بیوقوف کہ تین دنوں سے بلکہ اگر یہ کہوں کہ جب سے چٹاگانگ سے آئی ہوں ذ ہنی طور پر بیمار ہوگئی ہوں۔ ہر گاڑی رائل بلیو ٹیوٹا نظر آتی ہے اور اندر بیٹھے ہر مرد پر اِسی کا گمان پڑتا ہے۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply