نوجوان نسل کی بربادی،ذمہ دار کون؟۔۔شمیلہ خورشید

آج سے چند سال پہلے تک جب اخبارات میں خبریں پڑھی جاتی تھیں  تو دل مطمئن ہوتا تھا کیونکہ ہمارا مسلم معاشرہ تمام برائیوں سے پاک تھا۔لیکن آج کل اس ماڈرن دور میں اخبارات یا ٹی وی پر جب نظر پڑتی ہے تو اچھائی کے علمبردار ہی سب سے پہلے برائی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔جرائم کا صفحہ کھولو تو نام نہاد مسلم معاشرے کی اصلیت کھل جاتی ہے۔انسانیت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔
آئے دن مختلف کیسسز دل دہلا دینے والے ،کبھی کسی نوجوان لڑکی کی خودکشی تو کبھی کسی کی فطری موت،کبھی کسی کی لاش گندگی کے ڈھیر سے ملتی ہے تو کبھی کوئی مردہ حالت میں ہوٹل کے بند کمرے سے اور یہ یقیناً بیسویں صدی کا اک اہم ایشو بنتا جا رہا ہے ۔کیا اس کی ذمہ دار بڑھتی ہوئی  بےحیائی ہے؟یا صرف لڑکی  ذمہ دار ہے؟دیکھا جائے تو پندرہ سے بائیس سال کے درمیان نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے کیسسز روز بہ روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

دو ہزار سے لے کر اب تک لاکھوں زینب اس ظالم معاشرے کی نذر ہو چکی ہیں۔کہیں معصوم بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے،تو کہیں نو عمر لڑکیاں خودبخود اس دلدل میں اترتی نظر آتی ہیں۔یہاں حقیقت سے ہر شخص نظریں چرا رہا ہے۔ کہیں یہ لوگ بینائی سے محروم تو نہیں؟۔کہیں آگے کی کھوج میں پیچھے کچھ چھپ تو نہیں رہا؟۔اور اب کورونا کی آڑ میں چھپتے ہوئے حقائق؟ جب قرآن و احادیث نے مرد و عورت کیلئے اک حد مقرر کر دی تو کہیں ہماری نوجوان نسل اس حد سے بے خبر تو نہیں؟۔ابتدائی تربیت گاہ ماں کی گود ضرور ہے مگر یہاں معاشرے کے بھی چند لوگ شامل نظر آتے ہیں۔اور رہی سہی کسر ٹیکنالوجی بخوبی نبھا رہی ہے۔محرم و نامحرم کی حد ٹوٹ چکی ہے۔معاشرہ مختلف منہ بولے رشتوں سے بھرا نظر آتا ہے۔لڑکی  لڑکے کے  ناجائز تعلق میں یہاں کوئی فرق نہیں رہا۔۔۔ کہیں سوشل میڈیا اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ تو کہیں گھروں کے بےحیا اور کھلے ماحول نے ہر حد ختم کر دی۔جوائنٹ فیملی سسٹم نے تو بات ہی ختم کر دی۔کہیں گھر کے اندر سے ہی برائی جنم نہیں لے رہی۔معصوم نو عمر بچیوں کو ورغلا کر مختلف تحائف اور رنگین زندگی کے مختلف خواب دکھا کرمحبت نامی دلدل میں اُتارا جاتا ہے۔کہیں محبت کے نام پہ جسموں کی تجارت تو نہیں ہو رہی؟۔یاچند حسین خواب دکھا کر محبت جیسے پاکیزہ رشتے کو پامال کیا جا رہا ہے؟۔

سوال یہ ہے کہ اک غیر محرم سے تعلقات کی ضرورت کیوں پڑی؟۔کہیں گھریلو نفرتیں تو نہیں شامل ؟۔بے بنیاد رشتے جنہیں کزنز فرینڈشپ ،کلاس فرینڈز،ہوسٹل فرینڈز کا نام دیا جاتا ہے۔کہیں یہ انسان کے اندر کا خلا تو نہیں؟۔جو گھر سے باہر محض وقتی سکون کیلئے بنایا جاتا ہے؟۔ہاں یہی وہ خلا ہے جو انسان کے نفس کو بے قابو کر دیتا ہے۔جب اپنے نفس پر قابو نہیں رہا تو کسی بھی اپنی خواہشات  پر اختیار نہیں رہا  اور پھر مل رہے ہیں بےلگام مواقع۔ انسانی صورت میں شیطانی صفات لیے معاشرہ بھرا پڑا ہے نام نہاد انسانوں سے۔مگر اپنے آپ کو بچانا ہمارا اوّلین فرض ہے۔یہ عارضی رشتے محض وقتی سکون ہیں۔جب اللہ پاک نے ہر تعلق کو رشتے کو خوبصورت نام دیا ،حدود کے ساتھ تو کیوں نہ غلط کو چھوڑ کر صیح رشتے انتخاب اور وقت کا انتظار کیا جائے۔۔۔؟ اور برائی کی جڑ کاٹ کر نیکی کی بنیاد رکھی جائے۔۔کسی غیر محرم سے تعلق رکھنا حد سے زیادہ بے تکلفی،بےجا ہنسی مذاق بغیر مجبوری کے خدا تعالی کی قائم کردہ حدوں کو توڑ ڈالتا ہے اور یہ فحاشی و زنا کے زمرے میں آجاتی  ہیں تمام باتیں(صدافسوس)۔اور یہ وہ گناہ ہے جو گناہوں میں بدترین گناہ ہے۔ مگر افسوس یہ بدترین گناہ تیزی سے عام ہو رہا ہے۔کہیں نو عمر نوجوان اس گناہ سے بے خبر تو نہیں؟؟؟کہیں والدین اپنے بچوں کو گناہ ثواب کا درس دینا بھول تو نہیں گئے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

اچھے برے کی پہچان ،محرم غیر محرم میں فرق یہ سب وہ باتیں ہیں جو ہر بالغ و نابالغ کے علم میں لانے والی ہیں۔اس سے پہلے کہ ہماری غفلت ہماری نوجوان نسل کو بےحیائی کی راہوں کا مسافر بنا دے ہمیں اپنے سوئے ہوئے اعصاب کو جگانا ہو گا۔اور وہ درس جو ہم اپنے بچوں کو دینا بھول گے وہ آج سے دینا ہو گا۔اگر ہم اس راہ کے مسافر ہیں تو بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ہمیں خود کو اور ہمارے بچوں کو اللہ کے ہاں شرمندگی سے بچانا ہو گا۔بے شک وہ پاک ذات غفورورحیم ہے۔ہمارا ماضی ہماری بھول تھی ہمیں اپنے آج کو اور آنے والے کل کو بہتر بنانا ہے۔آج ہی اپنے رب سے معافی مانگ کر۔اک نئی صبح کا آغاز کرنا ہے۔اللہ تعالی ہمارے دلوں کو نور سے بھر دیں-آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply