گھروندا ریت کا(قسط22)۔۔۔سلمیٰ اعوان

وہ سرُخ عرُوسی لباس پہنے بیٹھی تھی۔ قیمتی طلائی زیورات بھی اُس کے بدن کی زینت بنے ہوئے تھے۔ خوبصورت ہیروں کا بریسلٹ کلائی کا حُسن بڑھا رہا تھا۔ نفاست اور عمدگی سے کئے گئے میک اَپ نے چہرے کو چار چاند کا روپ دے دیا تھا۔ پوربانی ہوٹل کا یہ کمرہ جس میں وہ گاؤ تکئے کے سہارے دبیز قالین پر بیٹھی تھی۔ برقی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔
پر بات یہ تھی کہ یہ سب مل جل کر بھی اُس کے چہرے پر پھیلے دُکھ کے احساسات کو چھُپانے میں ناکام ہورہے تھے۔
ابھی چند ہی لمحے گذرے تھے کہ وہ نجمہ شمشیر علی سے نجمہ رحمان بنی تھی۔ بیگم سلیم احمد خوندکر۔ بیگم جی اے دیوان اور مونیکا داس باتوں میں مگن تھیں۔ ثریا اور نازلی البتہ اُس کے پاس بیٹھیں اُس کی آنکھوں سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اُمنڈتے پانی کو رُخساروں پر گرنے سے قبل ہی جذب کرنے میں مصروف تھیں۔
ایک ہزار میل دور بیٹھی ماں باورچی خانے میں چولہے پر بڑی سی ہنڈیا چڑھائے ساگ گھوٹ رہی ہوگی۔ اُپلوں اور لکڑیوں کا کسیلا دُھواں باورچی خانے میں پھیلا ہوا ہوگا۔ اُس کی ناک سے پانی بہتا ہوگا جسے کبھی تو وہ اپنی فلالین کی چادر کے پلّو سے صاف کرتی ہوگی اور کبھی زکام زدہ ناک کو چُولہے کے آگے ڈھیر کی ہوئی راکھ پر بار بار صاف کر رہی ہوگی۔ دونوں چھوٹے بھائیوں نے کالج سے آکر پوچھا ہوگا۔
”ماں آج کیا پکایا ہے؟“
اور ماں سے ساگ کا سُن کر اُنہوں نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے کہا ہوگا۔
”ساگ تو ماں نے ہماری ہڈیوں گوڈوں میں نہ بٹھایا تو بات کیا بنی یا تو سردیاں نہ آئیں اور اگر اُن کا آنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھراباّ کے اِس بے حد پیارے دوست صوبیدار شریف کی فصلیں کورے سے ماری جائیں جو ہر دوسرے دن ساگ کا گٹھا ہمارے ہاں بجھوانا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔
ماں ساگ میں مکئی کا الن ڈالتے ہوئے اُونچے اُونچے بول رہی ہوگی۔
”تمہیں تو ہر روز گوشت چاہیے۔ مرغی چاہیے۔بھُنی ہوئی کلیجی چاہیے۔ پھل چاہئیں۔ ساتھ میں پڑھی لکھی ماں بھی چاہیے تھی۔میں ان پڑھ جاہل عورت جانتی نہیں کہ تمہارے جسموں کی بڑھوتری کے لئے اچھی غذاؤں کی کتنی ضرورت ہے۔ باپ فوج میں کرنیل لگا ہوا ہے نا۔ پیسے کی اُگل اُچھل ہے۔ آئے دن اُس کے منی آرڈر آتے ہیں اور میں پیسہ اپنے پچھلوں کو دے آتی ہوں۔ کبھی کہوں کہ حساب لو مجھ سے میں مہینہ کیسے پورا کرتی ہوں؟وہ تو ڈیڑھ سو روپیہ بھیج کر فارغ ہو جاتا ہے۔ اُس کی بلا سے گھر کی گاڑی چلے یارُکے۔ پائی پائی سوئی کے ناکے سے گذارتی ہوں تب کہیں مہینہ پار ہوتا ہے۔
”ارے چھوڑ ماں۔تو تو سدا یونہی واویلا کرتی رہے گی۔ اب بڑی آپا اور بڑے بھیا بھی پیسے بھیجنے لگ گئے ہیں۔ پر تو تو جانے اُنہیں کس کال کوٹھری میں چھُپا ڈالتی ہے۔ ہوا تک نہیں لگنے دیتی۔“
اور ماں نے یقیناً بات ٹال دی ہوگی اور کہا ہوگا۔

”ارے ظہیر دیکھ نا گلاس میں خط آیا رکھاہے۔بتا تو کس کا ہے؟مجھے تو نجمہ کا لگتا ہے اور ہاں مجھے سنا بھی دے۔“
”ماں تو نے چار حرف پڑھ تو لینے تھے۔ یہ خطوں کوسُننے کی محتاجی تو جاتی رہتی۔“
”ارے اب سنائے گا یا یونہی باتیں بناتا رہے گا۔“
اور یہ یقیناً اُس کا خط ہوگا جو دو دن قبل اُس نے پوسٹ کیا تھا۔ سُنتے سُنتے ماں نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ہوگا۔
”میرے بچے بکھر گئے ہیں۔ مولا تو ہی اُن کا نگہبان ہے۔ اُنہیں کامیاب کر اور گھر لوٹا۔“
کیا ماں کو ایک لمحے کے لئے یہ خیال آیا ہوگا کہ اُ س کی بیٹی اِس وقت ڈھاکہ کے ایک بے حد اُونچے ہوٹل کے عالی شان کمرے میں دُلہن بنی بیٹھی ہے۔
اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ دردناک سِسکی اُ س کے لبوں سے نکلی اور آنسوؤں کا ڈھیر رُخساروں پر بہہ گیا۔ اُوشا اُٹھ کر فوراً اُ س کی طرف لپکی۔
”ارے ارے پاگل ہوگئی ہو۔ جانتی ہو رحمان بھائی نے مجھے خاص طور تمہیں سجانے کے لئے مدُعو کیا ہے۔ تمہاری آنکھیں جن کی نوک پلک سنوارنے میں میں نے دو گھنٹے صرف کئے ہیں۔ یوں آنسو بہا کر اُن کا ستیاناس مت کر و۔ وہ جس کے لئے ا تنی تگ ودو کی گئی ہے اُسے تو کم ازکم دیکھ لینے دو تاکہ میری محنت وُصول ہو۔
مسز دیوان نے اُسے گلے سے لگا کر پیار کیا اور بولیں۔
”دیکھو جان یوں فکر کرنے اور رونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ شادی تو ہر لڑکی کی ہوتی ہے پر رحمان جیسا شوہر کہیں نصیب سے ہی ملتا ہے۔
”شادی۔“
اُس نے زیر لب دہرایا۔
بھلا ایسے بھی کبھی شادیاں ہوئی ہیں۔ ڈھولک بجتی ہے۔ مہندی لگتی ہے۔ رشتہ دار اور عزیز اکٹھے ہوتے ہیں۔ باجے بجتے ہیں ایک ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ پھر شہنائیوں کی گونج میں سار ے شگن ویہاروں کے ساتھ دلہن رخصت ہوتی ہے۔
اُس کی شادی یو ں چُپ چپاتے پردیس میں ہو جائے گی کہ جنم دینے والے ماں باپ کو خبر نہ ہوگی۔ بہن بھائیوں، عزیزوں، رشتہ داروں، کسی کوبھی علم نہ ہوگا۔
”میرا تو ناطہ ٹوٹ گیا نا اُن سے۔ عمر بھر کے لئے کٹ گئی۔“
کچھ ایسی انہونی اور نرالی بات بھی نہ ہوئی تھی۔ وہ جس راستے پر چل نکلی تھی۔ اُسے یہیں آکر ختم ہونا تھا اور یہی اُس کا انجام تھا۔ہاں البتہ یہ اور بات تھی کہ رحمان نے اِس موضوع پر اُس سے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔
وہ اُسے جب لاہور سے لے کر ڈھاکہ آیا تو سیدھا اپنے گھر لے گیا۔ اِس تمام وقت وہ اِسی اُدھیڑ پن میں رہی کہ وہ اُس سے کوئی بات کرے گا۔ یہ کِس نوعیت کی بات ہوسکتی ہے؟وہ قیاس آرائیاں میں ڈوبی رہی۔ لیکن وہاں سب باتیں تھیں۔ اِدھر اُدھر کی لیکن اگر ہونٹ چُپ تھے تو وہ خاص اِس موضوع پر۔
شام ڈھلی تو اُسے ہال چھوڑنے آیا۔ راستے میں اُس نے صر ف اتنا کہا۔
”نجمی تمہارا لوکل گارجین اب میں ہوں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ تم فضول قسم کی شرم اور جھجھک میں اُلجھی رہو۔ اوّل تو تمہاری سب ضروریات کا خیال میں خود ہی رکھوں گا۔ تاہم اگر اِس سلسلے میں کوئی فروگذاشت ہو جائے تو یاد دلانا تمہارا فرض ہوگا۔ مجھے خوشی ہوگی اگر تم ہر بات بلا تکلّف مجھ سے کرو گی۔اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر صَرف کرو اور اُس کمی کو پورا کرو جو اِس عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
اُس نے نیو مارکیٹ سے اُس کے لئے کھانے پینے کی اشیاء خریدیں۔ روزمرہ ضروریات کی دیگر اشیاء کی بھی خریداری ہوئی۔ بعض چیزوں کے بارے میں اُس نے بہتیرا کہا کہ وہ اُس کے پاس ہیں۔ مگر اُس کی ایک نہ چلی اور جب وہ گاڑی سے اُتر رہی تھی۔ اُس نے یہ کہنا بُہت ضروری سمجھا تھا۔
”مکمل اعتماد سے اندر جاؤ۔ لڑکیوں سے ملو۔ تمہاری پرووسٹ کو میں مطمئن کر چکا ہوں۔ اُنہوں نے تمہاری روم میٹز کو تمہاری اچانک غیر حاضری کے بارے میں یقیناً بتا دیا ہوگا۔
اور ہال پہنچ کر لڑکیوں سے مل ملا کر اُنہیں اپنی والدہ کی بحالی ئ صحت کا بتا کر وہ عجیب سی سوچوں میں گھِر گئی تھی۔
”یہ کیسا انسا ن ہے؟“ اُس نے بے اختیار سوچا تھا۔
اور پھر کتنے مہینے گزر گئے وہ پریو ویس سے فائنل میں آگئی۔ اب بھی اکثر وہ اُسے شام کو ہال سے پک کر تا۔ گھماتا پھراتا۔ کبھی کبھی گھر لے جاتا۔ دونوں اکٹھا کھانا کھاتے۔کافی پیتے۔باتیں کرتے۔ دونوں بچے اُس نے مرزا پور کے بی ہومز میں بھیج دئیے تھے۔ کبھی کبھی وہ کہتی۔
”مجھے بچوں سے تو ملائیے۔ میں نے تو اُنہیں دیکھا بھی نہیں۔“
وہ ہنستا اور کہتا۔
”بہت شیطان ہیں۔ تمہارے گلے کا ہار بن جائیں گے۔“
وہ بہت حساس، متین اور فرمابردار قسم کی لڑکی تھی۔ کسی چیز کی فرمائش کرنا تو اُس کے نزدیک گناہ کے برابر تھا یہ اور بات ہے کہ اُس کے چیخنے اور واویلا کرنے کے باوجود بھی وہ اُس کے لئے تھوک کے حساب سے چیزیں خریدتا تھا۔
اور جب اُسکا انٹرنیشنل پاسپورٹ بنوانے کی بات ہوئی۔اُسنے حیرت سے کہا۔
بھلا اس کی کیا ضرورت ہے؟مجھے کہاں جانا ہے؟
اور اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
تمہارے بہن بھائی باہر ہیں۔کبھی جانا ہو تو مسئلہ نہیں ہو گا۔
اُس کے اکاؤنٹ میں بھی چھ ہندسوں کی آخری حد کوپہنچی ہوئی رقم تھی۔یونہی ایک بار چیک کرنے پر لاکھوں کا بیلنس جان کردنگ ہی تو رہ گئی تھی۔اُس نے سخت اعتراض کیا۔کتنے دنو ں اُس سے ناراض رہی۔پر وہ مُصرکہ بیکار کی ضد مت کرو۔کبھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اُس کا فائنل بھی اختتام پر تھا۔حالات میں جیسے ٹہراؤ اور استقامت سی آئی ہوئی تھی۔یوں اب بھی وہ اُسے ہال سے پِک کرتا۔لمبی ڈرائیو پر لے کر جاتا۔خوب گپ شپ لگتی۔کبھی کبھی گھر بھی لے جاتا۔چائے کافی چلتی۔باتیں ہوتیں۔
سچ تو یہ تھا کہ وہ شاہزادیوں جیسی شان سے رہ رہی تھی۔ پر ایک عجیب سی بات تھی کہ کبھی کبھی اُس کا جی چاہتا کہ وہ اُسے اپنے بازوؤں میں سمیٹے۔ اُس کی پیشانی پر پیار کرے۔ اُس سے اظہارِ محبت کرے۔
پر وہ تو انسان ہوکر بھی دیوتا بن گیا تھا۔ گوشت پوست کا وجود رکھتے ہوئے بھی پتھر کا رُوپ دھار بیٹھا تھا۔
نمی سے بوجھل ہواؤں کے شانوں پر لہراتی وہ شام بُہت دلاآویز تھی۔ وہ دوپہر سے رحمان کے گھر تھی۔ شام گہری ہونے لگی تو اُ سنے ہال جانے کے لئے کہا۔وہ اُسے رخصت کرنے باہر آیا۔ برآمدے کی سیڑھیوں سے پورٹیکو میں کھڑی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے جب وہ دھیرے دھیرے نیچے اُتر رہی تھی اُس کا ایک قدم زمین اور دوسرا قدم سیڑھی پر تھا۔ جب اُس نے کہا۔
”نجمی کل دوپہر کا کھانا چائینز میں کھائیں گے۔“
اُس نے اپنی لابنی پلکیں اُوپر اُٹھائیں۔ قدرے حیرت سے اُسے دیکھا اور بولی۔
”کل۔ کل سے تو رمضان شروع ہو رہا ہے اور میں نے روزہ رکھنا ہے۔“
اُس نے بالکل اُ س کے قریب آکر محبت کی گہری نظروں سے اُسے دیکھا اور کہا۔
”مگر نجمی یہ دن تمہاری پڑھائی کے لئے بُہت اہم ہیں۔ روزہ تو ٹھیک نہیں رہے گا۔“
وہ خفیف سی ہنسی ہنسی۔
”دراصل عادت ہے روزے رکھنے کی۔ نہیں رکھوں گی تو بے چین رہوں گی۔“
وہ ہال آگئی تھی۔ اب اکثر اُسے ڈرائیور لاتا اور لے جاتا تھا۔ پر جب رات کو وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوئی تو مینو اُس کے لئے ٹفن باکس لایا۔ اُس نے تعجب سے پکڑا۔ کھولا تو پتہ چلا کہ اُ س کی سحری ہے اور پھر یہ معمول بنا کہ افطار ی اور سحری دونوں اُس کے ذمّے ٹھہریں۔
اُس کی نس نس رَگ رَگ میں اُس کی محبت اور اُس کا خیال خون کی مانند دوڑنے لگا تھا۔ کبھی کبھی اُسے غصّہ بھی آتا کہ وہ اُس سے اپنے دل کی بات کیوں نہیں کرتا تھا۔ اُس کی سوچیں کیا ہیں؟ وہ کیا چاہتا ہے؟
اُس کی سوچوں کا انکشاف اُس پر اُس دن ہوا جب وہ ڈیڑھ بجے لیبارٹری سے اپنے فائنل امتحان کاپریکٹیکل کرنے کے بعد نکلی۔
”وہ گاڑی میں اُس کا منتظر ہے۔“ کوریڈور میں کھڑا ڈرائیور بتاتا تھا۔
وہ اُ س کے ساتھ ساتھ چلتی گاڑی تک پہنچی۔ سٹیرینگ کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
ڈرائیورکو اُس نے جناح ایونیو میں اُتار دیا اور اُسے لے کر اُگلو میں آگیا۔ اندر میز کے گرد بیٹھ کر اُس نے ویٹر کو کافی لانے کے لئے کہا۔ کافی کا ایک کپ اُس نے اُس کی طرف بڑھایا اور دوسرا خود اُٹھاتے ہوئے بغیر کسی تمہید کے بولا۔
”نجمی میں تم سے شادی کرنا چاہتاہوں۔ آج ہی۔“
جیسے قریب ہی کوئی دھماکہ ہو جائے۔ اُس کے شور ودہشت سے دماغ ماؤف ہو جائے۔ کان سُننے سے محروم ہوجائیں۔ کچھ ایسا ہی اُ س کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ سُن سی ہو کر رہ گئی تھی۔
اُس سے کچھ سُننے کی متمنّی وہ ضرور تھی۔ مگر کیا؟ اُس کا تجزیہ وہ کبھی نہ کر پاتی۔ اب جبکہ سُن بیٹھی تھی۔ تو پریشان ہوگئی۔ دل اور دماغ دونوں بے قابو سے ہو رہے تھے۔ ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے۔
اُس نے محسوس کیا۔
بصد اصراراُسے کافی پلائی۔ پھر اُسے ساتھ لے کر جیولرز کی دُوکان پر گیا۔ زیورات خریدے۔ بنگال کی مروجہ روایات سے ہٹ کر اُس نے اُس کے لئے غرارہ سیٹ کا انتخاب کیا۔اِ س تمام وقت اُس نے اُسے ایک لمحے کے لئے بھی تنہا نہیں چھوڑا۔ وہ کسی پتھر کی مورتی کی طرح یہ سب دیکھتی رہی۔ رات پڑنے پر وہ اُسے پور بانی لے آیا جہاں اُس کے چند دوست اور اُن کی بیویاں موجود تھیں۔ ثریااور نازلی ڈرائیور کے ساتھ آئی تھیں۔
ماں،باپ، بھائی، بہن،رشتہ دارخیالوں میں دوڑے چلے آرہے تھے۔ رشتہ داروں کے طعنے ماں باپ کی جھکی گردنیں اُسے تڑپا گئیں۔
اور پھر جیسے ضبط کابند ٹوٹ گیا۔ وہ یوں تڑپ تڑپ کر روئی اور سِسک سِسک کر بلکی کہ اُن سب کو اُٹھناپڑا اور ساتھ کے کمرے سے رحمان کو آنا پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply