گھروندا ریت کا(قسط20)۔۔۔سلمیٰ اعوان

دوپہر اِس قدر ہنگامہ خیز ہوگی۔ اُس کے گمان میں بھی ایسا ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہ تھا۔ اُس کا طوفانی انداز اُسے اندر باہر سے ہلاکر رکھ دے گا۔ یہ تو اُس کے تصّورمیں بھی نہ تھا۔ یوں اگر اُسے اِس شدنی کا تھوڑا سا علم ہو جاتا۔ اُس کی چھٹی حِس بیدار ہوکر اُسے تھوڑا سا خبردار کر دیتی۔ اُس کا اندر آنے والے واقعات اپنا عکس پہلے سے ہی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کے مصداق اُسے کچھ نہ کچھ کِسی نہ کِسی رنگ ڈھنگ سے ہلکا سا اشارہ بھی کر دیتے توگو وہ وقت کے پاؤں میں زنجیریں ڈال کر دوپہر کو آنے سے تو روک نہ سکتی۔ پر ناگہانی مصیبت سے بچاؤ کا کوئی سدّباب تو کرتی۔
مگر ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔ یہ بھی کبھی رُکی ہے۔ وہ ہوئی اور ایسے ہوئی کہ اُسے یوں ہلا گئی جیسے تیز آندھی کسی درخت کو جڑوں تک کو ہلا دے۔ ایک ہی وار پڑا اور سارا تانا بانا بکھر کر رہ گیا۔
صبح تو ذرا بھی غیر معمولی نہ تھی۔ عام دنوں جیسی ہی تھی۔ بلکہ اگر کہا جائے تو خاصی خوشگوار سی تھی۔ شب خوابی کے لباس میں ہی اُ س نے کوریڈور میں نکل کر نیلے شفاف آسمان کو دیکھتے ہوئے اُس کی خوشگوار ی اور لطافت کو محسوس کیا تھا۔ معمول کے مطابق سب کام کئے۔ ناشتے اور تیار ی کے بعد وہ یونیورسٹی جانے سے قبل ایک با رپھر کوریڈور میں آگئی تھی۔ فضا کو بھرپور انداز میں پھر دیکھا تھا۔
سُورج چمک رہا تھا۔ رقیہ ہال کی روشوں اور قطعوں پر دھوپ بکھر ی پڑی تھی۔ دن روشن اور چمکدار تھا۔ ایسا ہی روشن اور چمکدار جس میں دُنیا کو تسخیر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ نیلے آسمان کو ہاتھوں سے چھُونے کی تڑپ جاگتی ہے۔
وہ کوریڈور کی بیرونی دیوار پر کہنیاں ٹکائے ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ تھامے بُہت دیر تک فضا کو دیکھتی رہی تھی۔ ماحول میں خُنکی کا لطیف سا احساس پایا جا رہا تھا۔
آدھ گھنٹہ اُس نے بالوں کو سنوارنے میں لگایا اور تقریباً اُتنا ہی وقت نفیس کڑھت کی اُس کاہی رنگی ساڑھی کو پہننے پر لگایا جسے چند دن پیشتر وہ جناح ایونیو کے گنی اسٹور سے خرید کر لائی تھی۔ ہمرنگ بلاؤزچُست اور اُونچا تھا۔ ساڑھی پر لگی اَبرق جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھی۔ اُس نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تھا۔سچی بات ہے پہچاننے میں نہیں آ رہی تھی۔ کھِلتی چمپئی رنگت کی ملاحت دو چند ہوگئی تھی۔
بڑے خوشگوار موڈ میں کوریڈور میں فلاسفی ڈپارٹمنٹ کی رانی سے کچھ دیر گپ شپ لگائی۔ جب لفٹ کی طرف جانے لگی تو وہ ہنستے ہوئے بنگلہ میں بولی۔
”ارے ذرا سنبھل کر جانا۔ آج بُہت سے شہید ہوں گے۔“
وہ کھِلکھلا کر ہنسی اور بولی۔
”ایسی باتیں کرو گی تو ساڑھی پہننا چھوڑ دوں گی۔“
وہ جب بھی ساڑھی پہن کر ہال میں پھرتی یا ڈپارٹمنٹ جاتی۔ لڑکے لڑکیاں سبھی تعریف کرتے۔ بعض شوخ اورچُلبلے تو پاس آکر کہنے سے بھی نہ چُوکتے۔

” بُہت سُندرلگتی ہو۔بس ساڑھی پہنا کرو۔“
وہ جھینپ جاتی۔ اُس کا چہر ہ سُرخ ہو جاتا اور وہ تیزی سے رُخ بدل لیتی۔
ڈپارٹمنٹ وہ ضرور گئی۔ کلاسیں بھی اُس نے اٹنڈ کیں۔ لائبریری میں بھی بیٹھی کچھ نوٹس بھی بنائے۔ کام تو سبھی کئے۔ پر ایسے کئے جیسے بیگار کے ہوں۔
دل سینے میں مچل مچل جا رہا تھا کسی طرح وہ دیکھ لے۔ ساتھی لڑکیوں نے احساس دلادیا تھا کہ وہ آج بُہت خوبصورت لگ رہی ہے۔
بارہ بجے ہال آئی اور کھانا کھایا۔ اِدھر اُدھر روشوں پر گھومی۔ ٹیبل ٹینس کی ماہر کھلاڑی نسرین حبیب سے تھوڑی دیر باتیں کیں۔ کھیل کے قواعد وضوابط کے بارے میں کچھ جانا۔ مقصد تو وقت کو دھکیلنا تھاکہ لگتا تھا جیسے دوپہر کو کسی طاقتور جن دیو نے جپھّی ڈال کر اپنی گرفت میں اِس مضبوطی سے لے لیاہے کہ وہ ایک جگہ جام ہوکر آگے بڑھنے سے انکاری ہوگئی ہے۔
لفٹ مین سے باتیں کرتی اُوپر اپنے کمرے میں آئی۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی۔پندرہ بیس منٹ تک بالوں میں کنگھا چلایا۔ ساڑھی کے پلّو کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا۔ ہیر سپرے کیا۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ٹچ دیا۔ہاتھوں اور ناخنوں کا جائزہ لیا۔ پاؤں کو کپڑے سے صاف کیا اور پھر نیچے ڈاک دیکھنے چلی آئی۔
ساری ڈاک دیکھ ڈالی۔ ایک بھی خط اُس کے نام نہ تھا۔ گھر سے خط آئے کتنے ہی دن گذر گئے تھے۔ بددل سی ہو کر آڈیٹوریم کے پیل پائے سے پشت ٹکا کر کھڑ ی ہوگئی او ر لڑکیوں کو اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے دیکھنے لگی جب روم نمبر دس کی مونیکا نے اُس کے قریب آکر کہا۔
”ارے تم یہاں کھڑی ہو اور مینو تمہیں ڈھونڈ رہا ہے۔ کوئی خاتون تمہاری تلاش میں ہے۔“
”خاتون۔“
بے اختیار اُس کے ہونٹوں سے نکلا۔
”خاتون کون ہو سکتی ہے؟“
اُس نے تیزی سے پلکیں جھپکائیں اور اپنے آپ سوال سے سوال کیا اور جب وہ گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی اُس نے اضطرابی لہجے میں خود سے پھر پُوچھا تھا۔ یہ کون ہے؟
دل پتہ نہیں کیوں دھڑکنے لگا تھا۔ ریسپشن روم Reception Room کے باہر سیمنٹ کے تھڑے پر تمکنت سے کھڑی اُس بے حد فیشن ایبل عورت کو اُس نے حیرت سے دیکھا تھا۔ جس کی قیمتی ساڑھی کا پلّو اُس کے شانے پر اِس انداز میں پڑا تھا کہ بالشت بھر پیٹ ننگا ہو رہا تھا۔ قدرے موٹاپے کی طرف مائل اُس خاتون کے شانوں پر بوجھل سا جوڑا تھا۔ بغیر آستین کا بلاؤز بُہت چُست تھا۔
اُس کا دل کچھ اِس اندا ز میں دھڑکنے لگا جیسے ابھی وہ سینے پر دھرے سارے پردے پھاڑتا باہر آگرے گا۔ اُس کی آنکھوں میں خوف کی پرچھائیں رینگنے لگیں۔ تیکھی اور کڑی نظروں سے اُس لڑکی کو دیکھا گیا تھا۔ جو ابھی ابھی اُس کے پاس آکر کھڑی ہوئی تھی اور اب اُس کی طرف خوف زدہ استفہامیہ انداز میں دیکھ رہی تھی۔
”ہوں تو اِس کے ساتھ آج کل رحمان کی شامیں گذرتی ہیں۔“
اُس نے لمبا اور گہرا سانس لیا۔ سینے میں اُٹھتی درد کی ٹیس کو دبایا۔ چند قدم آگے بڑھی اور برچھی کی طرح کاٹ دینے والے لہجے میں بولی۔
”تم یقیناً میرے بارے میں جاننا پسند کروگی۔ میں مسزرحمان ہوں۔“
”مسزرحمان۔“
الفاظ اتنی مدھم اور شکستہ آواز میں کچھ یوں اُس کے لبوں سے نکلے کہ اُن کی بازگشت بھی اُسے نہ سنائی دی۔
یہ مسزرحمان اُس مسز رحمان سے کتنی مختلف تھی جس کی تصویروں کو اُس نے گیلری میں ٹنگے دیکھا تھا۔ دُبلی پتلی نازک اندام سی لڑکی ایک فربہ خاتو ن کا رُوپ دھار چکی تھی۔

اُس وقت جب دُھوپ جوبن پر تھی۔ رقیہ ہال کی لڑکیوں کے غول کتابیں ہاتھوں میں پکڑے زور وشور سے آپس میں باتیں کرتے اندر آرہے تھے۔ گیٹ پر بیٹھا دربان کسی سائیکل رکشے والے سے اُلجھ رہا تھا۔ مینو دو لڑکیوں سے باتیں کر رہا تھا۔ سامنے پُوکھر کے پاس بیٹھی چند لڑکیاں ٹیگور کے گیت گا رہی تھیں۔
اور وہ فٹ پاتھ پر کھڑی اُس فیشن ایبل عورت جس نے اپنے آپ کو مسزرحمان کہا تھا یوں دیکھ رہی تھی جیسے بستر مرگ پر پڑے کسی مریض کو موت کا فرشتہ نظر آگیا ہو۔ خاتون نے ایک با ر پھر گہری نظروں سے لڑکی کو دیکھا تھا۔ کیسا من موہ لینے والا حُسن تھا۔ معصومیت سے بھرا ہوا۔ زمانے کی چالاکیوں، ہوشیارئیوں اور چیرہ دستیوں کے نشانوں سے پاک صاف۔
اور اُس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
”وضع قطع اور انداز کسی شریف اور اچھے گھر کی لڑکی کا پتہ دیتے ہیں۔ یوں چُپ چاپ خوفزدہ سی مجرموں کی طرح میرے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے یہ میرا سامنا کمال ڈھٹائی اور بے باکی سے بھی کر سکتی تھی۔ گومیں بھی آج معاملہ آر پار کرنے آئی تھی پر قیمت کیا ہوتی اِس سے خوف زدہ بھی تھی کہ کبھی کبھی قیمت کی ادائیگی سخت زمین پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کے باوجود ساری ہستی کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔ بندہ کھیرُو کھیرُو ہو جاتا ہے۔
لیکن اِس لڑکی کو دیکھ کر میرا دل کچھ عجیب سا ہونے لگا ہے۔ کیوں؟ شایداِس کی معصومیت اور بھولا پن دیکھ کر۔
پھر وہ آگے بڑھی۔ اُس نے بازو سے اُسے تھاما اور نرمی سے بولی۔
”آؤ تھوڑی دیر کے لئے باہر چلیں۔ میں تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔“
اور وہ اُس کے پیچھے یوں چلی جیسے کسی مسمریزم کے زیر آگئی ہو۔یا جیسے کوئی معمول عامل کے پیچھے چل پڑتا ہے۔
کیسے کربناک لمہات تھے۔ مرنے اور خودکشی کرنے والے حالات تھے۔ ویسی ہی گاڑی تھی۔ اِسی طرح موڑ کٹ رہے تھے۔ اُسی جگہ وہ بیٹھی تھی جہاں روز بیٹھاکرتی تھی۔ پر تب اور اب میں کتنا فر ق تھا۔ اِس درجہ سنگین صورتحال کا تو وہ خواب میں بھی تصور نہ کرسکتی تھی۔ مگر اب اُس کا کھُلی حقیقت کی طرح سامنا کر رہی تھی یوں کہ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے برف تھے۔ چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی اور دماغ ماؤف تھا۔
اور کلکتہ کے مشہور پنّی خاندان کی بیٹی اور ڈھاکہ کے اُونچے معزز گھرانے کی بہو اُس وقت کار چلاتے ہوئے اپنے شوہر کو دل میں پنتیس ہزار گالیاں نکال رہی تھی۔ عورت ذات اَزلی بیوقوف اور پاگل، بھلا اُسے ٹریپ کرنا کونسا مشکل کام ہے؟ بیوی کے ناروا سلُوک کی داستان سنائی۔ اُس کے ظلم وستم کے قصّے بتائے۔ کہیں اُ س کی بے وفائی کی داستان گھڑ لی۔ کہیں اُس کے جھوٹے عاشق پیدا کر لئے۔ کتنے حربے ہیں مرد کے پاس۔ ہمدردیاں سمیٹنے اور محبتیں حاصل کرنے کے۔ عورت تو ممتا کے خزانے لئے سدا ہی بے تاب۔ سدا ہی مرد کو اپنے آپ میں سمیٹنے کے لئے تیار۔
اور پھر رحمن جیسے خرانٹ آدمی کے لئے تو بائیں ہاتھ کا کھیل۔ جیون دوبھر کر دیا ہے اِس شخص نے۔ اب کوئی کہاں تک نگرانی کرتا پھرے۔
کار میں چھائی خاموشی ٹوٹی۔ اُس نے سوا ل کیا تھا۔
”رحمان کی تم سے کیسے ملاقات ہوئی؟“
وہ تو پتھر کی ایک مُورت بنی بیٹھی تھی۔ بے حِس وحرکت۔ وجود بس سیٹ پر بیٹھنے کا گنہگار ضرور تھا۔
کچھ دیر بعد دوبارہ وہی سوال دہرایا گیا۔
جواب اِس بار بھی نہیں تھا۔
”کیا تم جانتی ہو؟ رحمان کی فیملی ہے۔“
وہ اِس بار بھی چُپ رہی۔ اُ س کے ہونٹ یوں بھینچے ہوئے تھے جیسے اُن میں کبھی حرکت پیدا نہ ہوگی۔ ہاں البتہ اُس جی چاہتا تھا کہ وہ اُونچے اُونچے بین ڈالے۔ زور زور سے روئے۔ چیخ چیخ کر کہے کہ ہاں ہاں میں جانتی تھی۔ سب کچھ جانتی تھی۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہوا؟میں یہ سب بھلا کب چاہتی تھی؟
اور طاہرہ رحمن نے گویا تیز دھار کی چھُریوں سے اُس کا سارا وجود بوٹیوں میں کاٹ دیا۔ وہ کہہ رہی تھی۔
”دراصل آج کل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لڑکیو ں نے امیرزادوں اور مالدارمردوں سے دوستی فیشن بنا لیا ہے۔ بھئی سٹوڈنٹ لائف میں مُفت کے سیرسپاٹے، پکنکیں، کاریں جھُولنا، تحفے تحائف وصول کرنا کیا بُرے ہیں۔ زندگی میں تھوڑا سا تھر ل اور ایکٹویٹی رہتی ہے۔پر میں تم سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ تم جو چہرے مہرے سے ایک اچھے اور شریف گھرانے کی لڑکی لگتی ہو۔ تمہیں فلرٹ بازی کے لئے کیا میرا شوہر ہی ملا تھا؟ آج پندر ہ دن ہوگئے ہیں میری نیندوں کو اُڑے ہوئے۔ کتنے پاپڑ بیلے۔ کیسے کیسے جتن کئے؟ تب کہیں جا کر تمہارا کھوج ملا۔ میرے شوہر کا دماغ کتنا خراب ہوگیا ہے؟ میں تمہیں بتانا نہیں چاہتی۔ مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ عورت ہو کر میرا گھر لوٹنے کی کوشش نہ کرو۔
یہ الفاظ نہیں ہتھوڑ ے تھے۔ جنہوں نے اُ س کے دل ودماغ کے پرخچے اُڑا ڈالے۔ پہلی بار اُس نے زبان کھولی۔
”میں نے آپ کے شوہر سے کوئی فلرٹ بازی نہیں کی۔ میں تو ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ آپ اتنا بڑا الزام مجھ پر مت لگائیں۔“
”کیسے نہ لگاؤں۔ اُ س کے دل میں تمہارا راج ہے۔ اُس کے دماغ پر تم حاوی ہو۔ تمہارے بارے میں وہ ایک لفظ بھی سُننے کا روادار نہیں۔“۔
”مت کریں ایسی باتیں۔ آپ کا شوہر اور آپ کا گھر دونوں آپ کو مبارک۔“
”میں چاہتی ہوں تم آئندہ رحمن سے کوئی تعلق نہیں رکھوگی۔“
”یہ سب آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے بارے مجھے کیا کرنا ہے؟ اِس کا فیصلہ میں خود کروں گی۔ یقیناً آپ کے شوہر آئندہ میری صورت نہیں دیکھیں گے۔“
اور جب وہ رقیہ ہال کے سامنے گاڑی سے اُتر رہی تھی اُس نے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا اور بولی۔
”میں تمہاری احسان مند رہوں گی۔ گھر داری کے چکروں میں پڑو گی تو سمجھو گی کہ یہ کیسے دُکھ ہیں؟ جو تن من جلا دیتے ہیں۔
مگر اُس نے نہ تو اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما اور نہ ہی اُس کی طرف دیکھا۔ بس چہرے پر زردی لئے شکستہ سی چال چلتی گیٹ کے اندر داخل ہوگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply