گھروندا ریت کا(قسط14)۔۔۔سلمیٰ اعوان

”ٹھیک سے بیٹھو۔گھبرا کیوں رہی ہو؟ اور ہاں شیشہ نیچے کرو۔ تمہیں ٹھنڈی ہوا لگے۔“
اُس نے شیشہ آہستہ آہستہ نیچے کیا۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ سختی سے بھینچے ہونٹ یوں بند تھے جیسے کبھی نہیں کھُلیں گے۔
شاندار گاڑی میں یوں تمکنت سے بیٹھنا بلاشبہ بُہت دل خوش کن تھا۔ہمیشہ ہی حسرت سے اُن عورتوں کو دیکھا کرتی تھی۔ جو کاروں میں بیٹھی بے نیازی سے فٹ پاتھوں پر چلتی پھرتی عورتوں پر اِک نگاہ غلط انداز ڈالتیں یوں جیسے وہ دھرتی کے کیڑ ے مکوڑے ہوں، اور پھرشانِ بے نیازی سے سکرین سے پرے دیکھنے لگتیں۔

آج وہ بھی ایک خوبصورت گاڑی میں بیٹھی تھی۔ پر دل جیسے من من بھر کے پتھروں کے نیچے آیا ہواتھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کار کا دروازہ کھُلے اور وہ نکل بھاگے۔ خو د کھول کر باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں تھا۔وہ کبھی اکیلی کِسی اجنبی مرد کے ساتھ نہیں بیٹھی تھی۔ یوں یہ وجہیہ سا آدمی جو اپنے اندر اپنائیت لئے ہوئے تھا اب اتنا اجنبی بھی نہ رہا تھا۔ اُنہوں نے اُ س کے ساتھ پانچ دن گذارے تھے۔ اُ س نے ایک اچھے دوست کی طرح حق رفاقت ادا کیا تھا۔ ایک اچھے محافظ کی طرح اُن کی حفاظت کی تھی اور ایک اچھے انسان کی طرح پسندیدہ عادات کا مظاہرہ کیا تھا۔

جانے یہ کون سی سڑکیں تھیں۔ گاڑی بڑی تیزی سے اُن پر دوڑ رہی تھی۔یہاں اتنی گہما گہمی تو نہیں تھی۔ پر ویرانی بھی نہ تھی۔ اِکّا دُکّا راہگیروں کا سلسلہ مسلسل جاری تھا۔
وہ سکون سے گاڑی چلا رہا تھا۔ گردن موڑ کر ایک بار بھی اُس نے اپنے قریب بیٹھی ہوئی اُس لڑکی کو نہیں دیکھا تھا جو خوفزدہ اور ہراساں سی گُم سُم اپنے آپ میں کھوئی کھوئی تھی۔
یوں یہ اور بات تھی کہ وہ دیکھے بنا ہی اُس کے دل کا حال رَتّی رَتّی جانتا تھا۔

تاریکی چھا گئی تھی۔ سڑکوں کی ٹمٹاتی روشنیوں میں رات کچھ زیادہ ہی اندھیری لگ رہی تہی۔ ایک بڑی دکان کے سامنے گاڑی رُکی۔ یہ کوئی سُپر سٹور تھا۔ اُس نے ہارن دیا۔ ویٹر آیا۔
اُس نے رُخ پھیرا اور پوچھا۔
”کیا کھاؤ گی؟“
”کچھ نہیں۔“
کچھ نہیں جب اُس کی زبان سے نکلا تھا یہ آواز اُس جان بلب مریض کی سی تھی۔ جو وقت نزع بمشکل ایک دو لفظ منہ سے نکالتا ہے۔

اُس کے ہونٹوں پر ہنسی دوڑ گئی۔ ویٹر کو آئس کریم کا آرڈر دے کراپنا بازو اُس نے بیک پر پھیلایا۔دروازے سے ٹیک لگاتے ہوئے اُس نے بائیں ٹانگ سیدھی کی۔ اندر کی روشنی بُجھی ہوئی تھی پر باہر سے آتی مدھم سی روشنی میں وہ اُسے دیکھ سکتا تھا۔ اُس کا دل چاہا تھا کہ وہ سہمی سہمی اُس لڑکی کو اپنے سینے سے لگا کر پُوچھے کہ وہ اتنی خوف زدہ کیوں ہے؟
”میں سگریٹ جلا سکتا ہوں؟“

اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔ اُ س کی آنکھوں میں ایسی بے بسی تھی جسے محسوس کرتے ہی اُسے تھوڑی سی کوفت کا احساس ہوا۔ سگریٹ جلا کر وہ نرمی سے بولا۔

”نجمی میں حیرا ن ہوں۔ آخر تم اِس قدر خوف زدہ کیوں ہو؟ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں تمہیں جبراً اغواکر کے لا یا ہوں۔ جب سے گاڑی میں بیٹھی ہو جیسے قسم کھائی ہے کہ بولنا نہیں، بات نہیں کرنی۔دیکھو مجھ سے گھبرانے، ڈرنے یا خوف زدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ تم مجھے اپنا ایک مخلص اور اچھا دوست پاؤ گی۔ تمہاری حفاظت میرا فرض ہے اِس لئے کہ میں بھی ایک عدد بیٹی کا باپ ہوں۔ میری ازدواجی زندگی پُر سکون ہے۔ جنسی لحاظ سے بھی میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔ہاں پلیز اِس طرح سکڑ سکڑ کر مت بیٹھو۔ مجھے یہ احساس نہ دلاؤ کہ میں نے تمہیں یہاں لاکر کوئی غلطی کی ہے۔ تم ایک اچھی لڑکی ہو، مجھے پسند آئی ہو۔ میری خواہش ہے کہ تم اپنا وقت میرے ساتھ اچھی اچھی باتیں کرنے، قہقہے لگانے اور خوش گپیوں میں گذارو۔ہاں میری دوست بنوگی؟ بولو کیا کہتی ہو؟“

تبھی آئس کریم آگئی۔ اُ س نے کپ پکڑے۔ ایک اُس کی طرف بڑھایا، دوسرا خود پکڑا اور بولا۔
”چلو اِن باتوں کو فی الحال چھوڑو۔ اِسے کھاؤ۔“
ہچکچاتے ہوئے اُ س نے کپ پکڑا۔ عجیب سے احساس اور ناقابل فہم دُکھ نے جکڑ ا ہوا تھا۔
لذید آئس کریم کھاتے ہوئے وہ اپنے آپ سے بولا تھا۔
من اوب  گیا تھا۔ سوسائٹی گرلز سے۔ اب پہلو میں بیٹھی یہ گھبرائی گھبرائی اور خوفزدہ سی لڑکی کس قدر اچھی لگ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ مصّور نے جیسے ایک ہراساں سی دوشیزہ کا شاہکار بنا کر سیٹ پر بٹھا دیا ہے۔زندگی لاکھ دُکھوں اور تلخیوں سے بھری ہوئی ہو پر اُس کے کچھ لمحات اتنے سُندر ہیں کہ انسان بے اختیار جینے کی تمنا کرتا ہے۔
اپنی آئس کریم کھا چُکنے کے بعداُس نے دیکھا وہ ایسے ہی کپ ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہے۔
”ارے ارے کھاؤ نا۔ کیا اچھی نہیں؟“
وہ بمشکل بولی۔ ”میں کھار ہی ہوں۔ تھوڑا آہستہ کھاتی ہوں۔“
”اچھا چلو مجھے یہ بتاؤ تمہیں ڈھاکہ اور اُس کے لوگ کیسے لگے؟“
اُس نے دوسرا سگریٹ جلایا۔ ماچس کی تیلی باہر پھینکی۔ گاڑی سٹارٹ کرنے کے لئے چابی گھُمائی اور گیئر بدلتے ہوئے کہا۔
”کُھل کر بتاؤ۔“
اور اُس نے سنجیدگی سے باہر تاریکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”جگہیں تو اچھی ہوتی ہیں پر بات تو مکینوں کی ہے۔ ڈھاکہ سبزے میں لپٹا ہوا طراوت اور تازگی کا احساس بخشتا ہو ا اچھا لگتا ہے۔ لوگ انفرادی سطح پر اچھے ہیں مخلص اور محبت کرنے والے ہیں۔ اجتماعی حیثیت میں متعّصب ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زہریلے پر وپیگنڈے کے ہاتھوں مجبور ہو گئے ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں صحت مند نہیں۔ وہ اتنی خطرناک ہیں کہ وطن کا یہ حصّہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اپنے طور پر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہاں آکر میں “وطن کیا ہوتا ہے؟ اُ سکی محبت کیسی ہوتی ہے؟ جیسے خوبصورت اور لطیف احساسات سے دوچار ہوئی ہوں۔ ویسٹ پاکستان میں رہتے ہوئے ایسے جذبات کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا تھا۔ یہاں وطنیت کی محبت والے سوتے اُبل پڑے ہیں۔
وہ گاڑی چلاتا رہا۔ اُسے سنتا رہا۔ گاڑی ڈھاکہ کی ویران سڑکوں پر گھومتی رہی۔۔ جب وہ خاموش ہوئی اُس نے کہا۔
”تم بُہت اچھا بولتی ہو۔ کالج میں مباحثوں میں حصّہ لیتی رہی ہو شاید۔“
کچھ دیر بعد اُس نے وقت پُوچھا اور آٹھ بج رہے ہیں جان کر وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی۔
”ساڑھے آٹھ بجے گیٹ بند ہو جاتا ہے۔ آپ مجھے اب ڈراپ کر دیجیے۔“
مہندی کی باڑ کے پاس رُک کر اُس نے خوف زدہ نظروں سے پہلے پرووسٹ کے گھر کو دیکھا۔ لائٹس جل رہی تھیں۔ پر کوئی تھا نہیں۔ آڈیٹوریم بھی تقریباً خالی ہی تھا۔ ساری لڑکیاں ڈائننگ ہال میں جمع تھیں۔ بس کوئی اِکّا دُکّا گھومتی پھرتی نظر آ رہی تھی۔
”کیا سوچتی ہوں گی میری رُوم میٹزکہ میں کہاں چلی گئی ہوں؟“

اپنے کمرے میں جانے کی بجائے وہ ٹیبل ٹینس کی میز پر نیم دراز ہوگئی۔ دودھیا روشنی وسیع وعریض آڈیٹوریم میں اُداسی کا گہرا تاثر پھیلا رہی تھی۔ دل بڑا بوجھل بوجھل سا تھا۔ کھانے کو بھی ذرا جی نہیں چاہ رہا تھا۔
”میں کل پھر آؤں گا۔“
جب وہ گاڑی سے اُتر رہی تھی اُس کا ایک پاؤں زمین پر اور دوسرا گاڑی میں تھا۔ ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر تھا اور ادھ کھُلے دروازے سے بس وہ باہر نکلنا چاہتی تھی جب اُس نے یہ بات سُن کر زخمی نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
اور پھر بغیر کوئی جواب دئیے وہ گیٹ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ آئی تھی۔ اور یہاں میز پر نیم دراز اُ س کے اندر اور باہر زور وشور کی جنگ ہوئی۔ اندر والے نے خوب خوب طعنے مارے۔ پڑھے ہوئے ناولوں، افسانوں اور قصّے کہانیوں نے مرد کی رنگینیئ طبع کو خوب خوب اُچھالا۔
”کیا واسطہ ہے اُس کاتمہارے ساتھ جو وہ اِس مہنگے سمے یوں تم پر پٹرول اور پیسہ ضائع کرتا ہے۔“
اُس نے اُس کی شرافت اور حُسنِ اخلاق پر دلائل دئیے۔ چٹاگانگ کا حوالہ دیتے ہوئے اُس کے اعلیٰ کردار اور ملنساری پر کچھ کہنا چاہا پر زناٹے کا ایک وار پڑا۔
”جال پھینک رہا ہے پھنس جاؤ گی تو ڈوری یوں کھینچے گا کہ گلا گھُٹ جائے گا اور آنکھیں اُبل پڑیں گی۔“
ایسی ایسی خوفناک تصویریں اُس کے سامنے آئیں کہ وہ تڑپ اُٹھی۔
”آگ سے جو بھی کھیلا اُس نے سدا ہاتھ ہی جلائے۔ وہ بُلبلیں جو بازوں کے ساتھ اُونچی اُڑان لینے کی کوشش کرتی ہیں ہمیشہ زمین پر گر کر مرتی ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ دریا میں چھلانگ ماری جائے اور جسم سُوکھا رہے۔
پتہ نہیں دل کے کن کونے کھدروں سے یہ آواز یں اُٹھ رہی تھیں۔ طعن وتشنیع کا ایسا کھُرپہ چلا جس نے سب کچھ لہولہان کر ڈالا۔ ایک تو وہ پہلے ہی پریشان تھی اِ س پر ستم یہ چرکے۔ وہ بلبلا اُٹھی یوں لگا جیسے سارا اندر بوٹیوں میں کٹ گیا ہو۔
”بھاڑ میں جائے سب کچھ۔ مجھے اپنا ذ ہنی سکون نہیں تباہ کرنا۔“
اُس کے حلق میں کانٹے چھُبنے لگے تھے۔ دل بیٹھا جا رہا تھا۔
”ہائے اللہ کہیں سے ٹھنڈا یخ پانی مل جائے۔ کیسی آگ لگ گئی ہے اندر۔“
پر ٹھنڈا پانی کہاں سے ملتا۔ اِس ہال میں فریج جیسی قیمتی اشیاء کی عیاشی ممکن نہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply