گھروندا ریت کا(قسط13)۔۔۔سلمیٰ اعوان

” تُف ہے اِس لُتری پر۔“
اتنی لگائی بُجھائی کی اُس نے رحمان بھائی سے کہ خود چیزیں پہچانے کی بجائے اُس نے اُنہیں اِس چھمک چھلّو کے ہاتھ بھیج دیں اور وعدہ کرنے کے باوجودخود نہیں آئے۔ ٹام بوائے سرپٹ بھاگتے گھوڑے کی طرح بولے جار ہی تھی۔
”مائی گاڈ! انتہائی جیلس اور لو منٹیلٹی کی عورت۔اگر معلوم ہوتا تو کبھی اُس کے ساتھ قدم نہ اُٹھاتے۔“
حمیدہ پاپیا کے لہجے کی تلخی نے اُس کے خوبصورت چہرے کو بھی اچھا خاصا برہم کر دیا تھا۔
ہاں ذرا اندر تو دیکھنا تھا۔ مہریوں کی طرح کیسے ہانک لگائی۔
”اپنا اپنا سامان لے لو۔ گنوار کہیں کی۔ ایڈیٹ۔“
نازلی بھی غصّے سے مشتعل ہو گئی۔
صبیحہ بُہت فضول انسان ثابت ہوئی تھی۔ سفر کے آخری دنوں میں اُس کا رویہ اتنا خرا ب ہوگیا تھاکہ اُن چاروں نے کڑھ کر بار بار سوچا کہ اِسے تو کہیں راستے کی کِسی فیری میں ڈبو دیں تو یہ اتنا ہی اچھا ہوگا جس کے لئے کہتے ہیں۔
”خس کم جہاں پاک۔“
وہ چاروں ابھی تھوڑی دیر پہلے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں چائے پینے اور مغلئی پر اٹھاکھانے آئی تھیں۔ جب صبیحہ کنٹین کے دروازے پر کسی کی بدرُوح کی مانند ظاہر ہوئی۔ طنزیہ نگاہوں سے اُنہیں دیکھتے ہوئے وہ عجیب سے کُھردرے انداز میں بولی۔
”اپنا اپنا سامان لے لو۔ گھنٹہ بھرسے تم لوگوں کی تلاش میں ٹانگیں توڑ رہی ہوں۔“
چائے میز پر آچکی تھی۔ثریا گرم گرم مغلئی پراٹھوں کی پلیٹ بھی لے آئی تھی۔ اُن کی سوندھی سوندھی خوشبو فضا میں اُڑ رہی تھی۔ اُن کا بھوک سے بھی بُرا حال تھا پر یہ پکار ایسی تھی کہ وہ سب کچھ ویسے ہی چھوڑ چھاڑ کر بھاگیں۔ بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ اُن کا خیال تھارحمان بھائی آئے ہیں۔
باہر سڑک پر سائیکل رکشاکھڑا تھا جو صبیحہ کے اشارہ کرنے پر اُن کے قریب آگیا۔صبیحہ نے آگے بڑھ کر اُن کا سامان اُتروایا اور وہیں کوریڈور میں ڈھیر کر وا دیا۔ سارا سامان اُتروانے کے بعد وہ اِسی سائیکل رکشے میں اُچک کر بیٹھی اور بغیر سلام دُعا یہ جا وہ جا۔
وہ چاروں ہونقوں کی طرح کھڑی کبھی سامان کو دیکھتی تھیں اور کبھی ایک دوسرے کو۔
اُس رات جب وہ ڈھاکہ واپس آر ہے تھے۔ اُن کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ وہ اُن کا خریدا ہوا سامان لے کر خود یونیورسٹی آئے گاکیونکہ ساری خریداری اُن چاروں نے اکٹھے مل کر کی تھی اور سیر سپاٹوں میں علیحدہ کرنے کا وقت نہیں ملا تھا۔ اِن سبھوں کو اُس نے باری باری اُن کے گھروں پر اُتارا۔ اچھے الفاظ میں خدا حافظ کہا۔ جب ثریا اور نازلی اُتریں وہیں اُسے بھی اُترنا تھا۔ ہال جانے کا تو وقت نہ تھا۔
تب رَ س ملائی کا وہ دونا جسے اُس نے کومیلا سے خریدا تھا۔ اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
”ثریا یہ آپ لوگوں کے لئے ہے۔“
نازلی اور ثریا دونوں باہرکھڑی تھیں اور وہ تھوڑا سا دروازہ کھولے باہر نکلنے کی کوشش میں تھی جب اُ س نے فرنٹ سیٹ سے رُخ پھیرااُس کی طرف دیکھا اور بُہت دھیمے سے سرگوشی کے انداز میں بولا۔
”نجمی میرا جی چاہتا ہے تمہیں تو اپنے گھر لے جاؤں۔“
اُ س کا دل دھڑ دھڑ کر اُٹھا۔ ثریا اور نازلی کی ماں گیٹ پر آگئی تھی اور اب دونوں لڑکیوں سے گلے مل رہی تھی۔
دو ناکِس نے پکڑا؟ ثریا کی ماں نے اُس کی پیشانی پر پیارکرنے کے بعد اُس سے کیا پوچھا؟ وہ گاڑی سے کیسے اُتری؟ اور گیٹ تک کیسے پہنچی؟ اُن کی ماں نے رحمان کا شکریہ کن الفاظ میں ادا کیا اور رحمان بھائی نے اُن سے کیا باتیں کیں؟
اُسے کسی بات کا کچھ ہوش نہ تھا۔ بس وہ ایسے چلی جیسے یہ خواب ہو۔
ساری رات گڑ بڑ ہوتی رہی۔ کوئی دھیر ے دھیرے اُسے کہتا رہا۔
”جی چاہتا ہے تمہیں تو اپنے گھر لے جاؤں۔“
دو تین دن بُہت عجیب سے گذرے۔ دُھوپ اور پیڑوں کے پتوں کا رنگ بدلا بدلا سا نظر آیا۔ شناساچیزیں بیگانی اور اجنبی سی لگیں۔
نازلی نے پوچھا۔ ”رحمان بھائی نہیں آئے۔“
”نہیں۔“
گہرے براؤن شیشوں والی سن گلاسز کے عقب سے اُ س نے لابنی پلکوں کے سایوں میں جھلملاتی آنکھوں سے اُس پر سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے مختصراً کہا تھا۔
اور اِس بات کو بھی تین دن گذرگئے۔
اُ س وقت وہ عجیب سی صورت سے دوچار تھیں۔ سامان اُٹھاکر کنٹین میں لائیں۔
ثریا نے کیچھی اپنی زبان میں شاید صبیحہ کو گالی دی تھی۔ نازلی کھِلکھلا کر ہنس پڑی۔صفیہ اور اُ س نے پُوچھا تھا۔ نازلی نے کہا۔
”ارے تپی بیٹھی ہے۔ غُصّہ نکال رہی ہے۔“
چائے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ مغلئی پراٹھے اَکڑے پڑے تھے۔کُرسیوں پر بیٹھتے ہی اُنہوں نے قیاس آرائیاں شروع کر دیں۔
”یوں لگتا ہے جیسے اِس نے وہ سب باتیں اُن سے کہہ دی ہوں۔“
ثریا نے کہا۔
”لگتا ہے کیوں کہتی ہوں؟شک وشبہ والی بات تو رہی نہیں۔ یقیناً کہو۔“
صفیہ نے چائے کا کپ اُٹھایا۔ واقعہ یہ تھا۔
کپتائی کے ریسٹ ہاؤس میں اُن چاروں نے گورا کے متعلق خوب خوب باتیں کی تھیں۔ اچھے خاصے اُس کے بخیئے اُدھیڑ ڈالے تھے۔ چٹاگانگ کلب میں جس شب اُس نے ڈنر دیا۔ اُ س کی سب باتیں اور حرکتیں زیربحث آئیں۔ رحمان پر بھی تنقید ہوئی البتہ رحمان کے حُسنِ سلوک اور شریفانہ برتاؤ کی وجہ سے اُسے رعایتی نمبروں سے بھی نوازدیا گیا۔ وہ تو سمجھی تھیں کہ آخری بیڈ پر لیٹی ہوئی صبیحہ گہری نیند سو رہی ہے۔ کیونکہ اُس کے خراٹے خاصے جاندار تھے۔ پر کچھ ہی دیر بعد جب اُس نے کروٹ بدل کر وقت پوچھا تو وہ سب دَھک سے رہ گئیں نازلی نے ثریا اور صفیہ کو ڈانٹا۔ پر ثریا نے بے اعتنائی سے کہا۔
”مائی فُٹ۔“
چائے پی چکنے کے بعد اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ رحمان بھائی کو فون کریں اور صورتِ حال کی وضاحت کریں۔
سامان اُنہوں نے کنٹین والے کے سپرد کیا اور خود قریبی جناح ہال گئیں جہا ں آٹو میٹک فون پر ثریا نے رحما ن بھائی سے بات کی۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں ثریا اپنی پوزیشن واضح کرتی رہی۔ یہ نہیں کہا۔ وہ نہیں کیا وغیرہ قسم کے وضاحتی جُملے بار بار دُہرائے گئے۔ معلوم نہیں اُنہوں نے کیا پُوچھا؟ ثریا نے ہنس کر اُسے دیکھا اور کہا۔
”ہاں میرے پاس ہی کھڑی ہے۔“
ریسیور اُ س کے کانوں سے لگا دیا۔ وہ سٹپٹا سی گئی۔ ہاتھ پاؤں پھُولنے لگے۔ گھُور کر اُس نے ثریا کو دیکھا جیسے کہتی ہو۔
”یہ کیا بیہودگی ہے؟“
یوں یہ اور بات تھی کہ اُ س کا دل اُس سے بات کرنے کو چاہتا تھا۔ ثریا نے ذرا غصّے سے کہا۔
”ارے بات کرونا۔“
اُس نے کبھی کسی کوفون کیا ہوتا تو جانتی کہ اِسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟ سخت نروِس ہو رہی تھی۔ جی بھی چاہ رہا تھا کہ سُنے وہ کیا کہہ رہا ہے پر یہ خیال بھی کِسی آسیب کی طرح اُس پر سوار ہوگیا تھا کہ کہیں اُس کا اناڑی پن نہ ظاہر ہوجائے۔
اُس نے ریسیور فوراً ثریا کے ہاتھ میں پکڑ ا دیا۔
”مجھے نہیں کرنی بات وات۔“
”اُف اللہ یہ صبیحہ ہے کیا چیز؟ اتنی ولگر عورت۔“
پھر اُس نے ساتھ ساتھ چلتے ہوئی اپنے اور رحمان کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو اُنہیں سنائی۔
”معلوم ہوتا ہے اِسے بُہت پسند کرتے ہیں۔“
ثریا اُ س کی طرف دیکھ کر ہنسی۔
”کہتے تھے بھئی سارا پروگرام تو اُس ویسٹ پاکستانی لڑکی کے لئے بنایا گیا تھا۔ مہمان جو ہوئی ہماری۔“
”بند کرو یہ بکواس۔“ اُ س نے کتابیں سینے سے چمٹاتے ہوئے کہا۔
”بکواس بند نہیں۔“ صفیہ نے قہقہ لگایا۔ بھئی تمہارے طفیل ہم نے مُفت میں سیر سپاٹا کیا۔
چٹاگانگ میں جب اُن لوگوں نے پیسے دینے چاہے تو اُس نے انکار کر دیا تھا۔
”صفیہ تم مجھ سے پٹو گی۔“
اُس کا چہرہ سُرخ تھااور یوں لگتا تھا جیسے وہ ابھی رو دے گی۔نازلی نے پیار سے اُس کے رُخسار پر بوسہ دیا اور کہا۔
”یار تم خوامخواہ ناراض ہو رہی ہو۔ ہم لوگ تو مذاق کے موڈمیں ہیں۔“
پھر بُہت سارے دن گذر گئے۔ یہ بڑے عجیب اور ویران سے دن تھے۔ یو ں جیسے اُداسیوں میں گھِرے ہوئے ہوں۔
اُس شام جب دُھوپ پتہ بہار کے بوٹوں اور سبز گھاس کے قطعوں پر پھیلی اُداسی کا گھمبیرتاثر ہرسُو بکھیر رہی تھی۔ وہ بیلا ملکہ اور آصفہ کے ساتھ میرپور جانے کے لئے نیچے آئی تھی۔ فاخرہ کی بہن کی شادی تھی۔ بیلا، ملکہ اور آصفہ تینوں اُس کی روم میٹ تھیں۔ فاخرہ اُن کی دوست تھی۔ اُس کا آدھا دن اِس کمرے میں گذرتا تھا۔ شادی میں شرکت کا دعوت نامہ اُسے خصوصی طور پر دیا گیا تھا۔ اُس نے پہلی مرتبہ میک اَپ کیا تھا۔ گویہ ہلکا ہلکا تھا۔ پہلی مرتبہ ساڑھی پہنی تھی۔ خوبصورت لڑکی کو اِس ذرا سے بناؤ سنگھار اور لباس نے قاتل بنا دیا تھا۔ ساڑھی اُس نے بیلا اور ملکہ کے پُر زور اصرار پر پہنی تھی۔ بلکہ ساڑھی بھی بیلا کی تھی۔ اُس نے بُہت کہا۔
”بیلا مجھے عاد ت نہیں۔ کہیں کھُل کھُلا گئی تو اور لینے کے دینے پڑجائینگے۔
بیلا نے اُس کے سر پر چپت لگائی اور تنک کر بولی۔
”کیوں کھُل کھُلا جائے گی تو کیا خوقی (بچی) ہے؟۔ ہاں دیکھو تو ذراکیسی سُندرلگ رہی ہو۔ اگر میں کہیں لڑکا ہوتی تو تجھے اُڑا کر لے جاتی۔“
آصفہ نے بھی بُہت سراہا۔
”نجمی تم بُہت حسین لڑکی ہو۔ شاید تمہیں اپنے حُسن کا احسا س نہیں۔ معمولی سے میک اَپ، اِس لباس اور بالوں کے اِس سٹائل نے تمہیں کتنا جاذب نظر بنا دیا ہے کہ آنکھ کا تم پر سے اُٹھنا مشکل ہو رہا ہے۔“
اُس کے شانوں پر جھُولنے والے بالوں کا آصفہ نے بڑا خوبصورت جوڑا بنا دیا تھا۔
میر پور جانے کے لئے جب وہ نیچے آئیں۔ آڈیٹوریم میں سے گذرتے ہوئے اُسے دربا ن ملا جس نے کہا۔
”آپا آپ سے ملنے کوئی صاحب آئے ہیں۔“
”مجھ سے۔“ اُس نے قدرے حیرت سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔
”ہاں ہاں آپ سے۔“
دربان نے اُ س کے سامنے اُس کا نام دُہرا کر اُس کی تسلّی کر دی تھی۔ وہ رُک گئی۔ اُ س وقت لڑکیاں آڈیٹوریم کے چکنے فرش پر اسکیٹنگ کر رہی تھیں۔بظاہر اُنہیں دیکھتے ہوئے دل کی دھڑکنوں کو قابو کرنے کے جتن میں مصروف ہوئی۔
”پلیز ذرا ٹھہر ومیں دیکھ کر آتی ہوں کون آئے ہیں؟“
کہتے ہوئے وہ گیٹ کی طرف بڑھی۔
اُس وقت و ہ عجیب سی کیفیت سے گذر رہی تھی۔ دل جیسے ڈوبا ہوا محسوس ہونے لگا۔ ٹانگیں بے جان جیسے گوشت کا ایک ایسا لوتھڑاجسے بمشکل گھٹیا جا رہا ہو۔
”کون ہو سکتاہے؟“
گیٹ تک پہنچتے پہنچتے اُ س نے کوئی دس بار یہ سوال اپنے آپ سے کیا تھا۔ حالانکہ یہ سوال فضول تھا۔
اُس کا دل جو جواب دے رہا تھا وہ اپنے اندر ٹھوس یقین لئے ہوئے تھا۔
گیٹ سے نکلی تو ساری جان سے کانپی تھی۔ آنکھوں میں خوف سا اُبھرا تھا یہ اور بات ہے کہ خوف کے ساتھ ساتھ وہا ں چمک بھی پیدا ہوئی تھی۔
نیلی مزدہ میں وہ بیٹھا گیٹ ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
و ہ آگے بڑھی۔ جھُکی۔ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے اُ س نے سلا م کیا۔ اُس نے دیکھا تھا وہ ایک ٹک اُسے دیکھ رہا تھا۔ نگاہوں میں حیرت، شوق اور استعجاب کا ایک جہان لئے۔ گھبراہٹ اور سوار ہوگئی۔
تھوڑی دیر بعد خیریت دریافت کی گئی۔ اُ س نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور جیسے کنوئیں کے پاتال سے کہا ہو۔
”ٹھیک ہوں۔“
وہ ہنسا اور اُ س کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
”کہاں ٹھیک ہو؟ گاڑی میں بیٹھو اور شیشے میں اپنا آپ دیکھو۔ پھر مجھے بتاؤ کہ ٹھیک ہو یا نہیں۔ تمہارے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔“
وہ پھر ہنسا۔ یہ ہنسی بڑی مدھم اور شفقت سے لبریز تھی کیونکہ اُس نے جس انداز میں رحمان کو دیکھا تھا اُس میں عجیب سی بے بسی کا اظہار تھا۔
”کہیں جا رہی ہو؟“
”جی۔ میرپور ایک دوست کی بہن کی شادی ہے۔“
”تو آؤ! تمہیں ڈراپ کر آؤں۔“
”میرے ساتھ میری چند دوست بھی ہیں۔“
”تو کیا ہوا۔ جاؤ اُنہیں بُلا لاؤ۔“
وہ مُڑی اور تیز چال چلتی چھوٹے دروازے سے اندر داخل ہوگئی۔
اُ س کا ذہن ابھی کچا تھا۔نہ اُس نے دُنیا دیکھی تھی اور نہ اُس کے چھلوں سے واقف تھی۔ اُنیس سالہ لڑکی اُس سے بُہت متاثر ہو چکی تھی۔ اُ س کے اُونچے عہدے، لمبی گاڑی، امیر خاندان سے تعلق، وجاہت اور شائستہ اطوارسبھوں نے اُسے اپیل کیا تھا۔
بیلا نے اُسے دیکھتے ہی پُوچھا۔
”کون ہے؟ ملاقاتی گاڑی واڑی والا ہے یا یونہی سائیکل سوار۔ لفٹ ملنے کا امکان ہے یا نہیں؟“
”تم بھی کیا یاد کروگی بیلا۔ چلو خوش ہو جاؤ۔ گاڑی سے میرپور چلیں گے۔“
ایک دوسری کے آگے پیچھے چلتی وہ گیٹ سے باہر آئیں۔
گاڑی میں پچھلی نشست پر جب وہ اُن کے ساتھ ہی پھنس پھنسا کر بیٹھنے لگی تو اُس نے ڈپٹ کر کہا۔
”سٹوپڈ۔ آگے آؤ۔ آرام سے بیٹھنے دو اُنہیں۔“
لہجے کے اِس تحکمانہ انداز میں ایک اپنایت بھی تھی جو اُس سے چھُپی نہ رہی تھی۔ پیچھے سے اگلی سیٹ تک جانے کے وقفے میں اُ س کا چہرہ سُر خ ہوگیا۔ اُس کی باریک بین نگاہوں نے اُس کی دلی کیفیات کو سمجھا۔ اُ س کے لباس سے اُٹھتی چارلی کی خوشبو کو سونگھا۔ سگریٹ جلایا۔ لمبا کش لے کر دُھواں باہر پھینکا اور گاڑی سٹار ٹ کرتے ہوئے سرگوشی میں بولا۔
”تم اتنی نروِس کیوں ہو رہی ہو؟“
فاخرہ کے گھر وہ صرف ایک بار ہی آئی تھی۔ میرپور کے انجانے راستے ایک بار میں کہاں پہچانے جاتے۔ بیلا دو تین بار آچکی تھی۔ وہ بھی بھولی بیٹھی تھی۔ گاڑی سڑکوں کے موڑ کاٹتی پھر رہی تھی۔ ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات تھی۔
ملکہ نے کچھ سُنی سُنائی نشان دہی کی۔ کچھ اُس نے دماغ لڑایا اور یوں شادی والے گھر پہنچ گئیں۔
اور قناتوں والے گھر کے سامنے کھڑے اُن سب لڑکیوں نے اُس کاشکریہ ادا کیا۔ وہ تینوں آگے بڑھ گئیں۔ اُ س نے قدم اُٹھانے سے پہلے رُخ پھیر کر دیکھا۔ جب وہ بولا۔
”میں پیر کی شام کو آؤں گا۔ کہیں جانا مت۔“
کوئی جواب دینے کی بجائے اُس نے خاموشی سے سرجھُکا لیا اور آہستہ آہستہ شادی والے گھر کی طرف بڑھنے لگی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply