• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میری بشری کمزوریاں حج میں بھی ساتھ رہیں۔۔سلمیٰ اعوان

میری بشری کمزوریاں حج میں بھی ساتھ رہیں۔۔سلمیٰ اعوان

سچی بات تو یہی ہے کہ اب اگر مجھے اس شدنی کا علم ہوتا کہ جونہی میں باب اجیاد کے صحن میں قدم رنجہ فرماؤں گی۔ میاں کے دل و دماغ میں جانے کب کا پکتا ہوا گلے شکووں کا لاوہ ایک دھماکے سے پھٹ کر مجھے پھیتی پھیتی اور لیر لیر کر دے گا۔تو میں ہی بندے کا پتر بن جاتی۔جھاڑو پھیرتی سب پر۔ گز بھر لمبی زبان کو نتھ ڈال لیتی۔
پٹڑی پر دوڑتے بھاگتے انجن کی طرح میاں کی زبان اردگرد کا لحاظ رکھے بغیرگولہ بارود برسا رہی تھی۔
”ہوا نہ لگنے دینا گُتھلی کو۔ کلیجے سے لگائے رکھنا ڈالروں ریالوں کو۔ کہو گی تو قبر میں بھی رکھوا دوں گا تمہارے ساتھ۔“
پہلے تو میں ہونق کھڑی بٹر بٹر اس کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچے چلی جا رہی تھی کہ آخر اسے ایکا ایکی ہوا کیا ہے؟گو یہ کچھ ایسی انوکھی بات بھی نہ تھی کہ ایسے دورے وقتاً وقتاً پڑنے معمول کی بات تھی۔
پر قبر کا تو سُنتے ہی مجھے جیسے پتنگے سے لگ گئے۔ حج کا بنیادی سبق صبر، برداشت اور تحمل جیسے الفاظ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح جو شکاری کے پہلے فائر سے ہی اڑ پڑ جاتے ہیں۔میرے دماغ سے بھی اسی طرح اُڑنچھو ہوگئے تھے۔کہاں کھڑی ہوں؟ اس مقام کا تقدس اور حرمت کِس قدر ہے؟یہ سب احساسات رفو چکر ہوئے۔کون سی میں بڑی روایتی،شوہر سے دنبے یا پتی ورتا قسم کی بیوی تھی۔سو پھٹ پڑی۔
”تم نے تو گویا درازی عمر کا پٹہ لکھوایا ہوا ہے نا۔ تمہیں تو مرنا ہی نہیں۔“

میرے پیارے قارئین اِس سارے قضیے کی گرہیں کھولنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو ذرا پیچھے لے چلوں۔
یہ آٹھ ذی الحج کی صبح ہے اور منیٰ کے لیے روانگی۔ آج سویرے کے نہانے دھونے میں خاصا اہتمام تھا۔ سنبھالا ہوا سفید جوڑا زیب تن کرنے عبا یااور حجاب پہننے کے بعد خود کو آئینے میں دیکھا تو عجیب بندریا کا سا چہرہ نظر آیا۔چند لمحوں تک ٹکٹکی باندھے عکس دیکھتی اور کچھ سوچتی رہی پھر جیسے سمجھ آنے لگی تھی۔
بھئی ایسا نظر آنا تو فطری تھا کہ گزشتہ ہفتہ بھر سے حرم کے آنگن میں مشرقی یورپ کے جارجیا، بلغاریہ ہنگری کوسوو بوسنیا اور وسط ایشیا ازبکستان، تاجکستان، کرغزستان، ترکمانستان اور ایران جیسے ملکوں کی پریوں کے حُسن جہاں سوز کو یہ گنہگار آنکھیں دیکھتی آ رہی تھیں۔ بس یہی لگتا تھا جیسے حوروں کے غول آسمان کی چھت پھاڑ کر حرم کے آنگن میں اُتر آئے ہیں۔ ایک اُن کے نور سے دمکتے چہرے اس پر ستم کہیں سفید اور کہیں سیاہ پہناوے۔نگاہیں جو اُن کی جانب اُٹھتی تھیں تو پلکیں اپنا راستہ کھوٹا کرلیتی تھیں۔

تاہم یہ امر بھی باعث طمانیت تھا کہ شکر گزاری کی لہر یں مچلتی، شور مچاتی دل سے آ ٹکراتیں اور متوجہ کرتیں کہ دیکھو دیکھو افریقہ کے بہت سے ملکوں کی بدصورتیاں اپنے کرّوفر کے ساتھ بھی موجود ہیں۔ ایسی ویسی بدصورتیاں، چیختی چنگھاڑتی، شور مچاتی آپ کو خوا مخواہ اپنی جانب متوجہ کرتیں،دیکھنے پر اُکساتیں،آپ کے کانوں میں ایک رسیلا گیت گنگناتیں کہ اللہ کا شکر ادا کرو جو تمہیں وہاں ان کے ہاں پیدا کردیتا تو بولو کیا کرتیں تم؟

اب ظاہر ہے گورے چٹے اور کالے شارنگوں کے بین بین جس مقام پر کھڑی تھی وہاں اندر سے نہ سہی اوپرے دل سے کچھ ماڑی موٹی شکرگزاری ہوتی۔شروع کے دنوں میں تو بڑی باقاعدگی سے ہوئی بعد میں مدھم پڑتی گئی۔
حقیقتاً یہ دُنیا کی یقینا ً واحد جگہ ہے جہاں خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کے امتزاج انوکھے اور نرالے انداز میں کہیں پاس پاس،اور کہیں کہیں جپھیاں ڈالے ملتے ہیں۔
قبول صورتی کی سند اپنے آپ کو دینے کے باوجود جیبی آئینے کو اٹیچی کیس میں اس نیت کے ساتھ پھینکنے سے میں باز نہیں رہ سکی کہ آئندہ سعودی عرب کی سرزمین پر مجھے اس میں اپنی صورت ہر گز نہیں دیکھنی۔
منیٰ تو گویا جنگل میں منگل کا منظر پیش کرتا تھا۔ خیمے یوں دکھتے تھے جیسے لاکھوں لقی کبوتریاں قطار در قطاربیٹھی ہوں۔ سفید احرام میں لپٹے لوگ باگ مست خرام اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے کہیں بیٹھے کہیں چلتے کہیں باتیں کرتے اپنی اپنی دُھن میں مگن تھے۔
آنکھوں کو نیچی رکھنے کا حکم اوپر والے نے ضرور دیا ہے مگرمردوں کو۔اوڑھنیوں کے گھونگھٹ کاڑھنے کا عورتوں کو کہا ہے۔اپنے گھر میں اُس نے دونوں کو اِس پابندی سے مستثنیٰ کردیا ہے۔
سفر تو گوبڑا تقدس والا تھا مگر آنکھوں پر پہرے تو نہیں بٹھائے جاتے نا۔اب اگر حجاب اور عبایا میں لپٹے نسوانی چہرے اور سراپے قلب و نظر پر بجلیاں سی گراتے تھے تو وہیں احرام سے جھانکتی مردانہ وجاہتیں اور کوجے پن بھی متاثر کرتے تھے۔
مکتب نمبر 12 کے 16 نمبر خیمے کا فرش سُرخ قالینوں اور اس پر بچھے دو ڈھائی گز لمبے اور ایک گز چوڑے روئی کے گدوں سے مزین تھا اور ہر گدے کے سرہانے ایک تکیہ اور پائنتی پر چادر پڑی تھی۔ اندر داخل ہوئی تو خواتین کے ریوڑ میں سے کسی نے کہا۔
”یہ ایک قبر کا تصور اور اس کی عملی تربیت کی ٹریننگ ہے۔“
میں نے کسی قدر حیرت سے یہ سُنا اور خودسے کہا۔
”میں نے تو یہ کہیں نہیں پڑھا۔“
سارا سریر جذباتی پھوار میں بھیگا ہوا تھا۔ مُو مُو اس کی محبت کے گیت گا رہا تھا۔ اسی لیے ڈوپٹے کا گھونگھٹ سا نکالا اور ذکر میں مصروف ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد ہی ”خدایا“کہتے ہوئے سرزمین پر رکھ دیا اور گھگھیاتے اُس کرب کو لفظوں کی صورت باہر نکالنے لگی جو میری نس نس میں رچا ہوا تھا۔
”مجھے بتا میں کیا کروں۔تجھے پیکر میں ڈھال کر تیرے لمبے چوڑے پاؤں میں بیٹھنا،تیرے زانوؤں پر سر رکھنا اور تجھ سے لپٹ کر بھل بھل رونا میرے کھتارسس کیلئے کتنا ضروری ہے؟بس یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تیری ہستی کو کسی وجودی پیکر میں ڈھالنا اور اُسے کسی تصویری پیرھن میں دیکھنا کیا میرے عقیدے کی خلاف ورزی تو نہیں۔
بتا نا کیا کروں؟کیسے تیری شبیہ بناؤں۔نور کی آبشاروں میں تجھے کیسے رواں کروں۔قوس و قزح کے رنگوں میں تجھے کیسے رنگوں؟“
باتھ روم گئی۔ پاکستان کی ناخواندہ بوڑھی عورتوں نے گند ڈال رکھا تھا۔ اس سمے میرا جی شدت سے چاہا کہ کہ کاش میرے پاس سامان ہوتا۔ کاش میں مکّہ سے وم کے ڈبے،برش،وائپرز اور جھاڑو لے آتی۔شلوار کے پائینچے اُٹھا سارے باتھ روموں کی دھلائی کرتی۔انہیں لشکاتی اور چمکاتی۔ شاید اسی طرح کچھ میری بخشش کا سامان ہو جاتا۔

عرفات کا میدان کم اونچی نیچی بے برگ و گیا پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ سفر کے دوران دھیان تو احمد مجتبیٰ میں ہی پھنسا رہا۔
خیمے میں داخل ہو کر سامان ابھی رکھا ہی تھا کہ اندر باہر کے لیے مچلنے لگا۔ چٹائی اور جائے نماز کے ساتھ قدرے اوپر ایک چھدری چھاؤں والے درخت کے نیچے پڑاؤ ڈالا۔ پر آج میرا دیدہ ہوائی ہو رہا تھا۔ نہ یکسوئی کی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔ نہ کچھ پڑھنے کو جی چاہ رہا تھا۔ آنکھیں دائیں بائیں گھومتی پھرتی تھیں۔ کبھی اچک کر نیلی چھت کو تکنے لگتیں۔ کبھی دھوپ کی تیزی اس دسمبر کے مہینے میں ایسی گرمیوں میں تو حشر کا سا سماں ہوتا ہو گا کے موازنے میں اُلجھ جاتیں۔
”ہائے میں کیسی فضول سوچوں میں اُلجھی ہوئی اتنے قیمتی وقت کو ضائع کررہی ہوں۔“
اندر کی اِس لتاڑ نے تھوڑا سا کام کیا۔
میں نے سر جھکایا اور اُن مخصوص دعاؤں کو پڑھنے کی کوشش کی جو کچھ یاد تھیں۔ کوڑھ مغز تو نہیں تھی پر مجھے کچھ یاد ہی نہیں آ رہا تھا۔
”چلو چھوڑو۔دعائیں نہیں پڑھتی۔اُس سے باتیں کرتی ہوں۔“
ابھی باتیں کرتے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آواز آئی۔
”اری او بی حجن۔“
حیرت سے سر اُٹھایا۔ دور دائیں ہاتھ ایک ادھیڑ عمر عورت چٹائی پر سامان بکھیرے بیٹھی تھی۔ مخاطب میں ہی تھی۔ حجن لفظ تو یقیناً اجنبیت والا نہیں تھا پر اپنی ذات کے لیے یہ مجھے حد درجہ مضحکہ خیز محسوس ہوا۔
”کیا بات ہے؟“ میں نے ماتھے پر ہاتھ کا چھجہ سا بنا کر اس کی طرف دیکھا۔
”یہ ابھی جو عورت گزری ہے مجھے پانچ ریال دے رہی تھی۔“
”تو لے لینے تھے۔“ مجھے ہنسی آ گئی تھی۔
”ارے باؤلی ہو تم۔خیرات کر رہی تھی مجھے۔د ھتکار دی میں نے۔ پر بھول ہو گئی۔ دس ریال اس کے منہ پر مارتی تو اُسے پتہ چلتا۔“
عورت بڑی دلچسپ لگتی تھی۔ اللہ میاں سے باتیں بند کر کے اس کے بندے سے باتیں کرنے چل دی۔
تم نے عورت کو میری طرف بھیج دینا تھا۔ میں نے اُس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔
”کیوں غریب ہو؟“
گہری سانولی رنگت پر سجی ہلکے براؤن رنگ کے شیشوں والی عینک سے مجھے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا گیا۔
”سچی بات بتاؤں۔ غریب تو نہیں ہوں پر کیا کروں یہ دل بڑا غریب ہے۔“ ہنسی رُکنے میں نہ آ رہی تھی۔ خاتون بنگلور کی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ حالات کیسے ہیں وہاں کے؟ کسی قدر رعب دبدبے سے بولی تھی۔
”ارے بڑے اچھے ہیں۔بڑے سکھ،سکون،شانتی اور پیار سے رہتے ہیں ہم ہندومسلمان۔چھوٹی موٹی لڑائیاں ہندومسلمان۔چھوٹی موٹی لڑائیاں اور جھگڑے تو چلتے ہی رہتے ہیں۔یہ تو گھروں میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔“
”لو ارے میں نے تمہیں مبارکباد تو دی ہی نہیں۔ حج ہو گیا تمہارا۔“
وہ کیسے؟ میں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔
آنے سے قبل کوئی لٹریچر پڑھتی تو کچھ پلے ہوتا۔میں تو آخری وقت تک چابیوں کے گچھوں اور بینکوں کے چکروں میں پڑی ہوئی تھی۔
”ظہر کے بعد قبولیت ہو جاتی ہے۔“
”چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ ابھی نمازوں کا تصفیہ باقی تھا۔ مسجد نمرہ کو دیکھنے کی تاکا جھانکی کی پر چار پانچ کوس کا فاصلہ درمیان میں تھا۔ پہاڑی پر چڑھی تو نئے منظر سے آشنا ہوئی۔ تاحد نظر ڈھلانوں پر بکھری سفیدیاں کچھ ایسی ہی نظر آئیں جیسے کُرتوں کے دامنوں پر سفید موتی تارے ٹانکے ہوئے ہوں۔ خدا کی مخلوق اس کے حضور کھڑی بیٹھی اس کی ثنا میں ڈوبی ہوئی تھی۔
میں گھائل ہونا چاہتی تھی۔ پر پتہ نہیں کیوں ہو نہیں پا رہی تھی۔ پھر جیسے سماعت سے ایک میٹھی سی فریاد ٹکرائی۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ایک بوڑھی عورت بڑے محبوبانہ انداز میں کسی سے باتیں کرتی تھی۔
”وے میرے سونیا، میرے مٹھڑیا،توں اُتے بیٹھا کنیاں بولیاں پیا سُن دا ایں۔ میری وی بولی سُن۔“
ترجمہ: اے میرے پیارے خوبصورت خدا تم اوپر بیٹھے کتنی بولیاں سُن رہے ہو۔میری بھی بولی سن لو۔
کیسے لفظ تھے جو بھڑکے اور انہوں نے ککھوں کے ڈھیر کو آگ لگا دی۔بھانپڑ مچ
اُٹھا۔اس کے سادہ لوح بندوں کی دل نوازیاں اور اُس کی ان اداؤں کو سراہنے اور پسند کرنے کے انداز بھی کیا نرالے ہیں۔
دیر بعد نیچے اُتر کر اپنی پُرانی جگہ پر آئی کہ نماز کی ادائیگی کرنی تھی۔پاس ہی کسی نے خیمے تان کر قنات لگالی تھی۔عورتوں،بچوں اور برتن بھانڈوں کی آوازیں تھیں۔جب نماز سے فارغ ہوئی۔ایک لڑکا لبن(گاڑھی لسی)کی سیل بند بوتل لایا۔بسم اللہ کہہ کر میں نے اُسے تھاما۔میں پیاسی بھی تھی اور دل کی غریب بھی۔
سورج بہت تیزی سے نیچے چلا گیا تھا اور لوگوں نے بلند یوں سے اُترنا شروع کر دیا تھا۔ خیمے کے دروازے پر کھڑے ہمارے دوست مسعود بلوچ اپنی اہلیہ دردانہ بلوچ سے اُس کا سامان پکڑ کر اُسے ہلکا کرتے ہوئے پوچھتے تھے کہ بھابھی کہاں ہیں؟
اور بھابھی اپنا سامان سمیٹ کر اُسے اُٹھاتے ہوئے رشک بھری نظروں سے دردانہ کو دیکھتے ہوئے اپنے میاں کے بارے میں سوچتے ہوئے کہ اُس نے صبح سے اب تک صورت نہیں دکھائی تھی۔ کسی ضرورت کے بارے میں پوچھا تک نہیں تھا۔ مُناچھُنا کاکا بنا ہوا ہے۔ راستے پر چل پڑی تھی۔

مجھے اپنی کوتاہیوں اپنی کمزوریوں اپنی خامیوں کا اعتراف کہ وہ عرفات کے میدان میں بھی اسی طرح میرے اندر براجمان تھیں کہ جونہی میں نے میاں کو اپنا اور دوست کا بیگ اُٹھائے دیکھا۔ حسد کے ناگ کی پھنکاروں نے مجھے جلانا شروع کر دیا تھا۔ وہ آنسو جو میری کوشش بسیار کے باوجود میری آنکھوں سے نہیں ٹپکے تھے بڑی آسانی سے گالوں پر بہنے لگے۔ دُھندلائی آنکھوں سے ڈوبتے سورج کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے روندھے گلے سے کہا۔
”تجھے میرے گھر آنا اور یہاں رہنا پسند ہی نہیں۔ تو اسے کاٹھ کباڑ سے بھرے رکھنا چاہتا ہے تاکہ جواز رہے۔“
اس وقت میرا وجود سسکیوں سے ہچکولے کھا رہا تھا۔ اور میں عرفات کے میدان میں اُس ڈوبتی شام کو اپنی کمر کے ساتھ ٹکی دیوار سے سر کو ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش کردینا چاہتی تھی کہ اوپر والا جان لے کہ اُسے میرے گھر میں آنا ہے۔
سُنے اور پڑھے ہوئے میں اگر مشاہدے اور ذات کے تجربے کی شمولیت نہ ہو تو
بات ہی نہیں بنتی۔ مزدلفہ میں یہی ہوا۔ کھُلے آسمان تلے تاروں کی چھاؤں اور ٹھنڈی تیز ہواؤں کے جھُلار میں ”ارے بھئی مزدلفہ کے لیے ہلکی ہو کر جانا۔ بس ایک جرسی شال اور چٹائی کافی ہے۔“
جی چاہتا تھا اپنی کزن کو جا کر جوتیاں لگاؤں۔ کمبخت مروا دیا نا۔ منیٰ سے چھوٹا سا روئی والا گدیلہ اُٹھا کر لایا جا سکتا تھا۔ رڑے میدان میں چٹائیوں پر مغرب اور عشاء کی نمازیں ملا کر پڑھنے کے بعد وجود کو سکیڑ کر بیٹھ گئے۔ نہ کھانے کا کچھ پتہ نہ چائے کے ایک گھونٹ کی دستیابی کا علم نہ باتھ روموں کے بارے میں کوئی معلومات۔
ہمارے سامنے والی جگہ پر اونچے لمبے مردوں کا ایک خاندان آ کر فروکش ہوا۔ پجارو گاڑی سے میٹرس، کمبل اور تکیے اُترے۔ سٹوو جلے۔ کمبلوں کی بُکلوں میں گرما گرم کھانوں کا سلسلہ شروع ہواتوخوشبوئیں گویا چہار سو پھیل گئیں۔ اپنی بے سروسامانی پر بڑا رحم آیا۔ میاں لوگ ساتھ تھے وگرنہ میں نے تو کاسہ گدائی میں کچھ ڈلوا ہی لانا تھا۔
یہ رات عبادت اور دعائیں مانگنے کی ہے۔عفت سے تازہ تازہ سُنی ہوئی بات یاد آئی۔ میں نے اوپر دیکھا تاروں سے بھی پرے۔ نفی میں سر ہلایا۔
”میری جان تم دیکھ رہے ہونا۔میں تو کچھ نہیں کرسکتی۔ پیٹ میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ چائے کی طلب میں سر پھٹا جا رہا ہے۔ اور ٹھنڈنے گٹے گوڈے منجمند کر دئیے ہیں۔“
میاں کہیں سے بٹتے چاول لے کر آئے تھے۔ ایسے بد مزہ سے چند لقمے ہی زہر مار کیے۔ پھر حاجت نے دباؤ ڈالا۔
”ہائے اِس مصیبت کو بھی آنے کی ابھی سوجھی۔“

گٹھڑی نے قہر درویش بر جان درویش کے مصداق حرکت کی۔ کہیں چڑھائیوں کے بعد باتھ روم تھے۔ چلو دو کام ہوئے نیچے سڑک پر مُفت میں تقسیم ہوتا قہوہ مل گیا۔ بکرے کی سالم سریوں میں پکے ہوئے چاول بھی مل رہے تھے۔ پر ان کی تو صورت ہی دہلانے والی تھی۔ کھانے کا حوصلہ کہاں سے لاتے۔ جب واپسی ہوئی میاں اور بلوچ صاحب کنکریاں چُن رہے تھے۔
”یہ اتنے بڑے بڑے پتھر بے چارہ شیطان تو لہو لہان ہو جائے گا۔ چنے کے برابر کنکر ہونے چاہئیں۔“
کہتے ہوئے میں نے میاں کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔
پھر میں خود اس میں جُتی۔ مطلوبہ سائز اور مطلوبہ تعداد کو تھیلی میں ڈال کر خود سے کہتے ہوئے سکھ کا سانس لیا۔
”چلو یہ بھی ایک کام تھا جو ختم ہوا۔“
شب کے دوسرے پہر ہم دونوں خواتین بس میں چلی گئیں۔ اندر نرم گرم سی حدت نے بڑی تسکین دی۔ عقبی نشستوں سے خراٹوں کی آوازیں چند لوگوں کی موجودگی کا بتاتی تھیں۔ ابھی اس لذت سے لُطف اندوز ہوتے چند لمحے ہی گزرے ہو ں گے کہ ایک تیز سی سر گوشی نے جیسے دہلا کر رکھ دیا۔
”تم جیسی کے گھر میں کیا آنا کہ راہ چاہت کی ذرا سی سختی،ذرا سی تکلیف اور ذر اسی سردی برداشت نہیں۔“
میں فوراً باہر نکل آئی۔ راہ سلوک،راہ چاہت کی کڑی منزلوں کی مسافت مجھ جیسی گنہگار اور دُنیا دار کے مقدر میں کہاں؟ مناسکِ حج کی صحیح ادائیگی میں کسی کوتاہی کی چُبھن اس فرض کی تکمیل میں خلش کا باعث نہ بنے اور میرے اُوپر دَم کی گرفت لاگو نہ آئے۔ابھی تو یہی اطمینان چاہیے۔
اور مزدلفہ میں کھُلے آسمان تلے رات کا گزارنا مناسک کا اہم حصہ ہے۔

منیٰ کے لیے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب سے قبل روانگی ہوئی۔ یہ سولہ سترہ میل کا ٹوٹا دیوار چین بن گیا تھا۔ شاعر کا یہ مصرع “مدینے کی گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے” یاد آیا۔ یہاں سڑکیں گلیاں مکے کی تھیں اور قصداً نہیں مجبوراً بھٹکنا جاری تھا۔ پیٹ خالی، معدہ خالی پر کتنی عجیب سی بات تھی۔ نہ گیس کے بگولے سر کو چڑھتے تھے، نہ تبخیر معدہ کی کوئی کیفیت پریشان کرتی تھی۔ نہ لبوں پر پپڑیاں جمی تھیں۔
کُبری خالد پر جب رمی کے لیے اُتارا گیا۔ ساڑھے گیارہ کا وقت تھا۔ اپنے خیمے میں پہنچ کر کسی سے اپنے بد رنگے سے بالوں کی ایک لٹ کٹوائی۔
ٹائلٹ کی پہلے دھلائی کی پھر نہائی کی۔ پاکی اور پلیتی کا تناسب اُوپر والے کے کھاتے میں ڈالا۔ اور طواف زیارت کے لیے بے چین ہوئی کہ ابھی مکہ چلا جائے۔ پر مردوں کا معاملہ اٹکا ہوا تھا۔ قربانی اور سر منڈائی۔
طواف زیارت اگلے دن پر ملتوی ہو گیا تھا۔ پر میری اور دُردانہ کی شام اس بے کلی اس اضطراب کی گھُمن گھیری میں گزر رہی تھی کہ حرم میں رش کی صورت کیسی ہو گی؟
نماز مغرب کے بعد مختلف گروپس کے مختلف خیموں میں اس جانکاری کے لیے کہ ہے کوئی جوکچھ بتا سکے کی بھاگ دوڑ میں لگ گئیں۔ صد آفرین اُس ان پڑھ عورت پر جس نے اشارے سے مجھے پاس بُلا کر بٹھایا اور محبت کے رسیلے لہجے میں کہا۔
”رش سے گھبراتی ہو۔ارے میری بچی جم جم یہ رش ہووے۔سو بسم اللہ یہ رش ہو۔ ست خیراں اس رش دیاں۔اکھیاں ٹھنڈی ہوتی ہیں اس رش سے۔بس دُعایہ کرو کہ تمہارے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔عافیت اور سلامتی سے اِس رکن کو پورا کرو۔“
بٹر بٹر اُس کا پُر نور سا چہرہ تکتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے میرے بوتھے پر زور کا جُوتا پڑا ہو۔ شرمندگی کے ڈھیروں پانی میں نہا گئی۔ اپنی تہی دامنی اور پلےّ نہ سیر آٹا تے گوندی دا سنگھ پاٹا والی کیفیت کا احساس ہوا۔
بس تو تبھی یہ جان پائی کہ اُوپر والا مجھ جیسی کے گھر میں کیوں نہیں آتا۔

صبح پہلا کام رمی تھا۔ کُبری خالد پر کھڑے ہو کر میں نے انسانوں کا ایک سیلِ رواں دیکھا۔ انسان مذہب کے بارے میں کتنا Possessive ہے۔ دلیل اور منطق میں نہیں اُلجھتا۔ شاید اسی میں اس کی نجات اور بھلائی ہے۔ بلوچ صاحب پیدل چلنے پر مُصر تھے دردانہ نے مجبوراً تعاقب کیا۔ میاں بھی چل پڑے۔ میں پیدل چل کر اپنی توانائی ضائع کرنے کے حق میں نہیں تھی پر مجبوراً پیدل چلنے کی کھیر کھا رہی تھی۔
تیسرا کلمہ ضرور میرے ہونٹوں پر تھا۔ پر جلنا کُڑھنا بھی جاری تھا۔ کاش کہیں اُس راہ سفر کو عشق کی گھاٹی بنا لیتی تو شاید آسانی ہو جاتی۔ جیسا میری کزن کوثر نے عزیزہ سے پیدل حرم تک کا دس کوس کا پینڈا عبادت سمجھ کر کیا اور میرے لیے ڈھائی کوس لمبے پینڈے بن گئے تھے۔ جھوٹی عاشق تھی نا۔
جونہی حرم کے مینار نظر آئے۔ میں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ مجھے ابھی طواف نہیں کرنا۔ آرام سے تازہ دم ہو کر اندر جاؤں گی۔
اور پھر وہ ہوا تھاجس کا ذکر باب کے آغاز میں ہوا ہے۔قریب سے گزرنے والے ایک سادہ لوح پاکستانی نوجوان کی توبہ تلا کرتی زبان”اوے خالاں جی تے خالو جی ایہہ تے رب سوہنے دا گھر ایتھے نہیں جی کوئی لڑائی شڑائی“(یعنی خالہ جی اور خالو جی یہ پیارے رب کا گھر ہے۔یہاں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے)۔
سچی اب ڈوب مرنے والی بات ہی تھی ناکہ کل کا چھوکرہ بڈھے لٹھوں کو عقل دے رہا تھا۔شررہا تھا۔شرمندہ سی ہوکر میں جب بابِ اجیاد کی طرف بڑھی۔ میاں نے بھی آگے بڑھ کر ہاتھ پکڑ لیا اور صُلح جو انداز میں کہا۔
”کیا تھا ٹیکسی میں آجاتے۔ سو ریال لے لیتا۔ دو سو لے لیتا۔ پیسہ کس لیے؟ بندے کے آرام اور سہولت کے لیے۔“
میں نے ہاتھ چھُڑانے کی کوشش نہیں کی۔ جانتی تھی کہ وہ غصیلا ہے تو خرچیلا بھی ہے۔ اُس کی انگلیوں میں موریاں نہیں مورے ہیں۔تاہم میں نے دل میں ضرور کہا۔
”ہائے میاں بیوی کے رشتے سے بڑھ کر دنیا میں شاید ہی کوئی بے غیرتی کا رشتہ ہو۔ یہ کسی غریب کاشت کار کی بیلوں کی اس جوڑی کی طرح ہے جو اکٹھے زمین کا سینہ چیرتے سہاگہ اور کراہی کے عمل کو سر انجام دیتے ہیں۔ لڑتے مرتے بھی اکٹھے ہیں اور پھر ایک ہی کھُرلی پرپٹھے (چارہ) کھانا بھی اُن کا مقدر ہے۔“
ہاتھ ضرور میرے ہاتھ میں تھا پر جیسے میں پژمردگی کے بھاری پتھروں تلے دبی ہوئی تھی۔ سیاہ لبادے میں لپٹے اُس کوٹھے نے جیسے دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ جھڑی شروع ہو گئی تھی۔ جی چاہتا تھا ہاتھ چھُڑا کر بھاگ جاؤں اور لوگوں کے سروں پر سے تیرتی ہوئی غلاف سے جھول جاؤں۔ دیواروں سے لپٹ جاؤں۔ اتنا روؤں اتنا روؤں کہ پورے حرم کو بھگو دوں۔
باب عبدالعزیز کے اندرونی صحن میں اُترنے والی سیڑھیوں کے پوڈے پر کھڑے ہو کر میں نے سامنے دیکھتے ہوئے بھیگی آنکھوں کو ہاتھ کی بیرونی پشت سے صاف کرتے ہوئے دائروں میں دیوانہ وار رقصاں لوگوں پر نظر ڈالی۔ کیفیت کچھ ایسی ہی تھی کہ تھالی گرے اور سروں پر ہی رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ظہر کی نماز کے وقت ادائیگی کی صورت کچھ ایسی ہی تھی کہ سیڑھیوں کے ایک کونے پر بیٹھی تھی۔ ایک بازو کسی سینی گال کے حبشی کی گود میں تھا دوسرا بازو تیونس کے ایک بوڑھے کی چھاتی کو چھُو رہا تھا۔ نہ یہ پتہ تھا کہ رکعت پہلی جا رہی ہے یا دوسری۔ پر یہ میری نماز عشق تھی۔ آنکھیں سیاہ غلاف کو تکے جاتی تھیں اور دل اُس سے ہم کلام تھا۔
میاں مجھے یہاں بٹھا کرکسی اور جگہ نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔
سعی کی ادائیگی کے بعد۔۔۔ کیسے میرا جی چاہا تھاکہ ہم کہیں بیٹھیں۔کچھ کھائیں پئیں۔
پر میاں کو اپنی جوتیوں کی فکر تھی۔ جہاں رکھی تھیں وہ دروازہ کہیں بہت پیچھے تھا اور ہم کہیں اور نکل آئے تھے۔ اب میں مُصر کہ کسی اور کی پہن لو۔ پر وہاں میرے سو اصرار پر ایک پکا انکار۔ پھر میں نے بھی جل کر دل میں کہا۔
”دفع ہو جاؤ بھگتو پھر۔“
ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر میں نے ٹانگیں پسار یں اور لبن (لسی) کا پیکٹ منہ سے لگایا جو میں ابھی ابھی قریبی سٹال سے لائی تھی۔ دیر بعد میاں خالی ہاتھ وارد ہوئے۔ اب دُکانوں کا طواف شروع ہوا۔ وہاں کوئی پسند نہ آئی۔ گری پڑی ایک جوتی پہن کر ٹیکسی میں بیٹھے اور منیٰ آئے۔
طواف وداع میں نے اکیلے کیا۔ اپنے رانجھے کو گیتوں سے لُبھایا۔ دائرے میں داخل ہوئی تو شیخ سعدی کی مناجات ’تو نمائندہ فضلی تو سزاوار خدائی‘ کہیں ہواؤں کے دوش پر لہراتی سماعتوں سے آ ٹکرائی۔
بس تو اسے اونچے اونچے گایا۔ سزاوار خدائی کی تکرار ہوئی۔ پھر ’وے چن میرے مکھناں تے اک پل ایدھر تکنا‘ لبوں پر آ گیا۔ ’تے اک پل ایدھر تکنا۔‘ نہ دائیں طرف کا ہوش نہ بائیں جانب کا۔ سامنے نیلے آسمان کی وسعتیں تھیں۔ اور میں اُسے اپنی طرف تکنے کی دعوت دیتی تھی۔ ماہیا گایا۔ پیا پیا کا راگ آلاپا۔ سجناں وے سوہنیا۔ وے میرے شہزادیا۔
وہ تھا اور میں تھی اور میرے آنسو تھے۔ ساتویں چکر پر جب میں باہر آ گئی میں نے اُس مقام دلربا کو دیکھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ میرا سریر کیف و سرورمیں ڈوبا اور میری روح لطف و سرشاری میں نہا رہی تھی۔
روح لطف و سرشاری میں نہا رہی تھی۔
تب دھیرے سے بھیگی آنکھیں کھول کر میں نے آسمان کو تکتے ہوئے کہا۔
”شکریہ اے پیار تیرا شکریہ۔ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply