جھنجھلا کر اس نے ٹانگ نیچی رکھی اور اسکے دونوں پاؤں روتی ہوئی شانزے کے جھکے سر کے قریب زمین پر تھے۔وہ اس وقت اس کو ان قدموں کو چومنے کا کہتا تو بھی وہ تیار ہو جاتی ۔بس وہ← مزید پڑھیے
سلگتی ذات(1)۔۔رمشا تبسّم/فون کان سے لگائے وہ بالوں کو انگلی پر لپیٹنے میں مصروف تھی۔ فون پر رِنگ مسلسل سنائی دے رہی تھی اور اسکی نظریں گویا کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوئیں بھی کچھ دیکھنے سے قاصر نظر آ رہی تھیں ۔← مزید پڑھیے
کہتے ہیں زخم کی تکلیف اور دکھ کی شدت کم کرنی ہو تو اسکا بار بار ذکر نہیں کرنا چاہیے۔مگر کیا کبھی دل پر لگے زخموں کو بھی بھلایا جا سکتا ہے؟کیا کبھی اپنے وجود سے جڑی زندگیوں کے ختم← مزید پڑھیے
وہ سات سال کا معصوم سا بچہ تھا۔جب وہ ایک دراوازے پر کھڑا بھیک نہیں بس روٹی مانگ رہا تھا۔کھڑکی سے کسی کے دیکھتے ہی اس نے بس ایک روٹی کا سوال کیا۔روٹی کا سوال شاید دنیا کا وہ واحد← مزید پڑھیے
“جج صاحب اریبہ کا قتل نورالعین کے قتل سے کچھ روز قبل ہوا تھا۔اسی کے دکھ میں دیوانی ہو گئی تھی یہ عورت۔ اور اتنی وحشی بن گئی کہ اس نے میری دوسری بچی کو بھی قتل کر دیا “۔← مزید پڑھیے
کمرہ عدالت کے باہر گہما گہمی تھی۔رپورٹرز بار بار اپنے چینل کے ذریعے اپنے ناظرین تک تازہ ترین اطلاعات پہنچانے میں مصروف تھے۔سکیورٹی سخت تھی۔عوام غم و غصہ کی حالت میں عدالت کے باہر کھڑی تھی۔پولیس ان کو کسی بھی← مزید پڑھیے
زندگی تو بس چلتے رہنے کا نام ہے،اور ہم میں سے اکثریت مرنے تک بغیر مقصد کے چلتی رہتی ہے۔ہماری پہچان,ہمارا کام, ہماری حیثیت دنیا کی نظر میں کسی کیڑے مکوڑے کی مانند ہی ہوتی ہے جن کے مرنے سے ← مزید پڑھیے
چاند مکمل کالا ہو چکا تھا۔ہر طرف ہَوا سہم کر کھنڈروں کی دیواروں پر الٹی لٹک رہی تھی۔فضا گھٹن زدہ تھی۔درخت اپنی جڑیں کاٹ کر یہاں سے بھاگنا چاہتے تھے۔ گھونسلوں سے پرندوں کے بچوں کے چیخنے کی آواز ماحول← مزید پڑھیے
ہمارے بچپن میں ہم نے پاکستان میں پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کا زوال اور انڈین ڈرامہ انڈسٹری کا عروج دیکھا۔ اس زوال کی وجہ ایکتا کپور کے ڈرامے تھے۔سٹار پلس کی وہ کہانیاں جن کو دس دس سال بہت آرام← مزید پڑھیے
دنیا میں اکثر پوچھا جاتا ہے باپ کیا ہے؟باپ کی عظمت کیا ہے؟اور میرے پاس جواب ہی نہیں ہوتا۔خاص کر فادرز ڈے پر ہر طرف باپ کی بات ہوتی ہے۔تو ہر بات پر دیکھنا سننا بولنا چھوڑ دیتی ہوں۔← مزید پڑھیے
جب میں مر گئی تو مجھے قبر میں اتارنے والے سب ہاتھوں سے مجھے الجھن ہو رہی تھی۔یہ ہاتھ مجھے نوچتے رہے ہیں۔یہ تمام وجود جو میرا جسم دفن کرنے آئے ہیں، مجھے ان سے گھن آ رہی تھی۔مجھے بس← مزید پڑھیے
والدین کی اہمیت ہر دور میں یکساں رہی ہے۔والدین کے بغیر زندگی اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ماں کی کوکھ کے اندھیرے میں پلتا بچہ پھلتا پھولتا ہے اور بالآخر نو مہینے بعد جنم لیتا ہے۔کوکھ کا اندھیرا,کوکھ کی مختصر← مزید پڑھیے
میں جانتی ہوں میں بہت بولتی ہوں۔ جب ہم ساتھ ہوتے تب بھی اور جب بہت دور ہوتے اُس وقت بھی شائد خیالات میں صرف میں ہی بول رہی ہوتی تھی۔ تم نے کہا تھا میں بولتی ہوں تو الفاظ← مزید پڑھیے
زندگی کے کئی رنگ ہیں۔انہی رنگوں میں ایک رنگ موت ہے۔موت کو ویسے ہمیشہ ہی کالی رات سا کہا جاتا ہے۔اور ایسا رنگ جس کو ہم اوڑھنا ہی نہیں چاہتے۔مگر موت کا رنگ بھی ہمارے لئے ہی ہے۔اور ہم پیدا← مزید پڑھیے
پاؤں تک لمبے کالے فراک میں آہستہ سے چلتی ہوئی وہ کھڑکی کے پاس رُک کر چاند کو دیکھنے لگی۔چاند کی روشنی میں اسکے چہرے پر پڑی انتظار کی لکیریں واضح تھیں۔اسکے چہرے پر بکھری زلفیں ہوا سے لہرا رہی← مزید پڑھیے
شہر کی آنکھیں ویراں ہو چلی بَستی ہی ساری تباہ ہو چلی جو کہتے تھے ڈرتے نہیں ہم کبھی اُنہی کی نگاہیں پریشاں ہو چلی وُہ صَدی محبت سے آباد تھی یہ صَدی تو وبا سے تباہ ہو چلی اَنا← مزید پڑھیے
تُم۔۔۔ ہمیشہ ہی کہتے ہو میں لکھتی ہوں تو لفظوں سے ٹِیس اٹھتی ہے ہر لفظ درد کی چادر اوڑھ کر اپنے نقطے گنوا کر زِیر زَبر شَد مَد نوچ پھیکتا ہے الفاظ اپنے مطلب سے بیگانے ہوتے چلے جاتے← مزید پڑھیے
یہ وبا کا بیج کِس نے بویا کہ وبا کے بُوٹے کی ہر شاخ پر اِک لاش اب لٹک رہی ہے۔۔ گلشنِ وبا میں اب چہار سُو ہی موت کا موسم چھا رہا ہے, ہر شخص کو اب تو ڈرا← مزید پڑھیے
بارش کی بوندیں زمین کو چھو رہی ہیں۔۔مگر ان بوندوں کو چھونے سے بھی لوگ اب خوفزدہ ہیں۔گھروں کی کھڑکیوں پر پردے ہیں۔بوندیں تنہائی میں ماتم کرتی ہوئی زمین پر خود کو ختم کر رہی ہیں۔ننھے قدم ان بوندوں کو← مزید پڑھیے
شہر میں جب ہر سُو وبا پھیلی ہے۔ہر کوئی موت کی آغوش میں نہ ہوتے ہوئے بھی موت کے بُت کو پاش پاش کرنا چاہتا ہے۔سورج کی کرنیں بھی اب وبا کے خوف سے زمین کو چھونے سے ڈر رہی← مزید پڑھیے