سلگتی ذات(2،آخری قسط)۔۔رمشا تبسّم

جھنجھلا کر اس نے ٹانگ نیچی رکھی اور اسکے دونوں پاؤں روتی ہوئی شانزے کے جھکے سر کے قریب زمین پر تھے۔وہ اس وقت اس کو ان قدموں کو چومنے کا   کہتا تو بھی وہ تیار ہو جاتی ۔بس وہ کسی بھی صورت اپنے مہربان کو ایک بار پھر مہربان ہوتے دیکھنے کی خواہش مند تھی۔

وہ نیچے بیٹھا ۔کش لگا کر دھواں شانزے پر چھوڑا جو اسکے بیٹھتے ہی نظریں اس پر جمائے ہوئی تھی ۔شانزے نے دھوئیں کے بادلوں سے نظریں بند نہیں کیں۔اسکو خوف تھا کہیں نظریں بند کر لیں  تو اسی دھوئیں میں سب کچھ دھواں نہ ہو جائے۔

“تم نے کتنی راتیں گزاری ہیں میرے ساتھ؟  ۔۔دس ؟نہیں شاید بارہ؟نہیں رکو ذرا میں گن کر بتاتا ہوں” اس نے انگلیوں پر کچھ گننا شروع کیا۔شانزے مسلسل کرب اور اذیت میں شرم سے مرے جا رہی تھی۔

“سنو لڑکی۔” اس نے ایک دم اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں سے اوپر اٹھایا۔
“کُل ملا کر تم میرے ساتھ اب تک پندرہ راتیں گزار چکی ہو۔ذرا حساب کرو ان راتوں کے بدلے تم نے کیا کیا وصول کیا؟لاکھوں کا زیور۔ مہنگے کپڑے سیرو تفریح اتنی عالی شان جگہوں پر قیام اور کیا چاہیے تمہیں؟کیا اوقات ہے تمہاری؟تمہیں لگتا ہے ہم خاندانی لوگ تم جیسی دولت مند لڑکوں کو پھنسا کر خواہشیں پوری کرنے والی عورتوں کو اپنی عزت بنائیں گے؟”۔وہ اب غصے سے چیخ رہا تھا۔

“تمہاری راتوں کا معاوضہ تم دولت,عیاشی اور راتوں کے لطف سے وصول کر چکی ہو۔”وہ اب شرارت سے اسکے چہرے پر دھواں چھوڑتا ہوا مسکر کر اسکو آنکھ مار کر بول رہا تھا۔وہ اب بھی اسکے قدموں میں ڈھیر ہونے کو تیار تھی۔

یکدم شامی کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔اس نے گہرا سانس لیا اسکو ذبردستی اٹھا کر کھڑا کیا۔اور کرخت آواز میں بولا

“جس محبت کا واسطہ تم دے رہی ہو۔وہ محبت تھی ہی نہیں۔تمہیں دولت کا نشہ تھا مجھے جسم کا۔میرے لئے محبت بس تمہارے ریشمی جسم کو سَر کرنا تھا۔اس مخملی جسم کی زعفرانی رنگت سے محظوظ ہونا تھا۔تم سراپاء تجسس تھیں، جب تک مجھے ملی نہیں تھیں ۔مگر کچھ راتوں میں تجسس ختم اور پُھر سے اُڑ گی  وہ  نام نہاد محبت”۔وہ اب قہقہے لگاتا کش بھرتا ہوا مطمئن انداز  میں محظوظ ہو رہا تھا۔

شانزے کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گئے۔وہ بُت بنی مہربان کو بھیڑیا بنتا دیکھ رہی تھی۔
“مگر شادی۔تم نے تو کہا تھا شادی”۔اس نے لرزتے لبوں سے بس اتنا ہی کہا

“شادی ہو تو گئی ۔بھئ دیکھو تمہیں سہاگن بنا کر نہیں رکھا کیا؟ایک سہاگن والا لطف نہیں آیا کیا ؟ کہتی ہو تو پھر آج ایک بار جاتے ہوئے تمہیں سہاگن والا لطف دے جاتا ہوں۔” فضا میں ایک سفاک قہقہہ  دھوئیں کے بادلوں میں بلندہوا

“شامی”۔وہ چیخ کر اس پر جھپٹ پڑی۔مگر شامی نے اسکے ہاتھ فضا میں ہی روک لئے ۔اور اب وہ غصے کی آگ میں بھڑک رہا تھا۔

“سنو تمہاری بربادی پوری دنیا کو دکھا سکتا ہوں ابھی؟اور جو رہی سہی عزت تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی ہے وہ پل بھر میں ختم ہو جائے گی۔ابھی صرف تم ایک بھاگی ہوئی لڑکی ہو۔کسی مرد کے ساتھ بغیر نکاح اسکے بستر پر رہ چکی ہو یہ خبر باہر گئی  تو تمہارے گھر والے اور تم قبر میں بھی پناہ نہیں لے سکو گے۔اس لئے اب ایک لفظ بھی کہا تو اپنا انجام سوچ لینا” ۔وہ ظالم حکمران کی تصویر بنا  بول رہا تھا۔اور وہ مظلوم رعایا میں سے کوئی زرخرید باندی بنی ہوش و حواس کھو کر خاموش کھڑی تھی۔الفاظ اب اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔التجائیں اسکے قدموں میں دم توڑ رہی تھیں۔حسرتیں امیدیں اسکے لبوں پر لرز رہے تھے۔اور محبت چیختی ہوئی وحشت زدہ ہو کر پتھر بنی شانزے کے جسم میں بری طرح کانپ رہی تھی۔

“اب تم دھیان سے سنو۔ تم جیو یا مرو مجھے پرواہ نہیں۔میرا دل اب تمہارے جسم کی چاہ نہیں رکھتا۔اس جگہ جہاں پندرہ دن تم میری دلہن بن کر رہی ہو آئے روز لڑکیاں آتی رہی ہیں کچھ اپنی مرضی سے۔کچھ خرید کر اور کچھ تم جیسی نازک چڑیا میرے جال میں پھنس کر”۔وہ سگریٹ کو پھینک کر پاؤں سے مسل رہا تھا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ واپس مڑا۔ اور چیخا عباس ۔عباس۔۔۔

“جی چوہدری صاحب حکم کریں”۔ہاتھ باندھے سر جھکائے عباس سامنے کھڑا تھا۔
“عباس میرے یہاں سے جاتے ہی ایک سیکنڈ میں یہ لڑکی یہاں سے نہ گئی  تو تم جانو اور یہ جانے۔میری طرف سے تحفہ سمجھو” ۔شامی نے ایک نفرت بھری نظر شانزے پر ڈالی اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کی۔گاڑی چلنے کے شور سے شانزے کو ہوش آ گئی ۔وہ گاڑی کو پیٹتے ہوئے آوازیں دے رہی تھی۔گاڑی اسکی رفتار سے تیز ہوتی گیٹ سے باہر جا رہی تھی۔ننگے پاؤں ننگے سر شانزے گاڑی کے پیچھے بھاگ رہی تھی روتی چیختی آوازیں دیتی ہوئی ۔کچھ سیکنڈ میں گاڑی اسکی پہنچ سے دور تھی وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے چیخ رہی تھی۔اس نے دو قدم پیچھے لئے سامنے عباس شیطانیت چہرے پر سجائے کھڑا تھا۔شانزے الٹے قدم واپس بھاگی۔اتنا تیز کہ  اسکو نہ  سڑک پر آتی گاڑیاں نظر آ رہی تھیں  نہ  پاؤں میں چبھتے پتھر محسوس ہوئے۔ایک دم گاڑی کی تیز لائٹ اسکی آنکھوں پر پڑی ۔ایک زور دار ٹکر اور پھر چیخ کی آواز بلند ہوئی۔گاڑی رک گئی ۔شانزے نے سڑک پر گرتے آنکھیں کھولیں  تو لوگوں کا ہجوم اس کے ارد گرد تھا۔اسکے بعد اسکی آنکھیں بند ہو گئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“چوہدری صاحب آپ کا چہرہ اس وقت سگریٹ سے زیادہ جھلس رہا ہے”۔وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئی اور آگے بڑھ کر ہشام کے قریب پہنچ گئی۔لڑکی ان دونوں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔

مہر بیگم نے ہشام سے آنکھیں  چار کیں۔ دونوں کے چہرے اب سنجیدہ تھے۔جیسے خاموشی کی زبان میں دونوں ماضی کے پردے چیرتے ہوئے کسی کھائی میں جا گرے  ہوں۔مہر بیگم نے ہشام کے گلے میں بانہوں کا ہار ڈالنا چاہا جس کو ہشام نے غصے سے جھٹک دیا۔
“تم یہاں کیا کر رہی ہوں۔” وہ چیخا
“وہ درخت اب بھی یہاں ہے۔ابھی دیکھا میں نے۔ مگر سوکھ چکا ہے۔یاد ہے اس جگہ پہلی بار آتے وقت میں نے رک کر اس پر دل بنا کر تمہارا اور اپنا نام لکھا تھا۔” اور تم ماہر شکاری کی طرح بلکہ کسی مہربان کی طرح کھڑے شکار کو آخری خواہشیں پوری کرنے کا موقع دے رہے تھے ۔وہ مہربان جو بھیڑیے کا روپ چھپائے ہوئے تھا۔باتوں سے مہرباں اور حرکتوں سے ۔۔اُف!  کیا کہوں پل میں چھو کر فنا کرنے کا ہنر رکھنے والا بھیڑیا” ۔وہ اسکے سامنے کھڑی طنزیہ مسکراہٹ سجائے اسکے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔
“ارے لڑکی تم کیوں حیران پریشان ہو۔ میں اور چوہدری صاحب بہت پرانے واقف ہیں۔بلکہ رکو میں بتاتی ہوں تمہیں”۔ وہ لڑکی کی طرف مڑی جو اس وقت شدید تذبذب کا شکار یک ٹک ان دونوں کے چہرے پر پھیلی سنجیدگی کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
“چوہدری صاحب محبت کرتے ہیں تو انسان دلدل میں پھنس کر بھی خود کو کسی محبت کی وادی میں محسوس کرتا ہے۔ہے نا ایسا ہی؟ ”
“ارے بولو نا ،کہ ایسا ہی ہے۔”لڑکی کو خاموش دیکھ کر مہر نے چٹکی بجائی جس پر لڑکی چونک گئی۔
“جی آپا کیا کہہ رہی تھیں آپ۔”
“تم یہاں سے دفع ہو جاؤ مجھے ایک سیکنڈ اب تمہاری بکواس نہیں سننی “۔وہ مہر بیگم کی طرف تیزی سے آیا اور بازو سے پکڑ کر اسکو اپنے پیچھے کھینچتا ہوا آگے کی طرف لے جارہا تھا۔مہر نے فوراً  اپنا بازو آزاد کروایا اور اسکی آواز عالی شان ڈرائنگ روم کی دیواروں سے ٹکراتی محسوس ہو رہی تھی۔
“بس چوہدری ہشام الحق بس۔اب نہیں۔ہر بار تم حکم نہیں سناؤں گے۔ہر بار تم حاکم اور میں باندی نہیں بنوں  گی۔کبھی کبھی نفرت کے اُگائے گئے پودوں کا پھل تمہیں بھی نگلنا پڑے گا اور آج یہی پھل تم کو سود سمیت واپس کرنے آئی ہوں”۔وہ ہشام کا بازو پکڑ کر واپس پیچھے کھینچ لائی ۔
“اس رات تم دھتکار کر گئے تو میری ٹکڑ گاڑی سے ہو گئی۔آنکھ بند ہوتے ہوئے شکر کیا کہ موت کی آغوش میں جا رہی ہوں۔آنکھ کھلتے ہی خود کو ایک نئی اذیت میں پایا۔زندہ بچ جانے کی اذیت۔جس نے بچایا اس نے دو راستے دیئے یا میں چلی جاؤں یا پھر اسکے کاروبار میں اسکا ساتھ دوں۔جاتی تو کہاں جاتی۔واپس آ کر ماں باپ پر اپنے ناپاک وجود کا بوجھ کیسے ڈالتی۔بلکہ شاید وہ تو میرے گھر سے بھاگنے کے بعد ہی مر گئے ہونگے۔کاروبار کا سوچا ۔جانتے ہو کونسا کاروبار۔جانتے ہو کونسا “۔وہ اسکا گریبان پکڑ کر چیخ رہی تھی
“جسم فروشی کا۔ “اسکا گریبان چھوڑ کر اب وہ واپس ٹھیک کر رہی تھی۔
“جسم فروشی۔” وہ اب چل کر صوفے تک آ گئی  تھی۔نزاکت سے بیٹھتے ہوئے اس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھی اور بولی ۔”مگر میں تو عزت دار گھر سے تھی ۔عزت دار لڑکی ۔جسم فروشی کیسے کرتی۔مگر پھر مجھے یاد آیا ۔ہشام” وہ واپس ہشام کی طرف تیزی سے اٹھ کر آئی۔
“عزت تو تمہارے بستر کی سلوٹوں میں کئی  راتیں بکھرتی رہی۔کئی  راتیں لُٹتی رہی۔اب تو عزت کے نام پر ہنسی آتی تھی۔ جسم جو تمہارے سُپرد خوشی خوشی کیا چند پیسوں کے عوض اوروں کے نام کرنے کا ارادہ کیا۔مگر وقت کی ستم ظریفی کہو یا میری خوش قسمتی بلکہ تمہاری بدقسمتی کہ  میں حاملہ تھی”۔وہ اب ہشام کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔اسکے چہرے کو انگلیوں سے اوپر کر رہی تھی کہ ہشام نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔
وہ سنجیدگی سےمخاطب ہوئی۔”تم تو گئے مگر تمہاری وحشت کا نشان میری کوکھ میں چھوڑ گئے”۔وہ حیرت کا بت بنا مہر پر نظریں جمائے کھڑا تھا جیسے اسے اپنی ہی سماعت پر یقین نہ ہوا ہو۔
“تم ہوس کے کھیل میں جذبات کے بستر پر اذیت سے پڑی وہ ناپاک سلوٹیں تھے ہشام جسے دن کے اجالے میں زمانے کی نظروں سے چھپانا پڑتا ہے۔اور میں نے چھپایا تم نے بھی خوب چھپایا۔مگر تم بہار میں آئے وہ بدبودار ہوا کا جھونکا ہو جسے گلشن کی خوشبو بھی چھپا نہیں سکتی۔تمہاری اولاد کی موجودگی میرے لئے امید کی کرن بنی۔جب تک میں بچے کو جنم نہیں دیتی مجھے جسم فروشی سے چھٹی مل گئی۔میں نے سوچا تھا اس بچے کو بھی مار دوں اور خود کو بھی مگر یہ بھی نہ ہوا۔زندگی جتنی بھی غلیظ کیوں نہ  سہی۔ختم کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اکثر۔”
“تمہیں یاد ہے تم رضیہ بیگم سے لڑکی خریدنے آئے تھے۔اس دن جب میں نقاب پہنے تمہارے سامنے سے گزری تھی۔تمہیں دیکھ کر دل کیا تھا تمہارا گریبان پکڑوں ۔تمہیں بتاؤ ں کہ تمہاری گندگی میرے وجود میں پل رہی ہے۔مگر اس سے پہلے میں تمہارا گریبان پکڑتی تم نے میری ہی قیمت پوچھ لی۔صرف نگاہوں پر مر مٹے تھے نا تم اس دن میری؟” وہ قہقہہ  لگا رہی تھی۔
“ارے ہشام میاں جس لڑکی کو برباد کیا ۔اس کی ہی نگاہوں سے ناواقف تھے۔” جانتے ہو رضیہ بی بی کو میں نے اسی شام کہہ دیا تھا۔مجھے کبھی تمہارے سامنے نہ کرے۔وہ جو بھی فیصلہ مجھے لیکر کرلیں مجھے منظور ہے مگر تم سے رابطہ کبھی نہ توڑے اور مجھے تمہارے ہاتھ کبھی نہ بیچیں۔۔ساری بات جان کر انہوں نے میرا ساتھ دیا۔تم جب آتے میں جان بوجھ کر تمہارے سامنے آتی ۔تمہیں نگاہوں سے سلام کرتی اور تم ہر بار میری بھاری قیمت دینے کو تیار رہتے مگر تمہاری کوئی قیمت قبول نہ کی گئی۔”

ہشام کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔وہ اپنی نگاہوں سے اس کے ہلتے ہونٹ اور ان ہونٹوں سے ہوتے انکشافات کو سن کر پتھر کا بت بن رہا تھا۔
چلو تمہیں ایک راز کی بات بتاتی ہوں شامی بلکہ لڑکی تم بھی دھیان سے سنو۔یہ بات تمہیں بھی گہری چوٹ دے گی”۔وہ طنزیہ ہنسی ہنستی ہوئی آگے گئی ۔ اور پیسوں کا لفافہ پکڑا جو وہ تصویر کے نیچے پڑے ٹیبل پر رکھ آئی تھی ۔
“یہ قیمت ہے لڑکی تمہاری۔۔اس قیمت کے بدلے یہ شخص تمہاری چند راتیں خریدنا چاہتا ہے۔چند مزید راتیں ہوس بجھانا چاہتا ہے”۔وہ لفافے کو دیکھ کر سنجیدگی سے کھڑی تھی “۔مگر یہ قیمت بہت کم ہے ہشام ،جانتے ہو کیوں؟”
“کیونکہ یہ تمہاری ہی وحشت کی نشانی ہے ۔یہ لڑکی تمہاری ہی ہوس سے پیدا ہونے والا وجود ہے۔یاد ہے جب ماہر حروف ساز شکاری بنے تم محبت کے جال میں مجھے پھنسا رہے تھے تو کہتے تھے ہماری بیٹی کا نام ہم آنسہ رکھیں گے۔اسکا نام آنسہ ہشام الحق ہے”۔وہ پوری طاقت سے چیخ رہی تھی۔
“ایک باپ کی اپنی ہی ناجائز بیٹی کے ساتھ گزاری رات کی قیمت چند لاکھ روپے ہرگز نہیں ہو سکتی ۔”وہ پوری طاقت سے چیخ رہی تھی اور اسکی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے۔
“نہیں ۔نہیں ہرگز نہیں ۔لڑکی چیختی ہوئی  مہر کی طرف آئی۔آپ جھوٹ بول رہی ہیں آپا کہہ دیجئے خدا کے لئے  کہہ دیجیے  یہ سب جھوٹ ہے”
یہی سچ ہے آنسہ ہشام الحق ”
لڑکی کانپتے ہوئے جسم سے زمین پر بیٹھ کر زمین پر ہاتھ مارنے لگی۔چوڑیاں ٹوٹ کر اسکے ہاتھ میں چبھ رہی تھیں۔

“چپ کر جاؤں ذلیل حرامی عورت ” ہشام غصے میں اسکی طرف بڑھا اسکی شہہ رگ کو دبا کر پیچھے کی طرف دھکیلتا ہوا لے گیا ۔ٹیبل کے کونے پر اکھڑا ہوا کیل شانزے کی کمر میں چبھ رہا تھا۔ہشام نے اسکی شہہ رگ کو ناخن سے دبایا۔شانزے خود کو چھڑوانے کی سعی نہیں کر رہی تھی۔ہشام کا ناخن اسکی شہہ رگ میں دھنس رہا تھا۔ مہر کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔لڑکی کی چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔

چیخوں کی آوازوں سے ہشام کے چہرے پر پسینہ بہہ رہا تھا اس کے ہاتھ کی گرفت کمزورہوئی۔شانزے نے دھکا دے کر ہشام کو پیچھے کیا۔اسکو بازو سے کھینچ کر لڑکی کے سامنے لائی۔جو زمین پر اکٹھی ہو کر لیٹی زارو قطار روتی ہوئی اپنا سر پیٹ رہی تھی۔
ہشام کے قدم لرز رہے تھے۔
“نہیں بالکل نہیں۔ یہ؟ یہ سب جھو ٹ ہے “۔ہشام کے کانپتے ہونٹوں سے بس اتنا نکلا۔مہر نے لڑکی کو کھینچ کر اٹھایا “سنو آنسہ ہشام الحق”
“یہ شخص جو یقینا ً رات کو تمہارے جسم کے پیچ و خم میں اپنے سکون کا راستہ تلاش کرتا رہا ہو گا۔تمہاری ریشمی بانہوں میں سکون تلاشتا ہوس کا کھیل کھیلتا رہا ہو گا۔تمہارے بدن کے پسینے کی مہک سے ہوش گنواتا رہا ہو گا۔یہ شخص تمہارا باپ ہے”۔وہ آنسہ کو جھنجوڑ کر چیخ رہی تھی۔آنسہ کانوں پر ہاتھ رکھے بند آنکھوں سے ماتم کناں تھی۔
کیوں؟کیوں ما۔۔ماں”۔ اسکی ہچکی بندھ گئی۔

وہ ہشام کی طرف مڑی ۔جسکی آنکھوں سے غیر دانستہ طور پر آنسو جاری تھے اسکا چہرہ پسینے سے بھیگ رہا تھا۔وہ قدم پیچھے ہٹا رہا تھا۔شانزے نے صوفے پر پڑی سگریٹ کی ڈبیہ سے ایک سگریٹ نکالا۔اسکو ہشام کےمنہ میں دیا
“لو جلاؤ سگریٹ۔جلاؤ اور چھوڑو دھواں وہ دھواں جو عزتیں چھین کر تم چھوڑتے تھے۔آج اپنی ہی عزت لوٹ کر اڑاؤ  دھواں” وہ اتنی زور سے چیخی کہ ہشام لرز اٹھا ۔وہ کچھ بھی سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے سگریٹ ہونٹوں سے نکال کر پھینک دیا۔آنسہ کی طرف نظریں  کیں اور چیختا ہوا پیچھے کی طرف بھاگتا ہوا صوفے سے اٹک کر گر گیا۔ اور وہیں بیٹھ کر چیخنے لگا۔”یہ کیا کر دیا تم نے شانزے کیا ظلم کیا۔”وہ زارو قطار رو رہا تھا
“شانزے نہیں مہر۔مہر بیگم”۔وہ مسکرائی۔
مہر نے دوسرا سگریٹ پکڑا جلایا،کش لیا اور دھوئیں کو ہوا میں چھوڑا۔اور گہرا سانس لیا۔شہہ رگ کے زخم کو انگلی سے چھوا۔پھر ہشام کی طرف جا کر نیچے اسکے قریب بیٹھ کر اس پر دھواں چھوڑا۔وہ آنکھیں بند کئے منہ چھپائے زارو قطار رو رہا تھا۔
“سنو کیا کچھ کیا ہو گا تم نے آنسہ کے ساتھ رات کو؟ وہی سب جو پندرہ دن میرے ساتھ۔۔”وہ یہ سن کر چیختا ہوا سر زمین پر پٹخ رہا تھا۔

مہر نے ہشام کا سر اٹھایا ۔اسکے ہونٹوں میں جلتا سگریٹ لگایا اس نے سگریٹ پیچھے پھینک دیا جو صوفے پر گر گیا۔اور کچھ سیکنڈ میں صوفے کے کپڑے کے جلنے کا سفر آہستہ آہستہ شروع ہوا۔اور کمرے میں تین جسم مسلسل ماضی کی آگ سے تڑپتے ہوئے جل رہے تھے۔

مہر نے اسکو غصے سے اپنے سامنے کیا۔”بولو پندرہ دن کی سہاگن کہا تھا نا تم نے مجھے۔تو اپنی بیٹی کو ایک رات کی سہاگن بنا کر کیسا لگا۔؟”

“چپ کر جاؤ۔خدا کے واسطے ۔”وہ مہر کے قدموں میں گر کر رو رہا تھا۔مہر کا چہرہ سفید ہو چکا تھا۔دو وجود اس وقت زمین پر اپنی اپنی اذیت کا ماتم کر رہے تھے۔اور اس ماتم کو دیکھ کر مہر کی اذیت اتنے سالوں بعد آج کم ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
“کیوں کیا تم نے ایسا۔یہ کیا غضب کر دیا”۔وہ بے بسی کی تصویر بنے سوال کر رہا تھا۔
مہر نے اسکے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔اسکا منہ اپنے ہاتھوں میں دبوچ کر بولی
“تم نے ایک لڑکی کے ساتھ راتیں گزاریں ۔تمہارا عہد مستی تمام ہوا۔تمہیں افسوس ہوا نہ ملال ۔نہ تمہارے ضمیر کی دستک ہوئی۔تمہاری وحشت کو خود میں سمیٹتی لڑکی نے لڑکی پیدا کر کے تمہارے بستر تک پہنچا دی۔تم نے اس کے ساتھ بھی رات گزاری۔اب تم سسک رہے ہو تڑپ رہے ہو۔یہ تمہاری وحشت کا تمہاری وحشت سے سامنا تھا۔تمہاری وحشت کی سہاگن سے تم نے نئی سہاگن کو جنم دلوایا اور یہی میرا تمہیں تحفہ تھا۔زندگی میں وحشت کی زمین پر ہوس کی شاخ پر کھلی تمہاری بیٹی وہ ناجائز پھول ہے جسے اس کے ہی باپ نے نوچ ڈالا۔”

اسکو دھکا دے کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔وہ اپنے سامنے پڑے شیشے کے ٹیبل پر سر پٹخ رہا تھا۔مہر اٹھ کر باہر کی طرف روانہ ہوئی۔مہر نے کچھ ہی لمحوں میں ہشام کی  زندگی میں ہوس کے بستر پر پڑی تمام سلوٹوں کو اسکے گلے کا طوق بنا  کر اسکو پہنا دیا تھا۔جس سے اسکا دم اب گھٹ رہا تھا۔وہ سسک رہا تھا۔
آنسہ تیزی سے مہر کے پیچھے گئی ۔مہر اب تیز قدموں سے چل رہی تھی۔شیشہ ٹوٹنے, چیخنے چلانے کی آوازیں باہر مہر کو سنائی دے رہی تھیں۔اور وہ مسکراتے ہوئے گیسٹ ہاؤس سے باہر نکل گئی۔آنسہ سسکتی ہوئی ماں کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ گیسٹ ہاؤس کے کمرے سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ملازموں کی چیخ و پکار بلند ہو رہی تھی۔

مہر نے گاڑی میں بیٹھ کر سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں ۔آنسہ روتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوئی۔وہ اپنے سر پر ہاتھ مار رہی تھی۔ اسکی سسکیاں اسکا چیخنا مہر نظر انداز کر رہی تھی۔آنسہ نے مہر کی گود میں سر رکھا جس کو مہر نے پیچھے دھکیل دیا۔پہلی بار آنسہ کو لفظ ماں کہنے کو ملا۔اسکو لگا تھا وہ لاوارث ہے۔مہر اس کے لئے بھی لڑکیوں کی طرح مہر آپا ہی تھی۔مگر وہ اسکی ماں تھی اور اس نے کیا ظلم کیا تھا اس پر آنسہ اتنی سی عمر میں اس اذیت کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔گاڑی رک گئی ۔مہر اتر کر   کمرے کی طرف کسی سے بات کئے بغیر  اندر  ہو گئی۔آنسہ صحن میں بلک بلک کر رو رہی تھی۔
شکیلہ آنسہ کو یوں روتا دیکھ کر حیران تھی۔ وہ اسکو اندر لے کر گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کمرے میں لائٹیں بند تھی۔مہر آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھی۔کھڑکی کے باہر لگے برقی قمقموں کی ہلکی سی روشنی کمرے میں موجود تھی۔آنسہ بدحال کمرے میں داخل ہوئی۔مہر کےقدموں میں بیٹھتے ہوئے اپنا سر مہر کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ مہر کا رخ دیوار کی طرف تھا۔
“میں نہیں جانتی کیا ہوا اور کیوں ؟کوئی ماں چاہے طوائف ہی کیوں نہ ہو اتنی بری نہیں ہو سکتی۔مگر تم  ۔۔
تم بُری ہو۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔کبھی ماں نہیں کہوں گی۔تمہارے قدموں میں تمہیں ماں بنا کر رب نے جنت رکھ دی مگر تم نے اس جنت کو جہنم بنا دیا۔بیٹی کے روپ میں تمہیں خدا نے رحمت دی اور تم نے اس کو اسکے باپ کے بستر تک پہنچا دیا۔” وہ اپنا سر مہر کے گھٹنوں پر رکھے زارو قطار روتے ہوئے مار رہی تھی۔
“مگر میں تمہیں ماں کبھی نہیں کہوں گی۔اور تمہیں معاف نہیں کروں گی۔تم ہمیشہ تڑپو گی ہمیشہ اپنے ہونے پر تمہیں افسوس ہو گا۔تم ایک سفاک عورت ہو۔کل کی شانزے اور آج کی مہر بیگم۔”
یہ کہتے ہی آنسہ نے ہچکی لی۔اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔۔وہ مہر کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رہی تھی اور یک دم پیچھے کی طرف گر گئی۔مہر اور آنسہ کا ہاتھ ایک جھٹکے سے چھوٹ گیا ۔مہر کے ہاتھ میں سے ایک شیشے کی بوتل ذمین پر گر کر ٹوٹ گئی ۔آنسہ کا وجود چند سیکنڈ تڑپا پھر سکون چھا گیا۔اسکی سوجھی ہوئی آنکھوں کی پتلیاں بے جان ہو گئیں۔
کھڑکی کے باہر ذور دار پٹاخے کے دھماکے سے تیز روشنی کمرے میں پھیل گئی ۔مہر کے منہ سے سفید جھاگ نکل رہی تھی۔آنکھوں کے کونے کچھ آنسوؤں کے موتی سنبھالے بے جان ہو چکے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply