سلگتی ذات(1)۔۔رمشا تبسّم

سلگتی ذات(1)۔۔رمشا تبسّم/فون کان سے لگائے وہ بالوں کو انگلی پر لپیٹنے میں مصروف تھی۔ فون پر رِنگ مسلسل سنائی دے رہی تھی اور اسکی نظریں گویا کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوئیں  بھی کچھ دیکھنے سے قاصر نظر آ رہی تھیں ۔

“ہیلو۔آداب عرض ہے”۔مردانہ آواز فون میں سے نکل کر اسکے کانوں کے پردے سے ٹکرائی اور وہ گویا کسی خواب سے ہوش میں آ گئی  ہو۔پھر کچھ سنبھل کر بولی
“آداب۔ہم بات کر رہے ہیں مہر بیگم”

“جی میں جانتا ہوں یہ خوبصورت آواز آپ کی ہی ہے”۔اس نے بات مکمل ہونے سے پہلے جملہ جوڑ دیا۔

“آپ کی رات کیسی رہی؟۔جو تحفہ کل رات آپ کی خدمت میں بھیجا گیا تھا وہ خاص آپ کی خاطر اتنے عرصے سے سنبھال رکھا تھا”۔ وہ سامنے موجود کھڑکی سے باہر کھلا آسمان اور ہرا بھرا باغیچہ دیکھتے ہوئے مخاطب تھی۔کھڑکی پر دانہ چگتے پرندے اس منظر کو حسین بنا رہے تھے۔

“تحفہ تو مجھے بہت پسند آیا۔سوچ رہے ہیں کچھ دن اس کو مزید رکھ لیں اب جتنا عرصہ یہاں قیام پذیر ہیں اسی سے دل بہلا لیں۔۔اس قسم کی اور اس عمر کی لڑکی کافی عرصے ۔۔۔ہمم۔۔۔ بلکہ شاید کئی  برس بعد میرے قریب آئی ہے”۔وہ کچھ سوچ کر ٹھہر ٹھہر کر مخاطب ہوا۔

“تو ٹھیک ہے۔کل رات کی قیمت آپ ادا کر چکے تھے۔باقی جو راتیں آپ رکھنا چاہیں میں آ کر اسکی قیمت وصول کر لیتی ہوں۔”وہ ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ سجائے بول رہی تھی۔

“آپ خود تشریف لائیں گی؟۔اس زحمت کی ضرورت نہیں ہم بھجوا دیں گے”
“نہیں ہم خود تشریف لانا چاہیں گے۔تاکہ اپنی لڑکی سے بھی کچھ بات کر سکیں۔ہم ایک گھنٹے بعد آپ کے گیسٹ ہاؤس میں ہونگے۔خدا حافط۔” اور اس نے فوراً  رسیور پٹخ دیا۔

کھڑکی پر بیٹھی چڑیا جو کچھ چگنے میں مگن تھی مہر نے فوراً ماہر شکاری کی طرح جھپٹ کر دبوچ لی۔ چڑیا مضبوط گرفت سے خود کو چھڑوا تو نہیں سکی البتہ چیخ چیخ کر اپنی بے بسی کا رونا مسلسل رو رہی تھی۔چڑیا کا دم عنقریب نکلنے ہی والا تھا۔اسکی چیخیں اب کم ہو رہی تھیں۔
“مہر بیگم گاڑی تیار ہے”.شکیلہ کمرے میں داخل ہوئی اور چڑیا کو اس طرح مہر کے ہاتھوں میں دیکھ کر حیرت زدہ ہو کر چیخ پڑی
“یہ کیا کر رہی ہیں آپ مہر بیگم؟”

مہر جو چڑیا کو دبوچ کر دانت پیستے ہوئے شیطانی ہنسی ہنس رہی تھی شکیلہ کی آواز پر چونک گئی  اور چڑیا سے گرفت کمزور ہوئی تو وہ ایک دم ہاتھوں سے آزاد ہو کر کھڑکی سے ٹکرائی اور نیچے کی طرف گرنے لگی ۔مہر نے کھڑکی سے نیچے دیکھا چڑیا ایک دم نیچے پڑے بینچ پر جا گری۔کچھ سیکنڈ اسکے جسم میں پھڑپھڑاہٹ رہی اور پھر اسکا جسم ساکت ہو گیا ۔مہر کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔مہر نے سپاٹ چہرے سے شکیلہ کو دیکھا اور زور سے کھڑکی کو بند کر کے کمرے سے باہر نکل گئی۔گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ڈرائیور کو چلنے کا کہا جس نے حکم کی تعمیل کی۔
ہلکی ہلکی بارش سے سڑکیں بھیگ چکی تھیں۔درختوں کے پتوں پر ٹھہرا پانی قطرہ قطرہ نیچے گر رہا تھا۔وہ کسی سوچ میں گم باہر دیکھ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سگریٹ پیتا تھا۔سگریٹ کی خاطر وہ ہر ایک سے الجھ پڑتا۔کچھ پاس رکھنا یاد رہے نہ  رہے مگر سگریٹ اور ماچس کو کبھی بھولتا نہ  تھا۔پہلے پہل مجھے گماں ہوا کہ سگریٹ اور ماچس ہی اسکی پہلی محبت ہیں ۔ہر بار وہ سگریٹ پینے کے لئے ماچس محبت سے نکالتا اور جلا لیتا۔ماچس کا تنکا ہمیشہ ہی اسکے ہاتھ میں جل کر سلگتا ہوا غرور سے جی اٹھتا پھر وہ سگریٹ سلگا کر تنکے کو جلتا ہوا زمین پر زور سے پھینک دیتا ۔تنکا یکدم ہی بجھ کر بے جان ہو جاتا ۔ اسکی روشنی, تپش اور غرور خاک میں مل جاتا۔ اور پھر سگریٹ کو بھی ہونٹوں سے لگا کر ختم ہونے پر وہ اسکو زمین پر پھینک کر پاؤں سے مسل دیتا۔یہ اسکی طبیعت تھی ہمیشہ ہی جس سے محبت کرتا محظوظ ہو کر اسکو زمین پر مسل کر اپنی ذات کو تسکین پہنچاتا۔اُس رات اسکے قدموں میں مسل دیئے جانے کی باری میری تھی۔ اس رات اسکی محبت کے غرور میں لمحہ بھر جی اٹھ کر زمین پر خاک ہونے کی باری میری تھی۔کیونکہ اس رات اسکے ہاتھوں مسل دیئے جانے کا سامان محض میں تھی۔

ہاں مگر اب جب وقت اذیت کے ہر لمحے کو اپنے پروں میں چھپا چکا ہے اب کی بار وقت کے قدموں تلے مسلے جانی کی باری اُسکی ہے۔اب آگ تنکے سے ہو کر سگریٹ کو نہیں سلگائے گی۔بلکہ اب آگ میری راکھ ہوئی ذات سے ہوتی ہوئی اسکی ذات کو سلگا دے گی۔اور وہ اپنی سلگتی ذات میں پھر کبھی ماچس اور سگریٹ کو مسلنے کے قابل نہ  رہے گا۔

یہی سوچتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے مہر بیگم نے گاڑی سے اتر کر گیسٹ ہاؤس کی بیل بجائی۔دربان نے گیٹ کھول کر دریافت کیا کہ  کون ہے؟

“اندر پیغام بھیج دیں کہ مہر بیگم خود تشریف لائی ہیں “۔مہر نے دیوار پر لگے نام کی تختی جس پر چوہدری ہشام الحق لکھا تھا اس کو دیکھتے ہوئے قدرے ناگواری سے کہا۔

دربان گیٹ بند کر کے اندر جا چکا تھا۔ کچھ دیر بعد دربان واپس آ کر مہر بیگم کو ادب سے اندر آنے کے لئے کہنے لگا۔

سرخ بنارسی ساڑھی میں ملبوس , کندھوں پر کالی شال ڈالے مہر حسن کا مجسمہ بنی اندر عالی شان گیسٹ ہاؤس میں داخل ہو ئی۔چلتے ہوئے مہر کو دربان کے کسی اشارے کی ضرورت نہ تھی وہ جیسے اس جگہ سے واقف تھی وہ اسکی اونچی اونچی دیواروں کو دیکھتی ہوئی صحیح سمت قدم اٹھا رہی تھی۔اچانک وہ ایک درخت کے پاس رکی

“یہ اب بھی یہاں ہے”؟ مہر نے حیرت سے پوچھا

“جی میڈم کیا کہا آپ نے؟ کون یہاں ہے اب بھی”؟ دربان نے حیرت سے دریافت کیا

مہر ایک دم پیچھے ہوئی۔ شال اس کے کندھے سے سِرک کر لٹک چکی تھی۔جس کو فوراً  اس نے واپس کندھے پر ڈال لیا۔

“کچھ نہیں ہمیں اندر جانا چاہیے “۔ مہر نے سرد مہری سے جواب دیا اور آگے کی طرف چل پڑی مگر پیچھے مڑ کر دو بار اس نے درخت کو دیکھا۔ جیسے اسکی نگاہیں کسی چیز کی تلاش میں تھیں۔

“آپ یہاں بیٹھیں۔ چوہدری صاحب تیار ہو کر تشریف لا رہے ہیں۔انہوں نے کہا ہے آپ کو آرام سے یہاں بیٹھایا جائے۔آپ چائے  پیئں گی یا کافی؟ میں ملازمہ سے کہے دیتا ہو ں،وہ حاضر کر دے گی۔” دربان نے جھکی نظروں سے مہر کو عالی شان ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا۔ جس میں اوپر سے نیچے کی طرف بل کھاتے زینے بھی موجود تھے ۔

مہر نے ہاتھ کے اشارے سے دربان کو جانے کا کہا۔اور وہ حکم ملتے ہی رخصت ہو گیا۔

مہر چلتے ہوئے دیوار پر لگی ایک تصویر کی طرف بڑھی۔تصویر انتہائی خوبصورت نوجوان کی تھی۔جو آنکھوں سے لے کر پاؤں تک سراپاء غرور تھا۔تصویر بے جان ہوتے ہوئے بھی کہہ رہی تھی کہ یہ نوجوان نظروں سے خاک کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔چھو کر برباد کرنے کی کشش رکھتا ہے۔ اور دو بول محبت کے بول کر اپنا اسیر کرنے کا جادو رکھتا ہے۔

مہر کی شال اسکے کندھے سے سرک کر کب زمین پر گر گئی  اسکو علم تک نہ ہوا۔مہر نے تصویر کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ قدموں کی آہٹ سنائی دی مہر نے ہاتھ کی انگلیاں بند کر کے ہاتھ واپس کھینچ لیا مگر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔کوئی انہی خوبصورت زینوں سے اتر کر اسکے پیچھے موجود تھا۔

“یہ میری ہی تصویر ہے چوہدری ہشام الحق کی۔” ایک خوبصورت کرخت آواز ڈرائنگ روم میں گونج اٹھی ،مہر نے آواز سنتے ہی آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لیا۔

بولنے والے نے شال اٹھا کر مہر کے کندھوں پر ڈالی کہ  مہر نے آنکھیں کھول دیں۔

“آج پہلی بار آپ سے آمنا سامنا ہو رہا ہے۔آپ مجھ غریب کے گھر کیسے تشریف لائیں؟آپ تو اپنی کوٹھی پر بھی ملنے سے گریزاں رہی ہیں۔کہ  ہم آج تک آپ کی خوبصورت آواز کے اسیر رہے یا یوں کہہ لیجیے  کہ آپ کی آواز کے اور نگاہوں کے اشاروں کے دیوانے اور آپ کو بِنا دیکھے ہی آپ کی شخصیت کے اسیر بھی۔ ” بولنے والا واپس مڑ چکا تھا۔مہر کو اسکے واپس مڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی تھی اور سامنے لگی تصویر کے شیشے میں اسکا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔
اس کے قدموں کی آہٹ بھی اسکے غرور کا پتہ دیتی تھی جو ابھی ابھی ایک عورت کی اسیری کا اعلان کر رہا تھا۔

“اب آپ آ ہی گئی  ہیں تو ایک بار دیدار کروا کر غریب کو زندگی جینے کی وجہ ہی عطا کر دیں ” طنزیہ مسکراہٹ بھرا جملہ مہر کے کانوں میں پڑا۔مہر کی آنکھ کے کسی کونے میں ایک آنسو لرز اٹھا جس کو مہر نے گرنے سے پہلے ہی واپس موڑ دیا ۔

“ہم اگر سامنے آگئے تو ممکن ہے کہ آپ کہیں کسی سے بھی سامنا کرنے سے کترانے لگیں  گے” ۔اور یہ کہتے ہی مہر نے ہاتھ سینے پر باندھ لیے ۔

خوبصورت آواز میں یہ جملہ سن کر چوہدری ہشام نے قہقہہ لگایا۔ “ہم آپ کا سامنا کرنے کے بعد کسی اور کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتے۔”
مہر کے چہرے پر یہ سن کر اب سنجیدگی چھا رہی تھی۔

ہال سے منسلک زینے سے کسی کے اترنے کی آواز آ رہی تھی ۔کچھ سیکنڈ بعد خوبصورت اٹھارہ سال کی لڑکی سفید فراک میں ملبوس چوڑی دار پاجامہ پہنے پائلوں کی چھن چھن کے ساتھ ہال کے درمیان میں ہشام کے برابر کھڑی تھی۔سرخ لپ اسٹک, آنکھوں میں بھرا کاجل, گلے میں پہنا خوبصورت سونے کا سیٹ اور گیلے بالوں میں کسی شہزادی کی مانند نظر آ رہی تھی۔بالوں کی نوکوں سے پانی کے قطرے اب بھی گر رہے تھے جو اسکی کمر کو گیلا کر رہے تھے جس سے اسکا سنہری جسم صاف نظر آ رہا تھا۔

“آداب آپا حضور ” وہ خوبصورت آواز میں ادب سے مہر سے گویا ہوئی جو سامنے لگی تصویر میں ہشام اور اس لڑکی کو صاف دیکھ رہی تھی۔

“آداب۔کیسی رہی آپ کی رات؟آپ جانتی ہیں چوہدری صاحب کچھ دن آپ کو مزید اپنے ساتھ رکھنے کا ارادہ کیے  بیٹھے ہیں۔کیونکہ آپ جانتی ہیں ہم زورزبردستی کے قائل نہیں۔لہذا آپ کی مرضی کے  بغیر ہم کوئی بھی فیصلہ نہیں کریں گے ” مہر نے دھیمے لہجے میں کہا۔

حسن کی دیوی بنی لڑکی نے چوہدری ہشام کو شرارت بھری نظروں سے دیکھا۔جو اس وقت صوفے پر بیٹھ کر سگریٹ جلانے میں مصروف تھا۔ہشام نے آنکھوں سے اشارہ کیا تو وہ گویا ہوئی

“آپا حضور ہمیں منظور ہے۔ہمیں کسی قسم کی دکت کا سامنا نہیں۔چوہدری صاحب نے ہمارا خاص خیال رکھا ہے ۔یہ دیکھیے  رات کا تحفہ ہمیں اس سونے کے ہار کی صورت میں ملا۔”وہ خوشی سے بولے جا رہی تھی۔

مہر نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اسکو خاموش کروایا۔وہ خاموش ہو گئی۔
کیا قیمت طے کئے بیٹھے ہیں چوہدری صاحب آپ ہمارے اس نگینے گی؟مہر کا لہجہ دھیما تھا۔

ہشام نے پیسوں کا لفافہ لڑکی کو دیا تاکہ وہ مہر تک پہنچا دے۔اور اس نے ایسا ہی کیا۔لفافہ پکڑا کر واپس صوفے کے برابر کھڑی ہوگئی۔

“کتنے روپے ہیں اس میں؟”

“دس لاکھ”۔سگریٹ کا کش لگاتا ہوا وہ کھڑا ہوا۔

“بس دس لاکھ؟”

“آپ کو کتنے چاہئیں  مہر بیگم اس حسن کے مجسمے کے”؟وہ لڑکی کے اتنا قریب کھڑا ہو کر بول رہا تھا کہ لڑکی کے سینے کا ابھار اسکے سینے کو چھو رہا تھا۔اور ہشام نے ایک بازو لڑکی کے گرد لپیٹا, کمر گیلے بالوں سے مکمل بھیگ چکی تھی۔لڑکی شرما کر سرخ ہو رہی تھی۔

“اسکی قیمت تو آج آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گی۔شاید  ہمارے چہرے پر لکھی ہو۔”مہر نے طنزیہ ہنسی ہنس کر ایک قدم پیچھے لیا اور پھر پیچھے چوہدری ہشام کی طرف مڑ گئی۔جو لڑکی کو ایک ہاتھ سے تھامے ہوئے اب بھی  سگریٹ کے  کش لینے میں مصروف تھا۔ سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے اس نے نظریں اٹھائیں اور سامنے کھڑی مہر بیگم کو دیکھتے ہی یکدم لڑکی کو خود سے دور کرتا ہوا چیخ پڑا۔

“تم اور یہاں؟”
“تم کس طرح مجھے تنہا چھوڑ سکتے ہو۔شامی پلیز خدا کے لئے۔یہ ظلم مت کرو۔تم نے جو کہا میں نے کیا۔تم ہمارا تعلق اس طرح کیسے لمحوں میں زمین بوس کر سکتے ہو” ۔وہ گاڑی کے باہر بھیگے ہوئے راستے پر کھڑی ہوئی گاڑی کے بند دروازے سے اندر بیٹھے شخص سے مخاطب تھی۔
شام کو خوب بارش ہوئی تھی۔درخت مکمل طور پر بھیگ چکے تھے۔دونوں اطراف موجود باغ پانی سے بھرے تھے۔سامنے موجود گیسٹ ہاؤس کی کھڑکی میں اندر جلتے آتش دان کو بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔جس کے شعلے محوِ رقص تھے۔

گاڑی میں بیٹھا پُر سکون وہ سگریٹ کے دھوئیں کو چھوڑنے میں مصروف تھا۔لڑکی نے گاڑی کے اَدھ کھلے شیشے سے ہاتھ اندر کر کے سگریٹ اسکے منہ سے نوچ لیا اور ہاتھوں میں دبا لیا۔سگریٹ کی آگ کی جلن ہتھیلی میں اسکو روح میں لگی آگ کی وجہ سے محسوس ہی نہیں ہوئی۔

وہ غصے سے سرخ ہو گیا۔اسکی آنکھوں میں شرارے صاف نظر آ رہے تھے۔اس نے جھٹکے سے دروازہ کھولا جو باہر کھڑی شانزے کو بری طرح لگا اور وہ زمین پر گر پڑی۔وہ اسکے قریب اترا اور چیخ کر بولا۔۔

“تم کیا سمجھتی ہو مجھے ؟ملازم ہوں تمہارا؟تم نے آج تک جتنی راتیں میرے نام کیں اتنا ہی سکون تم نے بھی پایا۔جسم کی خواہش میری پوری ہوئی تو جوانی کی آگ تم نے بھی بجھائی تو اب کیوں یہاں بیچاری بنی چیخ رہی ہو؟” وہ اسکو دبوچ کر زمین سے اٹھا رہا تھا۔وہ برف کا بُت بنی صرف روئے جارہی تھی۔

“شامی پلیز خدارا یہ ظلم مت کرو۔میں کہاں جاؤں گی؟ اپنا گھر چھوڑ آئی، رشتوں کو جیتے جی مار آئی۔اب کچھ بھی نہیں میرے پاس خدارا مجھے یوں تنہا مت چھوڑو۔تم نے وعدہ کیا تھا شادی کا اور اب۔ ۔ ۔ ” وہ بے بسی کی تصویر بنی سامنے کھڑے سفاک شخص میں کسی مہربان کا عکس ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔

“اب کیا ؟؟ بولو کیا اب؟ عجیب عذاب بن گئی  ہو تم میرے لئے۔نہیں کرتا شادی جو کرنا ہے کر لو؟” وہ سکون سے گاڑی سے سگریٹ کی ڈبیہ نکال کر اب گاڑی سے ٹیک لگا کر ایک ٹانگ موڑ کر گاڑی کے دروازے پر رکھے غرور سے کھڑا پھر سے ماچس سے سگریٹ سلگا رہا تھا۔ماچس کا تنکا بھڑک اٹھا سگریٹ جلا کر اس نے تنکے کو زمین پر پھینک دیا جو نیچے جمع ہوئے تھوڑے سے پانی میں گرنے سے پہلے ہی بجھ گیا تھا۔

وہ اسکی طرف تیزی سے بڑھی۔اسکو کندھے سے تھام کر بے بسی سے بولی “شامی نکاح کر لو مجھ سے خدا کے لئے۔بس نکاح کر لو۔کسی جھونپڑی میں رکھ لو۔ملازمہ بنا لو بس اپنا نام دے دو شامی خدا کے لئے” ۔وہ روتے ہوئے اسکے قدموں میں بیٹھ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply