خود کلامی

خود کلامی
تنویر احمد
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں اور اس دوڑ میں تشکیک اور تذبذب کا شکار ذہن
محبتوں اور اخلاص کی کمی پر نوحہ کناں ہے
اس معاشرے کی بےحسی اور انسانی اقدار کی پامالی پر نالاں ہے
جب خواب خود کلامی سے بہلنا شروع کردیں تو آنکھوں کے دریچوں میں ظلمتوں کے ڈیرے جمنا شروع ہو جاتے ہیں اور آنگن میں آگے چنبیلی کے پھولوں پر سانپوں کی آمد رفت کے سلسلے  طویل ہو جاتے ہیں آخر میں اسکا خراج ان پھولوں کو ادا کرنا پڑ جاتا ہے جو کبھی زہر کا تریاق کہلاتے ہیں مگر پھر رفتہ رفتہ تریاق کا زہر بن جاتے ہیں
استاد محترم پروفیسر محمد اشرف صاحب (مرحوم) اللہ انہیں غریق رحمت کرے ایک بہت خوبصورت بات کہہ گئے ہیں کہ
فکر و تنہائی کا دریا دور تک پھیلا ہوا !
اور میں گرتا رہا کٹ کٹ کے کناروں کی طرح !
جب جذبوں میں سوداگری اور محبتوں میں خودغرضی شامل ہو جائے
تو خیال کی زرخیز زمینوں کو بنجر ہونے سے روکنے کیلئے صدقے کی دیگیں بھی کم پڑ جاتی ہیں
خواب بونے اور تعبیریں کاٹنے کی دھن میں مگن میری دل گلی کے تمام مکین اس قدر بےحسی کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کو پچھلی گلی کے کسی بھی جذبے کی مصلوب ہونے کی چیخیں سنائی ہی نہیں دیتیں ،
میری تمام محرومیاں اور ناآسودگیا جب بھی کبھی زیب داستان ہوں گی اسمیں میری بےحسی اور میرے پڑوسی کی بےبسی کا ذکر ضرور آئے گا
بے بسی کا علاج تو دعا سے بھی ممکن ہے لیکن بےحسی کیا علاج کیا ہوگا
میری بے حسی مجھے نیند کی گولیاں کھلا کر میرے ساتھ ساتھ میرے ضمیر کو بھی لمبی نیند سلانے میں کامیاب ہو گئی ہے
میرے فنکار جو کبھی سفید کینوس پر شنگرفی رنگ بکھیرا کرتے تھے
آج خون کی بو اور بارود کے دھوئیں نے انکی بینائی کے ریشوں کو اتنا کمزور کر دیا ھے کہ آنکھوں کا  فالج ہونے کا گمان ہوتا ہے
نقصان ہو گیا اور مزید نقصان کا اندیشہ ہے 
جب تک ہم اس بات کو تسلیم نہیں کریں کہ
خیر عطا ہے خیر کا مسلک ہی خیر ہے خیر کا مذہب ہی خیر ہے خیر الہام کی طرح وارد ہوتا ہے خیر دعا کی طرح دل سے نکلتا ہے
لیکن شر کو جھیلنا پڑتا ہے شر کو بھی جینا پڑتا ہے۔
سوچ لو کس سمت جانا ہے اور کس کیساتھ جانا ہے

Facebook Comments

تنویر احمد
میں بس اس وقت لاجواب ھوا !!!! جب کسی نے کہا کہ کون ھو تم !!!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply