تصورِ ذات کے اختیار کا موسم۔۔تنویر سجیل

تصورِ ذات کے اختیار کا موسم۔۔تنویر سجیل/آپ نے اکثر لوگوں کو اپنے بارے  میں یہ  کہتے   سنا ہو گا کہ میری تربیت ہی ایسی ہوئی ہے  مجھے  ماحول ہی ایسا ملا تھا میرے والدین نے مجھے یہی سکھایا ہے میرے حالات ہی ایسے تھے میرے دوست احباب بھی میرے جیسے ہی تھے میرے پاس کوئی اختیار ہی نہ تھا میرے بس میں کچھ بھی نہ تھا ۔

آپ جب بھی کسی کو ایسا کہتے سنیں تو سمجھ لیجیے  کہ وہ شخص آپ سے ہمدردی کا خواہاں ہے مگر اس  سے ہمدردی ہرگز مت کیجیے،  اس کو اپنے فسوں میں مت رہنے دیجیے، اس کو جگایئے  اس کو جھنجھوڑیئے اور دکھ درد اور بے بسی کی جس دنیا کو وہ اپنی حقیقت مان چکا ہے  اس دنیا سے اس کا انتقال حقیقی دنیا میں کروائیے  کیونکہ زندگی اپنی ذمہ داری پر جینے کا نام ہے  جس میں دوسرے  لوگوں ، حالات  اور ماحول کو ساری ذمہ داری سونپ کر خود ترسی  اور خدا ترسی کی رغبت اپنی ذمہ داری سے انکار خود فریبی کی ایک قِسم ہے۔

یہ  بات درست ہے کہ ذمہ داری بھی تب ہی  نبھائی جاسکتی ہے جب آپ کے پاس کچھ اختیار ہو، جب آپ کچھ کرنا چاہتے ہوں،  تو کوئی رکاوٹ نہ ہو، مگر یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ بے اختیاری کا موسم عمر بھر ایک جیسا نہیں رہتا ،یہ ضرور ہے کہ بچپن اور لڑکپن میں آپ ماں باپ اور فیملی کے فیصلوں اور اختیار  کے محتاج ہوتے ہیں اور ان سے انحراف یا اختلاف کی طاقت نہیں رکھتے،  کہ آپ اپنی مرضی کرتے ہوئے اپنی زندگی کی ذمہ داری قبول کریں اور اپنی صلاحیتوں اور قابلیت  کے جوہر دکھاتے ہوئے زمانے میں اپنی پہچان پیدا کر لیں، مگر بے اختیاری کا یہ جبر بھی تو ایک خاص عمر تک ہوتا ہے اور باقی عمر آپ کے پاس اتنا اختیار  تو ہوتا ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری سے زندگی کے معاملات پر اختیار رکھتے ہوں اور وہ بن جائیں جس کے لئے آپ نے جنم لیا ہوتا ہے۔

یہ بات شاید آپ کوآسانی سے  سمجھ  میں نہیں آئے گی اور بار بار اصرار ہو سکتا ہے کہ میرے بس میں کچھ نہیں تھا میں دوسروں کے فیصلوں اور نظر کرم کے حصار میں رہا ،جس کو میں چاہتے  ہوئے  بھی ختم نہیں کر سکا اور اب ایک جوان آدمی کی صورت میں کسی بھی قسم کی ذمہ داری کے قابل نہیں رہا،مگر یہ بات بھی شاید سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے کہ آپ کے پاس تب بھی اختیار  تھا کہ آپ خود کو اس قابل بنا سکیں کہ آج یہ جملہ معترضہ  کہتے  نظر  نہ آتے ،کہ” میرے اختیار میں کچھ نہیں تھا”۔ ذرا سوچیے، اس وقت کو کہ آپ کے پاس کتنے ایسے  آپشنز تھے جن کو آپ چُن سکتے تھے اور اس محدود اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی اختیار کی لذت سے لطف لے سکتے تھے۔

بچپن سے ہی آپ کے پاس اتنا اختیار ہوتا ہے کہ آپ  اپنی مرضی کر سکیں  جس کے لیےتعلیمی ادارے بہترین نرسری ہوتی ہیں جہاں پرآپ اپنے اختیار کا بھرپور استعمال کر سکتے تھے، تعلیمی سفر میں ہی وہ مواقع دستیاب ہوتے ہیں جب آپ  اپنی ذات کی پہچان کر پاتے ہیں اور اپنی قابلیت کے جوہر دکھا سکتے ہیں اگر تب آپ ہمت کرتے تو اس نرسری میں اپنی ذات کو اتنا بلند کر پاتے کہ آپ کو آنے والی زندگی میں دوسروں کے فیصلوں اور ڈائریکشن کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کیوں کہ تعلیمی سفر کے دوران دکھائے  گئے  ٹیلنٹ آہستہ آہستہ والدین اور فیملی کو یہ باور کروا دیتے ہیں کہ آپ کو ان کی زبردستی کی ڈائریکشن کی ضرورت  نہیں ہے اور اپنا کیریئر اور لائف گول حاصل کرنے کے لیے سب اختیار  آپ کے  ٹیلنٹ قابلیت اور صلاحیت ہی طے کریں گے جن کا آپ اس وقت تک اظہار کر چکے ہوتے ہیں۔

اگر آپ کہتے ہیں کہ تب بھی آپ انجانے خوف کی وجہ سے اپنی صلاحیت کو نہیں آزما سکے تعلیمی سرگرمیوں کے پریشر کی وجہ سے قابلیت کے جوہر دکھانے کے قابل نہیں تھے تو پھر بھی یہ بات تو اب بھی یقینی ہے کہ  وہ ٹیلنٹ اور قابلیت آپ کے اندر سے کہیں گئی نہیں ہے ،وہ اب بھی آپ میں  موجود ہے آپ اب بھی  اس کا حق ادا کر سکتے ہیں، مگر تب بھی شاید آپ نے خود پر بھروسہ نہیں کیا ہو گا تب بھی وہم کاوار چل گیا ہو گا تب بھی ہمت کا آپ نے ہی ساتھ چھوڑ دیا ہو گا اور ان بے شمارموقعوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہوگا اور آج اپنی  ناکامی  اور بے سروپا   خالی پن  کا پرچار کر رہے ہیں۔

دراصل ہماری ناکامی، خالی پن اور فضول پن کی سب سے بڑی وجہ ہم  خود ہی ہوتے ہیں، ہم خود کو اتنی زحمت نہیں دیتے کہ اپنی ذات کے اندر ایک غوطہ لگا سکیں اور جان سکیں کہ ہم ہیں کیا ؟ ہماری ذات کا جو تصور ہم نے بنایا ہوا ہے کیا وہی ہمارا حقیقی تصور ذات  ہے یا پھر  ہم ایک ایسے وہم یا غیر ذمہ داری کو اپنا  تصور ذات بنا  چکے ہیں جو ہمارے خوف کو وقتی طور پرکم کرنے کے لئے ہے۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ ہماری ناکامی کے ذمہ دار والدین ،فیملی اور تعلیمی ادارے ہیں ،تو سوال تو پھر بھی وہی ہوگا کہ ان تینوں عناصر میں سے کسی بھی فرد واحد نے کبھی آپ کا حوصلہ نہیں بڑھایا ؟کہ آپ اپنے آپ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی قابلیت اور ٹیلنٹ کو وقت دیں اور اس کو نکھارتے ہوئے   ہراس سٹیج پرچڑھ دوڑیں جو آپ کی قابلیت و صلاحیت کی پرفارمنس کے لیے بنا تھا  اور وہاں آپ سب بھول کر صرف اپنی بھرپور پرفارمنس دیتے اور داد وصول پاتے اور آنے والے وقت کے لئے خود کی تربیت  کر سکتے۔

حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ سب تب بھی آپ کے ذہن میں نہیں آیا ہوگا تب بھی کسی مہربان نے آپ کی راہ آسان نہ کی ہوگی جو آپ کی رہنمائی کر سکے تو پھر بھی ایک ایسا شخص ہے اس دنیا میں جو آپ کے درد  کو سمجھتا   ہے،وہ   شخص کوئی اور نہیں ہے صرف اور صرف  آپ خود ہی ہیں  جو آپ کی حقیقی معنوں میں مدد کر سکتا ہے اور اپنی  ذمہ داری قبول کر سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو گا اور اس کا جواب آپ کو صرف ایک گھنٹے کے قلیل وقت میں مل سکتا ہے ,جی ہاں صرف ایک گھنٹہ ..دنیا جہاں کو چھوڑ دیں اپنے اندر ایک ڈبکی لگائیں اور کاغذ پر وہ سب لکھ ڈالیں  جو  آپ حقیقی طور پر ہیں ،اپنی ذات کی اس حقیقت کو ڈھونڈ لیں جو آپ کے لیے ہی قدرت نے ڈیزائن کرکے آپ کے اندرفکس کی  ہے ،بس اس  تصور ِ ذات  کو قابو کر لیں تو آپ کو اپنی قابلیت کے جوہر بھی مل جائیں گے تب آپ کو وہ اسٹیج بھی نظر آ جائے  گی  جہاں پر آپ اپنی پرفارمنس دکھا سکیں گے۔

اب ضرورت صرف اتنی ہے کہ آپ اپنی زندگی میں اس ایک گھنٹے کا وقت نکال لیں پھر اس کے مطابق زندگی کی راہوں کو چُن لیں کیونکہ اب صرف ایک ڈائریکشن کی ضرورت ہے اس سڑک کی ضرورت ہے جو آپ کو اپنی منزل کی طرف لے کر جائے گی، جس پر شاید آپ کی زندگی میں موجود لوگ ہمسفر نہ ہوں گے مگر نئے  ہمسفرضرور ہوں گے۔

اس وقت آپ کو صرف خود پر بھروسہ کرنا ہے اور خود کو اس فکر سے آزاد کرنا ہے جو آپ کو وہم اور خوف کی طرف دھکیل دے  اور سب سے بڑھ کر دوسروں کی زندگی کے سفر کو نہیں دیکھنا اور نہ ہی ان کے سفر سے اپنے سفر کا موازنہ کرناہے کیوں کہ سب کی سڑک بھی جدا ہے اور سفر بھی جدا  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی میں سب سے بڑی تسکین صرف اسی بات میں ہوتی ہے کہ آپ اپنی زندگی اپنی ذات  کے حقیقی تصور کے ساتھ گزار رہے ہوں، اگر آپ اس  تصورِ ذات سے ہٹ کر زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے تو پھر خود کو تیار رکھیں ان نفسیاتی اور جذباتی ایشوز کے لئے جو ہر بار آپ کی راہ میں کھڑے ہوں گے ،جو مسائل کو بڑھائیں گے جو آپ کو اس وہم میں مبتلا کریں گے کہ  آپ کے پاس اختیار نہیں تھا جو آپ کی اس دلفریبی  کو بھی    بڑھائیں گے کہ آپ دوسروں کے محتاج تھے   اور ابھی بھی ہیں مگر وہ ایک گھنٹہ آپ کو سمجھا سکتا ہے کہ آپ نے ہی اپنی ذمہ داری نہ لی تھی ورنہ تو زندگی خوشی سے جی  جاسکتی تھی۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply