ڈرامہ جلن سے آخر سب کو جلن کیا ہے؟۔۔۔رمشا تبسم

ہمارے بچپن میں ہم نے پاکستان میں پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کا زوال اور انڈین ڈرامہ انڈسٹری کا عروج دیکھا۔ اس زوال کی وجہ ایکتا کپور کے ڈرامے تھے۔سٹار پلس کی وہ کہانیاں جن کو دس دس سال بہت آرام سے گھسیٹ کر بغیر کہانی کے چلایا جا رہا تھا عوام میں کافی مقبول تھیں۔ سرحدوں کی لڑائی میں جب اکثر انڈین چینل بندش کا شکار ہوتے تو کیبل آپریٹر بڑی مہارت سے ان ڈراموں کو ریکارڈ کرتے اور ایک مخصوص وقت میں پورا پورا دن سی۔ڈی پر چلا دیتے اور خواتین اپنی پوری توجہ سے یہ ڈرامے نہ صرف دیکھتی بلکہ انکا فیشن دیکھ کر کاپی کرتیں  اور انہی کی طرح سسرال میں سازشوں کا سوچتی ,رشتوں میں دڑاڑ ڈالنے کی کوشش کرتیں ۔یہ وہ کہانیاں تھیں جو بغیر کسی خاص مقصد,بغیر کسی مثبت پیغام,بغیر موضوع کے بنائی اور چلائی جا رہی تھیں۔جہاں ہر کہانی میں ایک ہی عورت کی کئی کئی شادیاں دکھائی جاتیں  حتی کہ  اپنے ہی شوہر سے  دس  بار طلاق لیتی اور دس  بار واپس شادی کرتی۔ہر کہانی میں ناجائز بچوں کا کردار لازمی ہوتا۔ یہ ڈرامے پاکستان میں انتہائی مقبول ہوئے اور خواتین اپنے کام کاج چھوڑ کر ان پر توجہ دیتیں۔اور سٹار پلس کی بندش پر جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکومت کو بد دعا ئیں بھی دیتیں۔اسی سٹار پلس کے شوق میں پاکستان میں ٹیوشن سینٹر کا رواج زور پکڑتا گیا۔ خواتین کو کُم کُم کی ساڑھی,ساس بھی کبھی بہو کی سازشیں, کسوٹی زندگی کی کئی شادیاں,کہانی گھر گھر کی کہانیاں دیکھنی ہوتی تھیں لہذا بچوں کو ٹیوشن بھیج کر وہ بہت آرام سے تمام وہ ریپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھتیں جو رات کو ڈنر کی تیاری کی وجہ سے برباد ہو جاتے۔۔دوسری طرف  مرد حضرات نے کبھی ان ڈراموں کی بندش کا مطالبہ نہیں کیا نہ ہی اپنے گھر سے کیبل اتروائی۔یہ واہیات ڈرامے ایک طویل عرصہ ہر پاکستانی گھر کی زینت رہے اور ہر گھر میں انکے گانوں کی آواز گونجتی رہی۔ان کی پوجا کے مناظر کو آواز بند کر کے دیکھ لیا جاتا تھا کہ  کہیں کافروں کے بھجن   ہمارے گھر میں نہ گونجنے لگیں ، ہاں سننے سے کفرمحسوس ہوتا تھا مگر دیکھنا پھر بھی جائز تھا۔ مگر کسی کے نہ تو اسلام کو خطرہ ہوا،نہ بچوں کی پرورش کو،نہ انکی خواتین کے کردار کو،نہ ہی کسی بھی واہیات منظر یا کہانی سے انکی سوچ اور گھر کو کسی قسم کا کبھی خطرہ لاحق ہوا۔سٹار پلس کے بے شمار عاشق آج بھی اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ  ان سے یہ انٹرٹینمنٹ چھین کر زیادتی کی گئی ۔ لیکن  یو۔ٹیوب پر کسی نہ کسی طرح اب بھی یہ ڈرامے دیکھنے کی جدو جہد جاری ہے۔

مگر دوسری طرف ہماری عوام کو ہمارے ہی چینل کی اور رائٹرز کی محنت اور کام ہمیشہ ہی واہیات لگتے ہیں۔یا پھر شاید پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کی ترقی سے ایک خاص قسم کی جلن ہے۔اس عوام کی سوچ کا اندازہ اس  بات سے لگا لیں کہ  والدین خود اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں ناکام ہوتے نظر آئے تو عدالت سے رجوع کر لیا کہ بچوں کے کارٹون ڈوریمون بند کر دیئے جائیں کیونکہ ایک تو وہ ہر وقت لگے رہتے ہیں اور دوسرا  اس کارٹون کے کردار پڑھائی میں نالائق ہیں لہذا ہمارے بچوں کے ذہنوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔
تو یہ ہماری عوام کسی ڈرامے کی کہانی کو کیا قبول کرے گی جبکہ وہ کارٹون کو بھی قبول کرنے میں ناکام ہے۔

اے۔آر۔ وائی پر ڈرامہ سیریل جلن جس کا اسکرپٹ معروف لکھاری، شاعرہ اور ڈرامہ نگار سدرہ سحر عمران کا تحریر کردہ ہے کے دو ٹیزرز جاری کیے گئے جس میں مشا اور نشا دو بہنوں کو دکھایا گیا اور نشا اپنی بہن مشا کے شوہر کے ساتھ تعلقات میں دکھائی دی گئی ۔ تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ایسا محسوس ہوا ڈرامہ جلن نے ایسی آگ بھڑکا دی ہے کہ  سب ہی جل کر راکھ ہونے لگے ہیں۔ٹویٹر پر واہیات ڈرامے کا ٹرینڈ شروع ہو گیا۔سوشل میڈیا پر پاکستان کے تمام ڈرامے نکال کر تنقید کرنا شروع کر دی گئی۔گویا ہماری ڈرامہ انڈسٹری اور رائٹر انتہائی ناکام اور نا اہل ہیں محض اس لئے کہ  وہ کسی بھی ڈرامہ میں ایک عورت کی دس بیس شادیاں  کروانے,ناجائز بچے ڈالنے,بے جا فیشن دکھانے, محبت کے عجیب رنگ دکھانے ,گھریلو سازشیں دکھانے اور رشتے برباد کرنے کی بجائے بلکہ وہ کسی معاشرتی برائی یا انسانی رویے کو دکھاتے ہیں۔جس کا منظر عام پر آنا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ہم سب ہر برائی اور ہر سماجی,معاشرتی اور انسانی مسئلے سے آگاہ رہیں۔

کچھ سال پہلے ڈرامہ “اڈاری” ہم ٹی وی نیٹ ورک پر پیش کیا گیا۔جہاں ایک امتیاز نامی شخص اپنی سوتیلی بیٹی سے بد فعلی کرتا ہے۔اس ڈرامے  پر  تنقید کرنے والوں نے کہا، باپ حیسے مقدس رشتے کی توہین ہے۔جبکہ اب ہم آئے روز کسی نہ کسی حقیقی باپ کے ہاتھوں بیٹی کا برباد ہونا سنتے ہیں ۔یا اس سے جسم فروشی کرواتا دیکھتے ہیں۔

ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو پر  تنقید کی  گئی  کیونکہ اس میں ایک خاص عورت جو پیسے کی خاطر غیر مرد سے ناجائز تعلقات میں ہوتی ہے اسکو دو ٹکے کی کہا گیا۔حتی کہ  اس کہانی میں بھی ایک اچھا مرد تھا ایک برا مرد۔ایک عورت ان دونوں مرد حضرات میں سے برے کو چنتی ہے۔مگر عوام نے کہانی کو اہمیت نہ دیتے ہوئے بس دو ٹکے کی عورت والے ڈائیلاگ پر تمام تر توجہ مرکوز کی اور ڈرامے پر تنقید کی۔
مگر عوام کو سمجھنا ہو گا کسی زمانے میں ڈرامے فینٹسی ہوا کرتے تھے۔کوئی خیالی محبت یا جذباتی کہانی ہو سکتی تھی۔
مگر اب ڈرامے ہمارے آس پاس ہوتے واقعات سے جنم لیتے ہیں۔لکھاری جو دیکھ رہا ہوتا ہے, سن رہا ہوتا ہے, جس معاشرے میں رہ رہا ہوتا ہے اسی میں سے کہانیاں نکالتا ہے جو چاہے سو فیصد صحیح نہ ہوں مگر سو فیصد غلط بھی نہیں ہوتیں۔

ڈرامہ جلن سے عوام کو جلن کیا ہے اس بات کو سمجھنا ہمارے بس میں نہیں کیونکہ بے جا تنقید کی وجہ کوئی نہیں ہوتی یہ محض جذباتی بیان بازی ہوتی ہے اور ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی غرض سے ٹرینڈ فالو کرتا ہوا تنقید کی دوڑ میں بغیر دلیل اور تصدیق شامل ہو جاتا ہے۔صرف دو ٹیزر دیکھ کر ڈرامہ جلن کو واہیات قرار دینے والی عوام اب اس ڈرامے میں سے کوئی مثبت پیغام اخذ کر ہی نہیں سکے گی۔کیونکہ حتمی رائے رکھنے والوں سے نہ تو بحث کا فائدہ ہوتا ہے نہ ان سے ان کی سوچ میں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔جلن کے بارے میں بھی عوام کی رائے حتمی ہے کہ  یہ سالی اور بہنوئی کے عشق کی داستان ہے۔لہذا یہ ایک واہیات ڈرامہ ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ  ڈرامہ صرف ان دو کرداروں پر نہیں بلکہ کئی کرداروں پر مشتمل  ہے۔ اور ان کرداروں کی ذات, وجود, سوچ, مثبت اور منفی پہلوؤں پر ہے۔مگر عوام سالی بہنوئی پر اٹک کر رہ گئی  ہے۔ٹیزر سے بھی صاف یہی ظاہر تھا سالی اپنے بہنوئی کو کسی طرح جال میں پھنسا رہی ہے ۔مگر عوام نے جس طرح دو ٹکے کی عورت میں عورت کا منفی کردار نظر انداز کیا اسی طرح جلن ڈرامے میں بھی سالی کا کردار نظر انداز کر کے تمام تر توجہ بہنوئی پر دی اور ڈرامے کو بہنوئی کا سالی سے چکر کے نام سے مشہور کر دیا۔کہ  سالی پر بری نظر رکھی ہے حتی کہ  ابھی تک ٹیزر اور دو اقساط سے ایسا کچھ ظاہر نہیں ہوا کہ  اس ڈرامے کا مرکز بہنوئی کا سالی سے یا سالی کا بہنوئی سے عشق ہے بلکہ مرکز ایک انسان کی فطرتی کیفیت “حسد اور جلن” ہے۔جو شدت اختیار کر جائے تو انسان نہ صرف دوسروں کو برباد کردیتا ہے بلکہ خود کی بربادی کا بھی ذمہ دار بن جاتا ہے۔

یہاں ایک گروہ کی اجتماعی سوچ کا بہت عمل دخل ہے۔وہ گروہ جو عورت کو ہمیشہ ستی ساوتری سمجھتا ہے اور کسی بھی صورت اس پر حرف نہیں آنے دے سکتا۔لہذا وہ چاہے میرے پاس تم ہو کی مہوش ہو یا جلن ڈرامہ کی نشا۔ قصور مرد کا ہی دکھایا جائے تو بہتر ہے۔ورنہ عورت تو میرا جسم میری مرضی کی مالک ہے۔جیسا کے جیو انٹرٹینمنٹ کا ڈرامہ راز الفت جس میں ایک لڑکی اپنے باپ سے ہر صورت یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت چاہتی تھی۔اور باپ اپنے اصولوں سے مجبور لڑکے اور لڑکیوں کا ساتھ پڑھنا غیر مناسب سمجھتا ہے۔یہاں پر باپ کا کردار تنگ نظر دکھایا گیا۔مگر یہی باپ بیٹی کو اجازت دیتا ہے اور یونیورسٹی چھوڑ کر بھی آتا ہے اور لینے بھی جاتا ہے ۔اور یہی بیٹی باپ کو دھوکہ دے کر پڑھائی کے بہانے گھر سے غائب رہتی ہے۔رات کو دو بجے تک لڑکے کے ساتھ باہر رہتی ہے ۔مگر یہاں کسی کو ٹرینڈ یاد نہیں آیا کے یہ نوجوان نسل کو آوارگی کا درس دیا جا رہا ہے۔لڑکیوں کو گھر سے باہر لڑکوں کے ساتھ وقت گزارنے کے نت نئے طریقے سیکھائے جا رہے ہیں۔بلکہ یہاں ممکل طور پر لڑکی کو باپ کے اصولوں سے مجبور دکھایا گیا ہے اور آزادی کا مطلب ہے باپ سے جھوٹ بول کر غیر مرد کے ساتھ باہر گھومنا پھرنا اور پارٹی کرنا مگر نہ معاشرہ بگڑا نہ لڑکیوں کی تربیت خطرے میں آئی اور نہ ہی واہیات ڈرامہ سمجھا گیا۔کیونکہ یہاں میرا جسم میری مرضی والا گروہ مکمل طور پر مطمئن ہے۔
اب اگر کسی بھی صورت کسی بھی ڈرامے میں عورت کا منفی کردار دکھا دیا جائے تو اسی گروہ کے لئے وہ قابل قبول نہیں ہوتا۔
حتی کے جلن ڈرامہ سالی بہنوئی کے افئیر کے علاوہ بہت سے پہلو رکھتا ہے۔
مثلاً نشا ایک حاسد لڑکی ہے ۔جس کو اپنے سونے کے نوالے سے  زیادہ بہن کے خاک کے نوالے سے غرض ہے۔
جس کو کوئی چیز اس لئے نہیں چاہیے کیونکہ اسکو اس سے محبت ہے یا پسند ہے بلکہ محض اس لئے چاہیے کیونکہ وہ اسکی بہن کی ہے۔
یہ حسد اور جلن بہن کے کپڑوں سے لیکر اسکی شادی شدہ زندگی کی خوشحالی تک جاری رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کے نشا کو مشا کے شوہر سے محبت نہیں بلکہ حسد اور جلن ہے اور وہ اس جلن میں سب کچھ کرنے کو تیار ہو جائے گی۔
نشا ایک نفسیاتی مسائل کا شکار لڑکی ہے۔جس پر گھر والوں نے کبھی غور نہیں کیا۔نہ اسکو کبھی روکا گیا۔لہذا یہ نفسیاتی مسئلہ بڑھ چکا ہے اور اب وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔کیونکہ ابھی ڈرامہ کی صرف پہلی دو اقساط ہی آن ائیر کی گئی  ہیں لہذا ڈرامہ مکمل ہونے سے پہلے اس کو شدید تنقید کرنا محض اسلئے کے ایک عورت کا کردار منفی دکھایا جا رہا ہے انتہائی غلط ہے۔جبکہ ممکن ہے اختتام تک نشا کے نفسیاتی مرض سے بھی پردہ اٹھ جائے اور یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ محبت کی بجائے یہ حسد,جلن,ضد اور انا کا ڈرامہ تھا۔لہذا حتمی رائے کسی بھی پروجیکٹ کے اختتام سے پہلے قائم کرنا سراسر تنگ نظری تصور کیا جاتا ہے۔
ڈرامے کو عوام نےکیونکہ محض سالی بہنوئی تک مخصوص کر کے تنفید کرنا شروع کر دیا ہے لہذا ذرا ڈرامے سے ہٹ کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھیں ایسے کئ حقیقی واقعات آپ کی نظر سے گزرے گے اور ڈرامہ انہی حقیقی وقعات کو ڈرامائی رنگ دے کر تخلیق کیا جاتا ہے۔
ایک دو کیسزز شئیر کرنا چاہوں گی جس سے آپ کو ڈرامہ واہیات نہیں لگے گا بلکہ وہ معاشرہ واہیات لگے گا جس میں آپ سانس لیتے ہیں جس کا حصہ ہو کر آپ دوسروں پر واہیات ہونے کے فتوے لگاتے ہیں۔لہذا آپ کو احساس ہو گا کہ ڈرامہ واہیات نہیں بلکہ ہم سب نے معاشرت اتنا واہیات کر دیا ہے کے اس معاشرے کے حقیقی رنگ دکھانے والے ڈرامے یا رائٹر ہمیں واہیات لگنے لگتے ہیں کیونکہ انکی کہانیوں میں ہمیں اپنے معاشرے کا گندہ چہرہ نظر آتا ہے.مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ رائٹر بھی اسی گندے معاشرے کا حصہ ہے اور انہی واقعات کو دیکھ رہا ہوتا ہے جس پر ہم اکثر شرمندہ ہوتے ہیں اور اکثر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔مگر رائٹر کا قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ کھل کر ان واقعات کو سامنے لاتا ہے اور ہم چھپ کر گناہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر انہی گناہوں کو جب ڈرامہ میں دکھا دیا جاتا ہے تو ہمیں رائٹر اور ڈرامہ واہیان لگنے لگتا ہے۔

فروری 2013 میں عدنان نامی شخص اور اسکی اہلیہ انم کے حق میں عدالت نے فیصلہ سنایا۔والد محمد ریاض نے عدنان پر انم کو اغوا کرنے اور زبردستی شادی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم ، انم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس نے اپنی مرضی سے محبت کی شادی کرلی ہے۔
عدنان کی سابقہ دو بیویوں نے عدالت سے باہر آتے ہی اس پر حملہ کر کے اسکو مارا پیٹا۔انم ہر صورت شوہر کے ساتھ جانے کو تیار تھی۔معاملہ اب کچھ یوں تھا کے عدنان کی تینوں بیویاں آپس میں بہنیں تھیں۔پہلی بیوی تبسم تھی جسکو طلاق دے کر اس نے تبسم کی دوسری بہن تہمینہ سے شادی کی۔اور اب اس کو طلاق دے کر تیسری بہن انم سے شادی کی۔ہر ایک سے شادی محبت کی بنیاد پر تھی اور ظاہر ہے محبت دو طرفہ ہی ہو گی اسی وجہ سے بہن کی طلاق کے بعد دوسری بہن فوراً رضامند پائی گئ۔اور حتی کے انم بھی ہر صورت عدنان کے ساتھ جانا چاہتی تھی جبکہ اسکی دو بہنیں اسی عدنان کے نکاح میں رہ چکی تھیں۔لہذا یہاں ایک بہنوئی سے مختلف ادوار میں ہر سالی کو محبت ہوئی۔یا پھر بہنوئی کو ہی ہر دور میں اپنی ہی جوان ہوتی سالی پسند آ جاتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

2009 میں کچی آبادی لاہور میں ریلوے کالونی میں ایک سمیرا نامی لڑکی کا قتل ہوتا ہے۔جسکا قاتل نہ صرف اسکا شوہر ہوتا ہے بلکہ اسکی اپنی بہن بھی تھی جس نے اس کے شوہر سےمحبت کی شادی کی غرض سے اپنی ہی بہن کو قتل کروایا۔کیونکہ اسکو اپنی بہن کا گھر اور شوہر دونوں چاہئے تھے۔اس طرح کے کئی  حقیقی واقعات پولیس تھانے میں درج چاہے نہ ہوں مگر وقوع پذیر ضرور ہوتے ہیں۔بس تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے حقیقی زندگی میں بھی اور ڈرامے میں بھی۔
لہذا ان مکمل کیسزز کو پڑھیں سمجھ آ جائے گی کہ  اس طرح کی واہیات حرکات آپ کے معاشرے میں پہلے جنم لیتی ہیں۔پھر ان حرکات کو منظر عام پر لانے کے لئے اکثر انہی میں سے ڈرامے جنم لیتے ہیں۔معاشرے کو گندہ کرنے والے کبھی خود کی اصلاح کا سوچ لیں تو معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے اور پھر اس بہتر معاشرے میں سے نہ تو دو ٹکے کی عورت کا کردار پیدا ہو سکے گا نہ امتیاز کا اور نہ ہی نشا کا۔ مگر جب تک معاشرے کو صاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک رائٹرز اسی کہانیوں پر ڈرامے بنائیں گے جو کہانیاں آپ اور میں اس معاشرے میں جنم دیں گے۔کیونکہ معاشرہ ہم سے ہے۔اور ہم ہی اسکی برائی کی وجہ ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply