قدرت کی سرکس۔۔رمشا تبسم

زندگی کے کئی  رنگ ہیں۔انہی رنگوں میں ایک رنگ موت ہے۔موت کو ویسے ہمیشہ ہی کالی رات سا کہا جاتا ہے۔اور ایسا رنگ جس کو ہم اوڑھنا ہی نہیں چاہتے۔مگر موت کا رنگ بھی ہمارے لئے ہی ہے۔اور ہم پیدا ہوتے ہی اوڑھ چکے ہوتے ہیں،شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔
میں سمجھتا ہوں جسے یومِ ولادت اپنا
در حقیقت وہ مری موت کا پہلا دن تھا۔۔

بس  جب وقت آتا ہے اس وقت یہ رنگ ہمارے مکمل وجود پر چڑھ جاتا ہے اور پھر زندگی کے دوسرے رنگوں کو نگل جاتا ہے۔ کبھی لگتا ہے موت کا رنگ نیلا یا کالا ہے۔مر جانے والوں کے ہونٹ اکثر نیلے یا کالے ہو جاتے ہیں۔مگر مرنے والوں کے رنگ تو اکثر لال بھی ہو جاتے ہیں۔کبھی سفید بھی اور کبھی مکمل سپاٹ چہرے لیے ہوتے ہیں۔گو کہ موت بھی کئی  رنگ رکھتی ہے۔اور اس موت کو دیکھنے والوں کے پاس صرف ایک رنگ بچتا ہے سفید رنگ جو مایوسی اور اداسی کے رنگ کو ساتھ ملا کر مسلسل آنسوؤں  کی صورت میں بہتا رہتا ہے۔اور یہ رنگ پھر ختم ہی نہیں ہوتا۔
رمضان سے پہلے میری پیاری دوست ہما کی امی کا انتقال ہوا اور رمضان میں ایک دوست مہرین عباسی کے ابو کا انتقال ہوا۔خدا ان مرحومین کے درجات بلند کرے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے،آمین۔
مگر ان اموات نے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دی۔شاید موت کا سناٹا کہنا درست ہو گا ۔یوں تو مر جانے والے خاموش ہو جاتے ہیں۔مگر جاتے جاتے وہ لوگ ہمیں بھی ساکت کر جاتے ہیں۔ایک جگہ منجمند کر جاتے ہیں۔

میرے الفاظ کھو گئے۔میری سوچ ختم ہو گئی۔میری باتیں ختم ہو گئی۔میرا دل خالی سا ہو گیا۔مجھے موت سے انکار نہیں مگر موت کے بعد جو سناٹا چھا جاتا ہے اس سے وحشت ضرور ہے وہ سناٹا جو ہمیں بولنے نہیں دیتا۔سننے نہیں دیتا کچھ کہنے نہیں دیتا کچھ کرنے نہیں دیتا، مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے، جیسے زندگی تھم سی گئی  ہے۔کچھ نہیں ہے کرنے کو نہ ہی کچھ کرنا اہم ہے۔کتنی گھٹن ہوتی ہے جب سانس چل رہی ہو مگر ہم اسکے چلنے سے خود رُک سے گئے ہوں۔میں بھی ٹھہر سی گئی ہوں۔رک گئی ہوں۔

مجھے اس سرکس میں اب اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عجیب سی الجھن ہوتی ہے۔کہتے ہیں انسان کٹھ پتلی ہے۔اسکی ڈور اللہ کے پاس ہے وہ ہمیں جیسے چاہے چلا رہا ہے۔مگر یہ دنیا تو واقعی قدرت کی سرکس ہے۔ ایسی سرکس جہاں ایک یا دو نہیں سب کے سب جوکر ہیں۔مگر جب ایک مکمل جوکر بن کر اپنا کردار نبھا رہا ہوتا ہے تو باقی جوکروں کا کردار قہقہے لگانا ہے۔پھر ان قہقہے لگانے والوں میں سے کوئی جوکر اپنا کردار نبھائے گا اور باقی جوکر تالیاں بجائیں  گے۔ اور یہ اللہ جی کی سرکس یونہی آباد رہتی ہے۔اور جوکر آتے جاتے رہتے ہیں۔ دنیا کا میلہ انہی جوکروں سے آباد ہے۔دنیا کے رنگ انہی جوکروں سے قائم ہیں۔

سنہ 1970 میں ایک فلم ریلیز ہوتی ہے “میرا نام جوکر” جو مقبولیت کی تمام حدود کو چھو جاتی ہے۔یہ فلم بچپن میں ایک بار ہی دیکھی تو کچھ خاص سمجھ نہیں آئی بہت طویل تھی اور ایک فلم میں سینکڑوں کہانیاں تھیں۔بلکہ سینکڑوں فلمیں تھیں۔جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی  یہ فلم دوبارہ دیکھے بنا ہی سمجھ آنا شروع ہو گئی۔کہنے کو تو فلم ہے مگر سمجھی جائے تو مکمل زندگی ہے۔وہ زندگی جو چلتے رہنے کا نام ہے۔وہ زندگی جس میں کسی کے آنے اور آ کر چلے جانے سے خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ show must Go on کی طرح life must Go on رہتی ہے۔مگر ایک خلا رہ جاتا ہے۔وہ خلا جو کبھی دوبارہ بھرتا نہیں اور ہم اس دکھ کو دل میں کسی کونے میں ہمیشہ کے لئے پالتے رہتے ہیں،اور تڑپتے رہتے ہیں۔
زندگی چلے نہ چلے مگر انسان ضرور چلتا رہتا ہے اور اتنا چلتا ہے کے ایک دن زندگی کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔انسان کو صرف چلنا ہے۔شو شروع ہونے سے پہلے بھی اور شو ختم ہونے کے بعد بھی۔

اس فلم کا ایک سین جو ہماری زندگی کی بخوبی عکاسی کرتا ہے وہ ہر آنکھ کو اشک بار کرتا ہے وہ ہے آخر میں جوکر راجو کی ماں کی موت کا منظر۔جس لمحے راجو کی ماں فوت ہوتی ہے اسی لمحے راجو بحیثیت جوکر اپنی زندگی کا بہترین شو کرنے والا ہوتا ہے۔ ماں جو اس کا دنیا میں واحد رشتہ ہوتی ہے وہ جا چکی ہوتی ہے۔ماں کی لاش سامنے ہوتی ہے۔جب راجو کو کہا جاتا ہے Show must go on وہ ایک سیکنڈ چونک جاتا ہے پھر شو کو جاری رکھنے کے لئے پہنچ جاتا ہے۔وہ شو جو ایک سرکس ہے وہ شو جہاں تماشا  دیکھنے والے ہیں۔جہاں جو کیا جائے گا لوگ ہنسیں  گے قہقہے لگائے گے۔آنسو نکالو گے تو ہنسیں  گے۔راجو کی آنکھوں میں سے شو کے دوران جوکر کے انداز  میں بے شمار آنسو نکلتے ہیں جو وہ لفظ ماں کہہ کر نکالتا ہے جب اس کے ہاتھوں سے کبوتر اڑ جاتا ہے۔وہ دراصل کبوتر نہیں زندگی میں سے زندگی سمجھے جانے والوں کا اڑ جانا تھا۔ہال میں تالیاں گونجتی ہیں۔قہقہے بلند ہوتے ہیں۔اور پردے کے پیچھے بے جان پڑی راجو کی ماں کی لاش ان قہقہوں کے بیچ سکون سے پڑی رہتی ہے۔اور پردے کے آگے راجو شو جاری رکھتا ہے۔کیونکہ پردے کے اِس طرف راجو کے سامنے جو لوگ ہیں وہ صرف تماشا  دیکھنے کو آئے ہیں۔وہ جوکر کے چہرے پر موجود ہنسی کے پیچھے چھپا درد دیکھنے سے قاصر ہیں۔

یہ دنیا ایک سرکس ہے۔اور ہم سب اس میں راجو ہیں۔پردے کے اُس پار ہمیں اپنے دکھ رکھ کر پردے کے اِس پار ہمیں خوب ہنسنا ہے اپنے کرتب دکھانے ہیں۔لوگوں کو ہم پر قہقہے لگانے ہیں۔ہمیں چلنا ہے اور لوگوں کو ہم سے آگے نکلنے کے لئے دوڑنا ہے۔ہمیں محنت کرنی ہے اور لوگوں نے ہماری محنت سے پہلے ہمارے پھل کو کھا جانا ہے۔ہمیں دوڑنا ہے اور لوگ ہماری کٹی ٹانگوں پر تالیاں بجائیں  گے۔ہمیں مدد کو پکارنا ہے اور پردے کے اِس پار بیٹھے لوگ ہمارے کٹے ہاتھوں پر تالیاں بجائیں  گے۔ہمیں رونا ہے اور سرکس دیکھتے لوگ ہنس ہنس کر پاگل ہوتے جائیں گے۔
اور پردے کے پیچھے ہمارے بہت سے غم اور بہت سے اپنوں کے لاشے سکون سے پڑے رہتے ہیں۔اور ہم اس قدرت کی لگائی سرکس کے پردے کے اِس پار ہیں تو جوکر ہیں۔اور اگر اُس پار ہیں تو موت کی آغوش میں ۔اور پھر کوئی اور ہماری جگہ جوکر بن کر کرتب دکھاتا رہے گا۔اور یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ  ہم جوکر بن کر قدرت کی سرکس کے پردے کے اِس پار کرتب دکھانے پر مجبور ہیں کیونکہ راجو کہتا ہے۔۔
جینا یہاں مرنا یہاں اس کے سوا جانا کہاں
جی چاہے جب ہم کو آواز دو
ہم تھے وہیں ہم تھے جہاں
اپنے یہیں دونوں جہاں اس کے سوا جانا کہاں
یہ میرا گیت جیون سنگیت کل بھی کوئی دہرائے گا
جگ کو ہنسانے بہروپیا روپ بدل کر آئے گا
سورگ یہیں نرکھ یہاں اس کے سوا جانا کہاں
جی چاہے جب ہم کو آواز دو
ہم تھے وہیں ہم تھے جہاں
اپنے یہیں دونوں جہاں اس کے سوا جانا کہاں
کل کھیل میں ہم ہوں نہ ہوں گردش میں تارے رہیں گے سدا
بھولو گے تم بھولیں گے وہ پرہم تمہارے رہیں گے سدا
رہیں گے کہیں اپنے نشاں اس کے سوا جانا کہاں۔

اور ہم جب پردے کے اُس پار موت کی نیند سوتے رہے گے،تو تنہا رہے گے،کیونکہ پھر کوئی اور جوکر ہماری جگہ لے چکا ہوگا،کیونکہ راجو کہتا ہے

“اپنی نظر میں آجکل دن بھی اندھیری رات ہیں
سایہ ہی اپنے ساتھ تھا سایہ ہی اپنے ساتھ ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

یہ زندگی کی سرکس واقعی عجیب ہے۔دیکھا جائے تو تماشے ہزار اورمحسوس کیا جائے تو غم بھی ہزار۔ ہمارے کرتب چاہے ختم ہو جائیں مگر اس سرکس کا شو ہمیشہ جاری رہے گا۔ جوکر آتے رہیں گے۔اور جوکر مرتے رہیں گے مگر ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قدرت کی سرکس۔۔رمشا تبسم

Leave a Reply