روٹی مانگنے والا۔۔رمشا تبسم

وہ سات سال کا معصوم سا بچہ تھا۔جب وہ ایک دراوازے پر کھڑا بھیک نہیں بس روٹی مانگ رہا تھا۔کھڑکی سے کسی کے دیکھتے ہی اس نے بس ایک روٹی کا سوال کیا۔روٹی کا سوال شاید دنیا کا وہ واحد سوال ہے جس کا جواب لینے کے لئے انسان کو نہ   سکول جانے کی ضرورت ہے نہ  کتابوں کی، ہاں انسان کمر پر بھاری بستہ ضرور اٹھاتا ہے اور اس بستے میں محض روٹی بھرتے ہوئے زندگی میں سب سے زیادہ سبق سیکھتا رہتا ہے۔

اس کی بھی کمر پر ایک بستہ تھا جو نظر نہیں آتا تھا مگر اس بستے کے بوجھ سے اسکی کمر دن بہ دن جھک رہی تھی۔اس بستے میں ہر روز وہ روٹی بھرنے کے لئے کئی  سالوں سے اسی ایک دروازے پر آ کھڑا ہوتا تھا۔جہاں اس کو سوال کرنے کے لئے اب لفظوں کی ضرورت نہیں تھی اور جہاں اس کو جواب دینے کے لئے اسکا سوال سننا بھی ضروری نہ  تھا۔کچھ سوال انسان کی پیشانی پر لکھے جا چکے ہوتے ہیں۔اسکی بھی روٹی اسکی پیشانی پر پڑی لکیروں میں سوال کی مانند معلوم ہو جاتی تھی۔اور اسکا جواب بہت آرام سے اس کو روٹی کی صورت مل جایا کرتا تھا۔

کبھی اگر وہ اس دروازے سے جواب حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو گندے, میلے, ٹوٹی جوتی میں پاؤں گھسیٹتا ہوا اکثر کسی اور دروازے پر جا کھڑا ہوتا۔مگر سوال ایسا تھا کہ  اس کو سوال دہرانے کے لئے کئی کئی  منٹ لگ جاتے۔اور بمشکل ہی وہ کسی اور دروازے پر سوال کر پاتا۔اور بغیر سوال کے جواب نہیں ملا کرتے۔اس وقت اس کی کمر پر موجود اَن دیکھا بستہ گھر میں موجود چھوٹے دو بہن بھائی اور ماں کی روٹی سے خالی ہوتا اور پھر بھی وہ اَن جانے اَن دیکھے بوجھ سے جھکتا چلا جاتا۔ ہاں شاید روٹی کا سوال جب جواب حاصل نہ کر سکے تو بھی بوجھ سے کمر جھک جایا کرتی ہے۔

اس کا سوال ایک تھا مگر اسکے جواب چار ۔اکثر زندگی ایک سوال جھولی میں ڈال کر ساری عمر کے لئے جھولی کو تار تار بھی کر دیتی ہے اور انسان جھولی کو سینے کا وقت نکالنے کی بجائے اسی جھولی میں ایک سوال کے بدلے کئی  جواب بھرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اور وہ جواب ہر بار ہی جھولی سے گرتے رہتے ہیں۔نہ  پھر سوال ختم ہوتا محسوس ہوتا ہے نہ  ہی جھولی کبھی بھری ہوئی ملتی ہے۔اسکی بھی قسمت کی جھولی تار تار تھی۔وہ ہر بار اس میں ایک سوال کے بدلے چار جواب بھرتا اور ہر بار ہی کچھ لمحے بعد اس کا وہی سوال منہ اٹھائے سامنے کھڑا ہوتا۔اسکا سوال وہی تھا جو اسکے ماتھے پر لکھ دیا گیا تھا۔۔۔ “روٹی”

اور اسکا جواب بھی وہی تھا ایک سوال کے بدلے۔۔۔چار روٹیاں۔

اپنا ایک سوال لئے وہ چار لوگوں کے پیٹ کے لئے روٹی ڈھونڈا کرتا تھا۔وہ ان روٹیوں کو جا کر ماں کے ہاتھ میں دیتا۔اور ماں وہ روٹیاں سب میں برابر تقسیم کرتی۔وہ اکثر اپنا پیٹ باہر سے بھر جانے کی صورت میں اپنے حصے کی روٹی اپنی ماں کو دے دیتا۔اس بات سے بے خبر کہ  جب اس نے باہر روٹی کھائی اسکے بعد تین گھنٹے مسلسل چل کر گھر تک آنے میں وہ روٹی ہضم ہو چکی ہو گی۔اس وقت گھر پہنچ کر پیٹ میں اٹھتا میٹھا میٹھا درد اسکو محض تھکاوٹ محسوس ہوتا۔وہ اسکو بھوک نہیں تھکاوٹ ہی محسوس کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ وہ چاہتا تھا آج اسکی ماں پیٹ بھر کر کھانا کھائے۔مگر ماں ہمیشہ ہی وہ روٹی بھی خود میں اور باقی دو بچوں میں برابر تقسیم کر دیتی۔اور وہ اس تقسیم کو دیکھ کر ایک بار سوچتا ضرور تھا کہ  ماں کسی صورت مانگی ہوئی روٹی میں بھی نا انصافی کو تیار نہ  ہوتی تھی۔اور خدا خود کی ہی پیدا کی گئی  مخلوق میں روٹی کی تقسیم میں اتنا بے انصاف کیوں تھا؟

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی اسکو کبھی فرصت ہی نہ  ملی کیونکہ اس کو روٹی مانگنے نے اتنا تھکا دیا ہوتا کہ  وہ یہ سوال سوچتے ہوئے  ہی زمین پر لیٹ کر سو جاتا اور صبح اٹھ کر اس سوال کے جواب کو سوچنے کی بجائے واپس اسکو ایک سوال کے بدلے چار جواب لانے کی فکر لاحق ہو جاتی۔کیونکہ وہ روٹی مانگنے والا لڑکا تھا۔اسکا سوال اسکے ماتھے کی لکیروں پر لکھا جا چکا تھا۔۔روٹی۔۔۔

کبھی اس کو لگتا وہ روٹی مانگے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔یا شائد روٹی بھی اب اسکے بنا نہیں رہ سکتی۔کبھی وہ سوچتا کیا ہو اگر قدرت ساری دنیا کی روٹیاں اسے تھما دے اور کہے جاؤ لے جاؤ؟ تو کیا ہو؟ وہ تو ایک وقت میں چار روٹیوں سے زیادہ سوچنے اور حاصل کرنے کے علاوہ  کچھ تمنا ہی نہ  رکھتا تھا۔تو یقیناً وہ بس چار روٹیاں ہی اٹھا پائے گا۔مگر یہ کتنی انہونی بات ہے نا کے بھلا قدرت کو کیا پڑی  ہے کہ  وہ سب کو بھول کر صرف اسکو ساری روٹیاں دے۔ہاں نجانے کیوں قدرت کو پھر سب یاد رہتے ہیں بس میں ہی یاد نہیں رہتا۔ یا شاید میں بھی یاد ہوں اسی لئے تو میری چار روٹیاں میرے دامن میں آ پڑتی ہیں۔یہ سوچ لمحہ بھر کو اس کو احساس دلاتی کہ  قدرت اس پر بھی مہربان ہے پھر چاہے قدرت کی مہربانی اس کے ماتھے پر لکھی گئی  روٹی سے ہی کیوں نا  جھلکتی ہو، اس کو پھر بھی خوشی محسوس ہوتی تھی کہ  قدرت نے اسکے لئے چار روٹیوں کا انتظام کر رکھا تھا۔وہ سوچتا کہ جس طرح پھر میرے لئے محض چار روٹیاں اہم ہیں ممکن ہے کہ  ان چار روٹیوں کو بھی محض میرا انتظار ہی رہتا ہو۔ وہ روٹیاں بھی اب مجھے بے جان نہیں بلکہ ہم جنس ہی لگتی تھیں ۔ ہم جنس نہ  بھی ہوں کیونکہ میں تو خود کی بھی جنس بھول چکا ہوں۔ میری جنس بھی اب بس روٹی ہے اور روٹی کی جنس ؟؟شاید میں۔۔

مگر یہ کتنی احمقانہ  بات ہے۔ہاں مگر یہ حقیقت ہے کہ قدرت نے میری ساتھی چار روٹیوں کو بنایا اب نہ میرا انکے بنا گزارا ممکن ہے نہ روٹیوں کا میرے بنا۔پر میں کیا جانوں قدرت میری بے بسی کو لے کر کیا فیصلہ کئے ہوئے ہے۔مگر جو بھی ہے بس میرا سوال میرے ماتھے پر لکھ دیا گیا تھا۔۔۔ روٹی۔۔۔اور اسکا جواب بس چار۔۔۔

شروع میں روٹی مانگتے وقت اسکو اپنے جسم کے پٹھے عجیب اذیت میں لرزتے پھڑپھڑاتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔مگر اب وہ پھڑ پھڑاہٹ ختم ہوتی جا رہی تھی۔وہ اذیت مٹ چکی تھی۔کچھ اسکی وجہ اب یہ بھی تھی کہ اب سوال کرنا نہیں پڑتا تھا دروازے پر دستک دینا اور پھر سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا۔جیسے زندگی کسی مداری کی طرح اسے یہ کرتب سکھا چکی تھی۔ جیسے کسی چوپائے کو ایک لکڑی کے پائے پر کھڑا ہونے کے لئے مداری کی بے تحاشا مار کھانی پڑتی تھی اور پھر کرتب صحیح ہوا تو پیٹ بھر کر روٹی ملتی اور نہ  ہوا تو مداری کی مایوسی,ناکامی پھر ظالم کالی بھوکی رات بن کر چوپائے پر گزرتی۔

وہ بھی اب زندگی کے مداری کا ایک چوپایا تھا۔اسکا کرتب شروع میں کسی لکڑی کے پائے پر کھڑے ہونے سے زیادہ مشکل تھا۔مانگنا کس قدر اذیت ناک ہے یہ اسکو پہلی بار اس وقت محسوس ہوا جب اس نے روٹی مانگی اور کسی آدمی کی آواز اسکے کان سے ٹکڑائی کہ  “ایسے کیڑے مکوڑے نجانے پیدا کیسے اور کیونکر ہوتے ہیں۔ان حرام زادوں کو پیدا ہوتے ہی مار کیوں نہیں دیا جاتا”۔اور وہ پھر پیدا ہوتے نہ  سہی مگر اس دھتکار کے وقت فوراً مر گیا تھا۔اب وہ مر چکا تھا مگر اس کو مردہ وجود کے ساتھ کرتب کرنا تھا۔اب  یہ کرتب اسکی  بھیک کے لئے مختلف جملے تھے۔مگر اب جب وہ اس دروازے تک پہنچ چکا تھا جہاں اسکا سوال پڑھا جا چکا تھا اور اسکا جواب تیار کر لیا جاتا۔تو اب اسکا کرتب اسکے لفظ نہیں بلکہ اسکا چہرہ تھا۔وہ دستک دے کر ہاتھ لٹکا کر بے بسی چہرے پر سجا کر کھڑا ہو جاتا اور کھڑکی والی عورت اسکو دیکھ کر پوچھے بنا ہی روٹی لینے کو واپس قدم لے لیتی۔

ایک مدت تک وہ یہ بات سمجھ نہیں پایا کہ  اسکو یہ کرتب کس نے سکھایا؟اسکی رسی کس کے ہاتھ میں ہے؟اور یہ کرتب در حقیقت وہ سرانجام دیتا ہے یا پھر روٹیاں؟؟ جو ہر روز چپ چاپ آ کر اسکے دامن میں گر جاتی  ہیں۔۔۔ وہ؟اسکو کبھی لگتا وہ مالک ہے اور اسکی حکمرانی ان روٹیوں پر ہے وہ چاہے تو ان روٹیوں کو کسی نہر میں گرا دے یا چاہے تو کھا لے روٹیاں بے بس ہیں۔اور کبھی اس کو لگتا وہ ان روٹیوں کا غلام ہے وہ کبھی چاہ کر بھی انکو نہر میں گرانے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔اسکا فعل طے تھا اس کو ان کو کھانا تھا اور کھلانا تھا لہذا وہ یہ جان گیا تھا کہ  وہ غلام ہے اور روٹیاں مداری ہیں۔جو اس سے کرتب کروا کر خود تک رسائی دیتی ہیں۔اور وہ چپ چاپ روٹیوں کے سکھائے کرتب کو بخوبی نبھاتا اور انکو تھام کر چل پڑتا۔

آج بھی تیرہ سال کی عمر میں وہ اسی دروازے پر کھڑا تھا جہاں چھ سال پہلے اسکا سوال اسکے ماتھے سے پڑھ کر اسکا جواب تیار کر لیا گیا تھا۔

اب کی بار اسکے لب ہلنا چاہ رہے تھے۔مگر اس کی آواز مر چکی تھی۔ اس کی زبان میں حرکت ہوئی مگر اسکے منہ میں کانٹے بھر چکے تھے۔اس کو اپنا سوال بھی کسی کانٹے کی مانند معلوم ہو رہا تھا۔کھڑکی پر کھڑی عورت کئی  سال پہلے ہی اسکا سوال پڑھ چکی تھی کیونکہ اسکا سوال اسکے چہرے کی میلی جلد پر پڑی سلوٹوں سے بھی پڑھا جا سکتا تھا کیونکہ اسکا سوال ایک ہی تھا۔۔ روٹی۔۔
اور اسکے جواب چار روٹیاں تھیں۔کیونکہ وہ روٹی مانگنے والا لڑکا تھا۔
اب اسکو اپنے منہ سے نکلتی آواز کا مُردہ وجود اپنے حلق پر بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔عورت تذبذب کا شکار ہوئی اور گویا ہوئی
“کیا ہوا؟”

روٹی مانگنے والے کی میلی جلد پر موجود چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے شفاف آنسو بہنے لگے جو اسکی جلد سے مس ہوتے ہی میلے ہونے لگے۔کوئی جڑیں پھیلاتے اس کو نوچتے, کاٹتے کیڑے اس کو منہ میں بھرے محسوس ہونے لگے۔اسکی پسلیوں پر گودا موجود نہیں تھا اسکو اپنے دل کی دھڑکن سے اپنی پسلیاں ٹوٹتی محسوس ہونے لگیں۔آج اس کو کئی  سال بعد سوال دوبارہ دہرانا تھا۔اسکو اپنی جلد پھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔اسکے مسام اسکی آواز اسکا وجود سب پر ایک سوال حاوی تھا مگر اب اس ایک سوال کا جواب بدل جانے والا تھا۔

میلے آنسوؤں سے چہرے پر بنی لکیروں سے نظر آتی جلد اب شفاف تھی۔وہ جاگتی نیند میں تھا۔وہ یونہی اکثر چلتا چلتا خود کو روٹی اٹھائے ہوئے سوتا ہوا محسوس کرتا اور کبھی یک دم وہ محسوس کرتا کہ  وہ روٹی کھاتا کھاتا جاگتے ہوئے گہری نیند میں ہے ۔اسکو بس ہر چہرے میں کچھ نظر آتا تو وہ تھی روٹی ۔اور وہ یہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا کہ  وہ جاگتا ہوا سو رہا ہے یا سوتا ہوا اپنی روٹی کے چھن جانے کے خوف سے ہڑبڑا کر جاگ جاتا ہے۔آج بھی وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا مگر وہ جاگتی نیند میں تھا۔اسکا سوال موجود تھا۔مگر اسکے چار جوابوں میں سے ایک جواب کھو چکا تھا۔اس لئے وہ اب جاگتی نیندوں کی وادی میں کہیں موجود تھا۔وہ چند لفظوں کا جملہ تھا جس کو بولنے کے لئے اسکا جسم لرز رہا تھا۔اس کو لگا جیسے وہ لفظ بھول چکا ہے۔اسکے سوال کی ترتیب بدل رہی تھی اور وہ اس بے ترتیب لفظوں کو جاگتی نیند میں ترتیب دینے کی کوشش کرنے لگا۔اسکو ان تمام بکھرے لفظوں سے دوبارہ ایک سوال تشکیل دینا تھا۔وہ ان لفظوں کو اپنے وجود, اپنے لہو ,اپنے دل اپنی ہڈیوں سے نوچ نوچ کر زبان پر اکٹھا کرنے لگا مگر اسکی زبان پر کانٹے بھر چکے تھے جو ان لفظوں کو زخمی کر رہے تھے جو لفظ اسکا سوال بنانے کے لئے اس نے اکٹھے کئے۔

آنسووں کا سلسلہ جو میلے سیلاب سا شروع ہوا اب شفاف ندی سا بہنے لگا۔لرزتے ہوئے اس نے مردہ آواز میں جان ڈالنے کی کوشش کی اور
بولا
“مجھے بس آج تین روٹیاں چاہئیں  کیونکہ میری ماں مر چکی” ۔۔۔۔ اسکی میلی اور پھٹی قمیض سے محسوس ہوتی پسلیوں کے پیچھے دھڑکتا دل اسکے وجود میں کپکپی طاری کر چکا تھا.کھڑکی کے اندر اور کھڑکی کے باہر اب بس آنسوؤں کا خاموش سیلاب تھا۔آواز اب دونوں طرف سے مر چکی تھی۔لفظ اب دونوں طرف کے بے معنی تھی۔زبان اب دونوں طرف کی کانٹے بھری ہوئی محسوس ہوتی تھی۔سوال اسکا آج بھی وہی تھا۔۔۔روٹی۔۔
مگر جواب اب چار کی بجائے تین تھے۔سوال جب وہی رہیں اور جواب بدل جائیں تو انسان سوال کی دلدل میں دھنس کر جواب کے اہم اور غیر اہم ہونے کی منجدھار میں پھنس جاتا ہے۔وہ بھی اب ایک روٹی کم مانگنے کے اہم اور غیر اہم ہونے کی منجدھار میں پھنس چکا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

روٹی مانگنے والی کی ماں مر گئی۔زندگی میں پہلی بار اس کا بوجھ کم ہوا تھا۔اب اسے ایک روٹی کم مانگنی پڑے گی۔زندگی جینے کی جنگ میں اب ایک روٹی نہ  مانگنے سے کمی آئے گی۔مگر کیا وہ اب اس ایک روٹی نہ  مانگنے کے غم سے نکل سکے گا؟ ایک روٹی کم مانگ کر وہ اپنے لئے مانگی ہوئی روٹی کھا بھی سکے گا یا نہیں یہ ابھی طے ہونا باقی تھا۔کیونکہ روٹی مانگنے والے کی ماں مر چکی تھی۔اور اس کا سوال اب بھی اسکی پیشانی پر عیاں تھا مگر اسکا جواب اب بدل چکا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply