پارے سے آبپارے تک

جو ں جوں گرمی کا موسم اپنے جوبن کی طرف جا رہا ہے اور پارہ چڑھائی کا سفر طےکر رہا ہے، ساتھ ساتھ لوگوں کا مزاج بھی گرم اور پارہ چڑھ رہا ہے۔سیاسی درجہ حرارت بھی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتا رہتا ہے اور اس سیاسی پارے کی سیمابیت کو کچھ واقفانِ حال آبپارے والوں کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ وللہ اعلم۔
پارہ ایک سیال دھات ہے، جو شنگرف کو بھوننے اور مقطر کرنے سے معرض وجود میں آتی ہے۔ اسے انگریزی میں مرکری اور فارسی میں سیماب کہتے ہیں۔اپنی اسی سیمابیت یا متحرک ہونے اور رہنے کی وجہ سے سیماب صفت انسان کیا کیا گل کھلاتے اور غضب ڈھاتے ہیں، ان کو آپ نے اپنے اردگرد ضرور کبھی نہ کبھی دیکھا یا سہا ہوگا۔نظام شمسی کے سب سے تیز چکر مکمل کرنے والے سیارے کی نسبت سے اس کا نام اہل یونان نے مرکری رکھا ۔ قدیم فراعنہ مصر کے مزارات میں اس کی موجودگی پائی گئی ۔کہا جاتا ہے کہ فراعنہ مصر تالاب میں پانی کی جگہ پارہ بھرکر اس کے اوپر تخت پر لیٹ کرجسمانی تھکن اتارتے تھے۔مایا تہذیب کے کھنڈرات میں بھی پارہ کے استعمال کے نشانات ملے ہیں۔اندلس کے مسلم حکمران پانی کی جگہ پارے کے فوارے سے دل بہلایا کرتے تھے۔
سونے کی تیاری میں کیمیاگر پارے اور لوہےکو سونے میں بدلنے کے تجربات پر پوری پوری عمر ضائع کر دیتے تھے مگر باز پھر بھی نہیں آتے تھے۔عام درجہ حرارت پرسیال حالت میں پائی جانے والی واحد دھات جو پانی سے تیرہ گنا بھاری ہونے کی وجہ سے مختلف صنعتی مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔پہلی سپیس فلائٹ میں بھی پارے کےفیو ل کا استعمال کیا گیا تھا۔ کبھی پارے کو جراثیم کش سمجھ کر مرہم پٹی کے لئے اینٹی سیپٹک کے طور پراستعمال کیا جاتا تھا ،پھر انسان اور سائنس نے ترقی کرلی تو پتہ چلا کہ یہ تو انسان کش ہے اور اس کو ممنوع قرار دیا جائے۔ تب تک یہ پٹرول اور میک اپ میں استعمال ہونے کی وجہ سے کتنی زندگیوں کو روگ لگا چکا تھا۔ خیر یہ ایک مختلف موضوع ہے ہم پارے کے دیگر محاسن پر نظر ڈالتے ہیں۔
پارے کومختلف النوع میٹرز میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ تھرمامیٹر، بیرومیٹر، نیمومیٹر اور برقی بلب۔شنید ہےتازہ تازہ ایجاد ہوئےایمانو میٹر میں بھی پارے کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے اور یہ پارہ ہائی ہونے کی وجہ سے اکثر حضرات میٹر ہوجاتے ہیں اور دوسرے کے ایمان پر فتوے جاری کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔امت کا اتحاد اس وقت پارہ پارہ ہوتا ہے جب اس کی شیرازہ بندی پارے کی طرح بکھر کر چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ جاتی ہے۔بچپن میں جب کبھی بخار چیک کرتے وقت تھرمامیٹر ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرجاتا تو اس کے اندر بھرا ہوا سیال پارہ ننھے ننھے ذرات میں تبدیل ہوجاتا اور اِدھر اُدھر بھاگا پھرتا۔اس وقت گھر میں ایمرجنسی نافذ ہوجاتی کہ کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے کیونکہ اگر یہ انسانی جسم میں داخل ہوگیا تو موت کا پروانہ بن جاتا ہے۔ کسی طرح اسے اکٹھا کیا جاتا اور یہ ننھے منے ذرات دوبارہ ایک بڑے مالیکیول میں بدل جاتے ۔بعینہ اس امت کا حال ہے آج پارے کی طرح چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹی ہوئی ہے مگر جب بھی اسے کسی صاحب خرد نے سمیٹ کر ایک کردیا تو پھر سے جسد واحد میں بدلنے میں دیر نہیں لگے گی اگر ہم سمجھ سکیں ۔
لُزُوجَت یا لُزُوجِیَّت (عربی سے ماخوذ. انگریزی: Viscosity) مائعات کا بہاؤ کے خلاف مزاحمت کی پیمائش ہے.سلیس زبان میں، یہ وہ مزاحمت ہے جو کوئی مائع مواد بہنے کے خلاف پیش کرتا ہے. اِسے مائعات کی باریکیت اور گاڑھے پن کی پیمائش بھی کہاجاسکتا ہے.پانی باریک یا پتلا ہے کیونکہ اِس کی لُزوجت کم ہے. جبکہ سبزی کا تیل گاڑھا ہے کیونکہ اس کی لزوجت زیادہ ہے.تمام حقیقی مائعات زور کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں. وہ مائعات جو زور کے خلاف کوئی مزاحمت پیش نہیں کرتیں، مثالی معائعات کہلاتی ہیں.
پارے کی لزوجیت کا حقِ زوجیت پر کیا اثر پڑتا ہے اس کے بارے میں پارے کا حکما کے ہاں مقوی باہ ادویات میں استعمال ہے۔ پارہ ایک ایسی دھات ہے جس کا دھاتی قطروں اور" قطریوں "سے بظاہرکوئی تعلق نہیں ہے مگر اسے طبی ماہرینِ کشتہ جات ،دیگر دھاتوں از قسم چاندی، نقرہ ،فولاد کے ساتھ ملا کراس کا زہر مار کر کشتہ برائے بحالی گمشدہ بلکہ شدہ شدہ جوانی کی واپسی کے لئے کرتے ہیں۔اگر تو کشتہ ٹھیک بن جائے تو کشتوں کے پشتے لگا دیتا ہے اور زوجہ ماجدہ چاند کا ٹکڑا یعنی ماہ پارہ بنی نظر آتی ہے مگرکبھی کبھار آنچ کی کمی بیشی اس کشتہ کو کچلہ میں بھی بدل دیتی ہے اور یہ کچلہ کھانے کے بعد وحشت خیزیاں سگِ آوارہ بنا کر لُور لُور پھرا دیتی ہیں۔
پارہ پانی سے بھاری اور اس کے ساتھ ملنے سے انکاری ہوتا ہے مگر ہم نے اسے بھی یکجان کر دیا ہے بھلے نام کی حد تک ہی سہی، جی ہاں یہ کام آب پارہ کی شکل میں آپ کے سامنے ہے جہاں آبپارے والے اس ناممکن کو ممکن کر دکھاتے ہیں ۔پارے کی طرح ایک اور دھات ہوتی ہے جسے سیسہ یا لیڈکہتے ہیں جس کی ہم دشمن کے سامنے وقت آنے پر سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے ہیں ۔سیسہ پلائی دیوار اگر نہ بن سکیں تو پھر سی سی کرنا پڑ جاتی ہے اور انسان سِیس دینے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
اقبال نے تو مسلم علمی اثاثہ کو یورپ میں دیکھنے کے بعد یہ کہا تھا کہ…
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
لیکن اب کچھ تحریف کر کے اور تصور بدل کر یہ شعر پڑھنا چاہئے….
نازنین افرنگ لباس فطرت میں بے حجاب
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply