“وبا کے دنوں میں ڈائری” سے اقتباس۔۔۔رمشا تبسم

بارش کی بوندیں زمین کو چھو رہی ہیں۔۔مگر ان بوندوں کو چھونے سے بھی لوگ اب خوفزدہ ہیں۔گھروں کی کھڑکیوں پر پردے ہیں۔بوندیں تنہائی میں ماتم کرتی ہوئی زمین پر خود کو ختم کر رہی ہیں۔ننھے قدم ان بوندوں کو پاؤں سے اچھالنے کو موجود نہیں۔کوئی ہاتھ ان بوندوں کو چھونے کو موجود نہیں۔چائے کے کپ سے اٹھتا دھواں ان بوندوں کے حسن میں اضافہ نہیں کر رہا۔بارش سے محظوظ ہو کر کوئی بالکنی میں بیٹھا اپنے محبوب سے دلجوئی کرتا نظر نہیں آ رہا۔عجیب خاموشی ہے شہرِ وبا میں کہ  ایسے میں بارش کا ماتم گھروں میں خوف سے مقید لوگوں کے دلوں میں اٹھتے وبا کے خوف کو مزید خوفزدہ کر رہا ہے۔

“لوگ وبا سے خوفزدہ ہیں۔بارش کے حسن سے منہ موڑ بیٹھے ہیں اور پیاری تم وبا کے دنوں میں ڈائری میں کیا لکھ رہی ہو؟”

“ڈائری ہمیشہ ہی وبا کے دنوں میں لکھی جاتی ہے،وبا ہی خود سے آشنا کرواتی ہے۔وبا ہی زندگی کی رمق سمجھاتی ہے۔وبا ہی موت کو سچ ثابت کرتی ہے۔وبا ہی انسان کو اُسکی اپنی وبا سے ملواتی ہے۔انسان کی روح تک وبا زدہ ہے اور وہ بیرونی وبا سے خوفزدہ ہے۔وبا میں جب موت بانہیں پھیلائے کھڑی ہو تو ڈائری میں بانہوں سے پھسلنے والوں کا احوال تحریر کیا جاتا ہے۔زندگی میں سے زندگی سمجھے جانے والوں کا نکلنا قلمند کیا جاتا ہے۔اور وبا کوئی بیماری نہیں ہے۔وبا ایک اندرونی کیفیت ہے۔موت سے خوف کی کیفیت۔ جو باہر نکل جائے تو حاوی ہو جاتی ہے پھر انسان در بدر شفا کو ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔مگر وہ جانتا ہی نہیں وبا سے نجات اسکے اندر ہی موجود دوسری کیفیت سے ممکن ہے۔موت پر یقین کی کیفیت, انسانیت کی کیفیت،مگر بیرونی دنیا کے لئے وبا کیفیت نہیں خوف ہے , بیماری ہے۔زندگی کو ریت کی مانند ہاتھوں سے پھسلتا دیکھ کر پل پل تڑپتے انسان زندگی کو بھی پھسلتا دیکھنے لگتے ہیں اور خوفزدہ ہوتے ہیں جب کہ وہ جانتے ہی نہیں زندگی تو کب کی پھسل چکی ہوتی ہے۔کچھ ہے تو صرف موت  اور موت شفا بھی ہے۔اور کچھ کے لئے وبا بھی ۔ لوگ موت کو پھسلتا دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ موت اگر گھڑی کی ٹک ٹک سے پھسل گئی  تو سمجھو زندگی گھڑی کے گھوڑے پر سوار ہو کر آ جائے گی۔مگر جانتے ہو زندگی شفا نہیں ہے بلکہ موت ہی شفا ہے اور زندگی ایک وبا ہے۔کوڑھ کی مانند،اور کوڑھ کی مانند زندگی کی وبا پھیلتی جاتی ہے۔”

“موت تو حقیقت ہے پیاری! تم کیفیت کیسے کہہ سکتی ہو؟ اور وبا تو بیماری ہے تم اسے اندرونی یا بیرونی کیفیت یا خوف کیسے کہہ سکتی ہو۔اور زندگی شفا ہے وبا نہیں ۔تم پیاری تنہا رہ کر شائد دیوانی ہو رہی ہو؟ ”

“میں نے پہلے بھی کہا تھا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں تو کچھ مت پوچھو۔مگر یاد رکھو میں نے تمہیں تراشا ہے تمہیں وہی سوچنا پڑے گا وہی سنتا پڑے گا جو میں چاہوں۔ میں تمہاری خالق ہوں،تمہیں خود سے تشکیل دیا ہے ۔میں تمہیں مٹانے پر بھی قادر ہوں۔کیونکہ جو تخلیق کرتا ہے اسکی بات نہیں مانو گے تو مٹا دے گا۔وبا بھی تخلیق کار کی ایک اور تخلیق ہے۔اس پر سوال جواب کیسا؟جو انسان کو تخلیق کرتا ہے اس کو تراشتا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے اپنی تخلیق کو پھر سے مٹا دے چاہے وبا سے ہی سہی ،اور میں بھی تمہیں کسی بھی وقت مٹا سکتی ہوں ، خواہ تمہارا کوئی جرم بھی نہ ہو”۔ طنزیہ قہقہے کمرے کی تاریکی میں روشنی کی ایک لکیر میں اڑتے ہوئے گرد کے ذرّوں کو مزید اڑا رہے تھے۔

“میں مٹنا نہیں چاہتا۔”مایوسی میں کہا گیا جملہ خالق کو اب سکون بخش رہا تھا۔وہ سکون جو بارش کو نہ چھونے کے افسوس میں کہیں کھو گیا تھا۔
“تم بولو پیاری میں وبا کو سمجھنا چاہتا ہوں۔وبا کیا ہے انسان خوف کے عالم میں ہیں وہ گناہوں سے توبہ کر رہے ہیں۔وہ سدھر رہے ہیں تو پھر وبا کے بادل ہٹ کیوں نہیں رہے؟”

“توبہ کیسی توبہ ۔وبا نہ تو گناہ کا نتیجہ ہے۔نہ توبہ سے ختم ہو گی۔وبا ایک مسلسل حقیقت ہے ایسی حقیقت کہ اسکے ہوتے ہوئے  بھی بہت سی حقیقتیں جنم لیتی رہیں  گی۔وبا کے دنوں میں بھی اور اس کے بعد بھی۔وبا ظالم نہیں۔وبا سے خوفزدہ لوگ ظالم ہیں۔اور دیکھنا یہ اب بھی بے حس ہیں بعد میں بچ کر بھی بے حس رہیں  گے۔”
وبا تو بیماری ہے ۔اسکا علاج ممکن نہیں؟
“کچھ بیماریاں لاعلاج ہوتی ہے۔بلکہ شاید کچھ بیماریاں درحقیقت بیماریاں ہیں  ہی نہیں، صرف کیفیت ہیں ۔

جانتے ہو میری تخلیق کے بُت ! وبا آوارہ کتوں کا ایک غول ہے۔ اور انسان اس غول میں پھنسی بلی ۔ کتوں کا غول بلی کو پھنسا کر اسکی سانسیں اس پر تنگ کر دیتا ہے۔بلی آزادی کا راستہ ڈھونڈنے کو اِدھر اُدھر بھاگتی ہے۔مگر کتے پوری طاقت اور ہوش و حواس سے اسکو گھیرے کھڑے ہوتے ہیں۔بلی جو شاید ابھی ابھی کسی کا شکار کر کے آئی  ہو، یا شکار کرنے جا رہی ہو ،وہ موت کو سامنے دیکھ کر تڑپ رہی ہوتی ہے۔۔اور کتوں کی فتح بلی کی تڑپ پر ہے۔بلی کو مار کر اس کو تڑپا کر اسکو بے بس کر کے کتے بھونک کر اپنی فتح کا جشن مناتے ہیں۔اپنی کامیابی کو یقینی محسوس کرتے ہوئے کتے کئی  بار بلی کو چھوڑتے ہیں وہ بھاگنے لگتی ہے۔کتے پھر اسکو دبوچ لیتے ہیں ۔اسی کھیل میں بلی جب مر جاتی ہے تو کتے کئی  منٹ اسکے زخمی وجود پر پاؤں رکھے کھڑے بھونکتے رہتے ہیں یہ انکی فتح کا جشن ہوتا ہے۔۔اور جب مکمل یقین ہو جائے وہ مر گئی  تو کتے اسکو ایسے ہی چھوڑ کر چل پڑتے ہیں۔مگر یہی بلی اگر ذرا سی ہوشیاری سے بھاگ نکلے تو اونچی جگہ پہنچ کر سکون سے بیٹھ جاتی ہے۔کتے نیچے ہار کر کھڑے ہوئے بھونکتے رہتے ہیں۔اور بلی پُر سکون اپنی دم کو اپنے گرد لپیٹے بیٹھی رہتی ہے۔بالآخر کتے روانہ ہو جاتے ہیں اور بلی بھاگ کر کسی چھت پر بند کبوتروں اور مرغیوں پر جھپٹ پڑتی ہے۔وبا سے نجات خود وبا بن بیٹھتی ہے۔”

وہ جون کی ایک گرم رات تھی۔جب آسمان پر تارے مکمل روشن تھے۔چاند کبھی بادل کے پیچھے چھپتا اور کبھی نکل کر زمین کو روشن کرتا۔چھت پر سوئے گہری نیند میں سب دنیا سے بے خبر تھے۔اچانک کتوں کے بھونکنے سے ہر شخص نیند سے کانپتا ہوا بیدار ہوا ۔یوں محسوس ہوا جیسے کتے علاقے پر حملہ آور ہیں اور اب کوئی زندہ نہیں بچ سکے گا۔اچانک چھت سے نیچے دیکھا تو کتے ایک بلی کو بری طرح نوچ رہے تھے۔وہ اسکو منہ میں پکڑ کر ادھر ادھر زمین پر مار رہے تھے۔بلی شدید زخمی ہونے کے باوجود کتوں کے منہ سے چھوٹ کر بھاگنے کی کوشش کرتی اور وہ اسے پاؤں سے اپنی طرف کھینچ کر دوبارہ زمین پر مسلنا شروع کر دیتے۔گلی کا یہ بھیانک منظر دیکھ اس ننھی بچی کی آنکھوں سے کتنے آنسو بہہ گئے اسکو خود معلوم نہیں تھا۔وہ دیوار کو پکڑے کانپ رہی تھی۔کتوں کی آوازیں اسے خوفزدہ کر رہی تھیں  ۔وہ کانپتے ہاتھوں سے کانوں پر ہاتھ رکھنے ہی والی تھی کہ اچانک ایک آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔اس کو سمجھ آ گئی ، کیا ہونے والا ہے مگر وہ یقین کرنا نہیں چاہتی تھی۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے دیوار تھام کر واپس گلی میں دیکھا۔بڑے بڑے بارہ کتے غرّا  رہے تھے۔ایک کتے نے زخمی بلی کو منہ میں پکڑا تھا۔بلی کی آنکھیں سامنے کھڑے مسیحا پر تھیں ۔ہاں مسیحا ہی کہا جا سکتا ہے جو اس وقت ایک بلا پکڑے اتنے بڑے کتوں کے غول سے بلی کو چھڑوانے کو کھڑا تھا۔

“بابا جانی” اس نے کانپتی آواز سے دھیرے سے پکارا۔اور آنکھوں کو دونوں ہاتھوں کی پشت سے صاف کیا جو اسکا منظر دھندلا کر رہی تھی۔اس کو خوف تھا کہ  کتے کہیں اسکے بابا کو بھی۔۔۔
مگر نہیں کتوں کو بھاگتے اور مار کھاتے دیکھ کر اسکو یقین ہو گیا کہ مسیحا جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ڈرتے نہیں۔۔
زخمی بلی اسکے سامنے تھی۔اسکی کمر سے نوچا گوشت, اسکا غائب ایک کان, اسکے پیٹ پر ہوا بڑا زخم اور جگہ جگہ پڑے زخم اسکو شدید دکھ میں مبتلا کر رہے تھے۔بلی کو دودھ پلا کر اسکو دوا لگا کر رکھ دیا گیا ۔اس رات اِس بچی کو کتوں کے غول پر بہت غصہ تھا۔اس کو نفرت ہو رہی تھی کسی کو تکلیف پہنچانے والوں سے۔کسی کو نوچنے والوں سے۔اور اس کو محبت ہو رہی تھی مسیحا سے۔اس کو احساس ہو رہا تھا مسیحا ہونا کتنی خوشی کی بات ہے۔

صبح سورج کی چند کرنیں بادلوں کو چیر کر زمین پر آنے کو رستہ ڈھونڈ رہی تھیں ۔ہلکی سی ٹھنڈک اور اندھیرے میں اس نے اپنے بابا کو باہر جاتے دیکھا ،یہ کیا ان کے ہاتھ میں بلی تھی۔وہ بھاگ کر اس جگہ آئی  جہاں بلی تھی وہ جگہ بہت گندی تھی بلی کے آخری لمحات کافی تکلیف دہ رہے ہونگے یہ اس جگہ کو دیکھ کر اندازہ ہو سکتا تھا۔ آنسو اسکی آنکھوں سے جاری تھے۔اور کتوں سے نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔اور مسیحا سے محبت میں بھی ۔اسے مسیحا بننا تھا۔اس کو کسی کتے کے غول کی وبا اپنے وجود میں نہیں اتارنی تھی۔۔

سورج کی کرنیں زمین کو چومنے لگی تھیں ۔وہ باجرہ پلیٹ میں لئے چھت کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔اسے بلی کی موت کا انتہائی دکھ تھا۔بلی کے زخم اسکے ننھے دل کو مزید اداس کر رہے تھے۔چھت کا دروازہ کھولا تو ایک پَر اسکے پاؤں پر لگ گیا۔اسکے قدم رک گئے وہ یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ جلدی سے آگے بڑھی۔چھت پر بے شمار پَر بکھرے تھے۔شکاری شکار کر چکا تھا۔کبوتروں کے آدھے کھائے ہوئے جسم چھت پر بکھرے تھے۔زمین پر کہیں کہیں خون کے دھبے تھے۔پنجرے کی جالیوں میں پھنسے پَر اور خون  لگ دیکھ کر اسکی آنکھوں کے کونے بھیگ رہے تھے۔ زمین پر قطار بنائے جا رہی چیونٹیوں میں سے کچھ رُک کر ایک دوسرے سے ہمکلام بھی تھیں اور قطار بنائے ہوئے بکھرے ہوئے پروں,خون آلود کبوتروں کے سر, اور خون کے دھبوں کو چاٹنے اور کھانے میں مصروف تھی۔۔افراتفری کا عالم تھا شکاری شکار کر چکا۔باقی رہنے والوں کو بھی اپنی اپنی فکر تھی۔پنجرے میں موجود باقی کبوتر اور طوطے اپنا دانہ چگنے میں مصروف تھے۔ایک طوطے نے پنجرے میں موجود ساتھی طوطے کا انڈا چونچ مار کر توڑ کر نیچے پھینک دیا۔دوسرے پنجرے میں موجود طوطے دانہ کھاتے ہوئے دانے پر لڑنے میں مصروف تھے۔آسمان پر اڑتی چیلیں کسی چھت پر موجود صدقے کا گوشت کھانے کو چیخ رہی تھی۔ساتھ والی چھت پر کوئی بچے ایک دوسرے کو سائیکل نہ دینے پر لڑ رہے تھے۔آسمان پر دو رنگ برنگی پتنگیں آپس میں الجھی ایک دوسرے کو کاٹنے میں مصروف تھیں ۔ہوا مرے ہوئے کبوتروں کے پَروں کو اِدھر اُدھر اڑا رہی تھی۔خون سے چمٹے کچھ پر صرف ہل رہے تھے ہوا انکو مسکن سے ہٹا نہیں پا رہی تھی۔۔اُس نے باجرے کی پلیٹ ایک دم ہاتھ سے چھوڑ کر چیخ مار دی۔پلیٹ نیچے گری تو باجرہ موتیوں کی طرح بکھرنے لگا اور زمین پر چلتی چیونٹوں پر کسی پہاڑ کی مانند گرا جن کی قطار کچھ دیر کے لئے ٹوٹ گئی ۔وہ ادھر ادھر بھاگنے لگی۔پھر اسی پہاڑ جیسی آفت کو چننے میں مصروف ہو گئی ۔پرندے کچھ لمحے کو شور سے چیخنے لگے پھر اپنی حرکات میں مصروف ہو گئے۔ایک طوطے کا جوڑا ایک دوسرے کے قریب بیٹھا آنکھیں بند کیے  ہوئے تھا ،طوطی نے اپنی گردن طوطے کی گردن کے پروں پر لگائی ہوئی تھی۔ ایک پتنگ کٹ کر ہوا میں آزاد اُڑتی ہوئی کہیں دور جا رہی تھی۔دوسری پتنگ اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے آسمان پر رقصاں تھی۔بچوں کے ہنسنے کی آوازیں فصا میں گونج رہی تھیں۔چیلیں گوشت کھا کر کسی اور ٹھکانے کی طرف روانہ ہو رہی تھیں۔

بارش کی بوندیں آسمان سے گرنے لگیں ۔پلیٹ میں بارش کی بوندیں گرنے سے عجیب شور پیدا ہو رہا تھا۔پرندے اپنی اپنی حرکات میں مصروف تھے۔چیونٹیاں پھر سے منتشر ہونے لگی۔پانی سے بچنے کی خاطر وہ اسکے پاؤں پر چڑھنے لگی۔اس نے انکی حرکت کو محسوس کرتے ہوئے پاؤں زور سے زمین پر مارا اور تمام چونٹیاں زمین پر گر گئی۔جو کہ اب بارش کی بے ترتیب بوندوں سے مکمل بھیگ چکی تھی۔اور چونٹیاں بارش کی ان بوندوں کے بوجھ سے بھاگ رہی تھی۔خون دُھل رہا تھا۔وہ پلیٹ اٹھائے نیچے بھاگتی ہوئی پنجرے سے مرے ہوئے کبوتر کا ایک پر بھی اٹھا لائی ۔اس کو کمرے میں آتا دیکھ اس کے بابا نے گود میں اٹھا لیا
“بابا بلی کو کہاں پھینک کر آئے ہیں؟باہر کوڑے میں؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

“ہاں۔باہر۔آپ پریشان نہ ہوں۔کتے بہت ظالم تھے۔بیچاری بلی” انہوں نے اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی
“نہیں بابا بلی بیچاری نہیں تھی  ۔۔اور کتے ظالم نہیں۔”وہ یہ کہتے ہی بابا کے گلے لگ گئی ، جو حیرت سے اب اسے دیکھ رہے تھے۔جو ساری رات کتوں کو ملامت کرتی رہی اور اب وہ خوش تھی۔ اور وہ مٹھی میں بند پر دیکھ کر مسکرا رہی تھی جس کو پھونک مار کر پھر مٹھی سے آزاد کر دیا۔
“پیاری وبا واقعی ہی کتوں کا غول ہے۔اور انسان بلی۔جو بچ جائے تو اصلیت پر اتر آتا ہے۔مر جائے تو معصوم کہلاتا ہے”۔
تخلیق کار اور بُت کی ہنسی کمرے کے اندھیرے میں گونج رہی تھی۔اور باہر کھڑکی پر بیٹھی چڑیا بارش سے خود کو بچانے کی جدو جہد کر رہی تھی جس کا عکس کھڑکی کے پردے پر نمودار ہو رہا تھا۔اُس نے کھڑکی کھول کر چڑیا کو اڑا دیا جو بارش کی بوندوں کے تھپڑوں سے اپنی بے ترتیب پرواز میں ٹھکانہ ڈھونڈنے کی خاطر کئی بار گر رہی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply