وحشی ماں(حصّہ اوّل)۔۔۔رمشا تبسم

کمرہ عدالت کے باہر گہما گہمی تھی۔رپورٹرز بار بار اپنے چینل کے ذریعے اپنے ناظرین تک تازہ ترین اطلاعات پہنچانے میں مصروف تھے۔سکیورٹی سخت تھی۔عوام غم و غصہ کی حالت میں عدالت کے باہر کھڑی تھی۔پولیس ان کو کسی بھی طرح کمرہ عدالت تک پہنچنے سے روکنا چاہتی تھی۔شور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔درختوں پر بیٹھے پرندے بھی اس ہلچل سے اضطراب کا شکار تھے۔سب کی نظروں سے بچا کر اس کو کمرہ عدالت تک پہنچایا جا رہا تھا۔ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ انتہائی گندے تھے۔ناخنوں,ہاتھوں اور بازوؤں پر گندگی کی تہیں جمی تھیں۔وہ کسی بے جان وجود کی مانند پولیس والوں کے کھینچنے پر کھنچتی چلی جا رہی تھی۔عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے زمین پر موجود نوکیلی چیز اسکے پاؤں میں چبھی۔وہ ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی مگر ایک دم پولیس کی گرفت مضبوط ہوئی اسکو پوری طاقت سے گھسیٹ کر کمرہ عدالت میں لایا جا رہا تھا اور وہ جو کافی وقت کچھ بھی سنے بغیر حرکت کئے چل رہی تھی اب عجیب طرح سے بے چین ہو رہی تھی، پاؤں سے نکلنے والا خون مٹی میں مل کر مٹی ہی محسوس ہو رہا تھا۔

جج کے کرسی پر بیٹھتے ہی سب کی نظریں جج پر تھیں۔انصاف کا طالب ہر شخص جج کو دیکھ رہا تھا۔
جج کارروائی شروع کرنے کا حکم دینے کی بجائے خود ہی مخاطب ہوا۔
“فرح بی بی آپ کا بیان عدالت میں موجود ہے جس میں آپ نے اعتراف کیا ہے کہ  آپ نے اپنی بیٹی کا خود قتل کیا ہے۔کیا یہ بیان آپ سے زبردستی لیا گیا ہے؟یا آپ نے کسی دباؤ میں جرم قبول کیا ہے؟ یا پھر آپ اپنا جرم واقعی مانتی ہیں کہ  آپ نےہی اپنی معصوم بچی کا قتل کیا ہے؟

“اگر حقیقت آپ کے بیان سےمختلف ہے تو آپ جان لیں کہ  آپ اس وقت عدالت میں موجود ہیں، میڈیا کی نظریں اس کیس پر ہیں۔پوری عوام سننا چاہتی ہے کہ سچ کیا ہے۔آپ بغیر کسی خوف کے سچ بتا سکتی ہیں”۔۔۔

جج کٹہرے میں کھڑی ایک ملزمہ سے مخاطب تھا۔جو کٹہرے میں جھکے سر اور کھلے بالوں میں کھڑی تھی ۔جس کی حالت اِس وقت دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ زندہ کھڑی ہے یا مردہ , یا پھر یہ کوئی عام انسان ہے یا پاگل۔مجسمہ بنی ایک عورت سب کی توجہ کا مرکز تھی۔

کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔سب کی نظریں کٹہرے میں کھڑی عورت پر تھیں۔ جو سر جھکائے اس طرح کھڑی تھی کہ  اسکے گندے الجھے ہوئے بال اسکا چہرہ چھپائے ہوئے تھے۔سر کی جلد کچھ جگہوں سے نظر آ رہی تھی جہاں زخم کے کچھ نشانات بھی دیکھے جا سکتے تھے۔

“اس نے ہی قتل کیا ہے میری ایک بیٹی کا۔ اس نے مارا ہے میری نورالعین کو۔یہ قاتل ہے میری بچی کی”۔کمرہ عدالت کی خاموشی ختم ہو گئی  تھی ۔یہ کہتے ہی اشتیاق کٹہرے کی طرف فرح پر حملہ کرنے کو بھاگا۔جس کو راستے میں پولیس اہلکاروں نے  زبردستی روک لیا۔۔مگر وہ چلاتا رہا، کہ
” اس نے مارا ہے میری ایک بچی کو۔یہ قاتل ہے ، یہ وحشی عورت ہے, وحشی ماں ہے،درندہ ہے یہ۔کھا گئی  میری بچی کو۔اس کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے”۔یہ کہتے کہتے اشتیاق روتا ہوا گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔

“آرڈر آرڈر۔ عدالت کا احترام کیا جائے اور اگر اب کسی نے کوئی ایسی حرکت کی تو اسے باہر نکال دیا جائے گا۔ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔ورنہ کمرہ ء عدالت سے باہر چلے جائیں”۔

“اسی نے مارا ہے میری بچی کو۔”اشتیاق نے آخری بار پاؤں گھسیٹتے ہوئے کرسی کی طرف جاتے ہوئے دھیرے سے روتے ہوئے پھر یہی الفاظ دہرائے ۔

جج مخاطب ہوا “آپ سب سے گزارش ہے کہ خاموش رہیں تاکہ۔۔۔”

“میں اپنی بچی کی قاتل نہیں ہوں۔نہیں مارا میں نے اسے”۔فرح کی خوفناک آواز نے جج کا جملہ درمیان میں ہی روک دیا۔

“نہیں مارا میں نے اس کو” ۔فرح نے ایک بار پھر غصے میں چیختے ہوئے سر اٹھایا۔اس کے بال اس کے چہرے کو چھپائے ہوئے تھے۔جنہیں اس نے ایک دم غصے سے پیچھے کیا اور اس کی آنکھیں غصے سے شعلے کی مانند سرخ تھیں۔اس کا چہرہ گرد سے اَٹا ہوا تھا۔عجیب  پُراسرار  سی خاموشی کمرہ عدالت میں چھا گئی ۔فرح کی  تیز چلتی سانسوں کی آواز سنی جا سکتی تھی۔
سب اسکی طرف متوجہ ہوئے۔
“اسی  نے مارا ہے”۔اشتیاق بولا

“آپ پلیز خاموش رہیں۔ملزمہ کو بولنے دیں آخری بار وارننگ دے رہا ہوں ورنہ آپ کمرہ عدالت سے باہر نکال دیئے جائیں گے۔”

“جی فرح بی بی آپ نے نہیں مارا تو پولیس کو دیا گیا بیان جھوٹا ہے؟کیا پولیس نے زبردستی بیان لیا ہے؟ “کمرہ عدالت میں بیٹھا ہر شخص فرح کے خشک ہونٹ جن پر پپڑیاں  جم  چکی تھیں  ،کو بغور دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا بولنے والی ہے۔

فرح نے سر اٹھایا بھیگی آنکھوں سے مگر غصے میں پورے کمرے کو دیکھا اور پھر اشتیاق پر نظریں جما لیں جو روتا ہوا غصے سے فرح کو ہی دیکھ رہا تھا۔

فرح نے گہرا سانس لیا۔اور اپنے ہاتھ اٹھا کر سینے کے سامنے کر لئے “ان ہاتھوں میں, میں نے اپنی بچیوں کو اٹھایا ہے”۔فرح کی آواز کانپتے ہوئے اس کے جملوں کو بار بار مکمل ہونے سے روک رہی تھی۔اسکا ہر لفظ لرز رہا تھا۔
“انکے ننھے ننھے وجود ان ہاتھوں سے پال پوس کے بڑے کئے تھے۔انکی انگلیاں اپنی انگلیوں میں تھام کر چلنا سیکھایا تھا۔کیا میں مار سکتی ہوں اپنی بچی کو؟”
فرح نے سینے پر ہاتھ رکھ کر بے بسی سے کہا۔ “بولومیں مار سکتی ہوں اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کو؟” اس بار فرح کی آواز دور دور تک سنی جا سکتی تھی۔اسکی آنکھوں میں وحشت,جنونیت اور غصے کا امتزاج لوگوں کو خوفزدہ کر رہا تھا۔

“نہیں مارا میں نے نورالعین کو۔میں نے اسکو سکون پہنچایا ہے۔ ماں صرف سکون پہنچا سکتی ہے۔مار نہیں سکتی۔ماں نو مہینے کوکھ میں رکھتی ہے اولاد کو جب اس وقت نہیں مارتی تو بعد میں کیسے مار سکتی ہے؟مارا تو انہوں نے تھا میری اریبہ کو۔میں نے صرف نورالعین کو سکون پہنچایا ہے۔”
“اریبہ؟ کون اریبہ؟ “جج نے حیرت سے پوچھا اور وکلاء کی طرف تشویش سے دیکھا۔

“اریبہ میری بچی میرے کلیجے کا ٹکڑا۔ہائے میری بچی کتنی اذیت میں مر گئی۔۔میرا کلیجہ چھلنی کر دیا ظالموں نے۔”فرح روتے ہوئے کٹہرے میں بیٹھ کر سر پیٹنے لگی۔
“میری اریبہ میرا سب کچھ میری بچی۔”فرح نے روتے روتے اپنے الجھے اور گرد سے اَٹے بالوں میں تیز تیز خارش کرنا شروع کردی۔
اشتیاق کرسی کو مضبوطی سے تھام کر غصے سے فرح کو دیکھ رہا تھا۔
“اریبہ کو کس نے مارا؟فرح بی بی اور نورالعین کا قاتل کون ہے؟ہم یہاں نورالعین کے قتل کا فیصلہ کرنے والے ہیں؟کیا آپ کو علم ہے نورالعین کا قتل کس نے کیا ہے؟”

“ششش۔شششش چپ بالکل چپ۔ “فرح کٹہرے میں پھر سے کھڑی ہوئی۔
“ششش۔۔ نورالعین کا قتل نہیں ہوا میری بچی سکون میں ہے۔ میری اریبہ میری دوسری بچی وہ قتل ہوئی ہے۔اسکا قتل ہوا ہے۔”

تو نورالعین کہاں ہے ؟وکیل نے استفسار کیا

“جج صاحب میں بتاتا ہوں “۔اشتیاق کھڑا ہوا

“آپ کو جو کچھ کہنا ہے کٹہرے میں آ کر کہیں”۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری  ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply