زندہ مُردے۔۔رمشا تبسم

جب میں مر گئی  تو مجھے قبر میں اتارنے والے سب ہاتھوں سے مجھے الجھن ہو رہی تھی۔یہ ہاتھ مجھے نوچتے رہے ہیں۔یہ تمام وجود جو میرا جسم دفن کرنے آئے ہیں، مجھے ان سے گھن آ رہی تھی۔مجھے بس جلدی تھی کہ  مجھے قبر میں اتار دیا جائے۔قبر کی تاریکی میرے لئے خوف نہیں بلکہ راحت کا باعث ہو سکتی تھی۔جسکی زندگی ہوس کی کال کوٹھڑ ی میں حیوانیت کے  جنون  کے سائے میں گزری ہو اس کو قبر کا اندھیرا اور کیڑے مکوڑوں کا نوچنا خوفزدہ نہیں کر سکتا۔مجھے جلدی تھی کہ  مجھ پر بس مٹی ڈال دی جائے۔وہ مٹی جو کاش اگر دنیا والوں کی ہوس پر اس وقت پڑ جاتی جب وہ میرے وجود کی تاک  میں رہتے تھے تو شاید میں مرنے سے بچ جاتی۔مگر موت تو اٹل حقیقت ہے۔اور اب صرف موت ہی مجھے قدرت کا واحد تحفہ محسوس ہو رہی تھی۔یا شاید موت ہی میری زندگی  میں قدرت کی   وہ واحد رحمت ثابت ہوئی جس نے مجھے زندگی کی ہر زحمت سے نجات دلا دی ،وگرنہ تو کوئی رحمت کبھی مجھے نصیب نہ ہوئی۔سر پر آسمان تھا تو بے آسرا رہی ،مگر مرنے کے بعد وجود پر جب مٹی پڑ جائے گی تو اب یہ ٹھکانہ مجھے لمحے بھر کو پُرسکون محسوس کروا سکے گا۔قبر ہی اب میرا واحد آسرا تھی۔ہاں قبر میری محافظ تھی۔صرف قبر کا اندھیرا ہی مجھے روشن دنیا میں ہونے والے ظلم کے کرب سے نجات دلا سکے گا۔لوگ کھلی فضا میں سانس لینے کو ترستے ہیں اور میں تو ہر پل قبر کی تاریکی میں جینے کی تمنا کرتی رہی ہوں۔موت کی خواہش میں ہر لمحے جیتی رہی ہوں۔مگر اب موت کی خواہش نہیں رہے گی اور نہ ہی قبر کی تمنا۔کیونکہ اب تو میں زندگی میں ایک عرصے سے جو ٹھکانہ چاہ رہی تھی وہ مل رہا ہے۔ہاں مجھے موت کی طلب تھی اور موت ہی میرا سکون ہو سکتی تھی۔

اب جب کہ  میں مر گئی  تھی تو حیرت ہے کہ  کچھ کے لئےاب بھی زندہ تھی۔کچھ لوگوں کو میری موت میرا خاتمہ لگ رہی تھی اور اپنی بقاء۔اور کچھ کو میری موت انکی نفسانی خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بھی محسوس ہو رہی تھی۔موت اختتام ہے مگر موت کچھ لوگوں کی بقاء بھی۔وہ بقا پھر اپنے گناہوں اور جرائم پر پردہ پڑنے سے وجود کی بھی ہو سکتی ہے اور نفس کی بھی۔

سب مجھے زمین کی آغوش میں دے گئے ۔مگر جس کو اسکی ماں کی آغوش نصیب نہ ہوئی ہو اس کو زمین کی آغوش بھی راس نہ آئی۔ مگر حیوانیت تو اکثر اب قبرستانوں میں بھی پروان چڑھتی محسوس ہوتی ہے۔کیڑے قطار بنا کر میرے جسم کو کھانے کے لئے دوڑ رہے تھے،چیونٹیاں میری آنکھوں میں گھس چکی تھیں۔چہرے پر رفتہ رفتہ گرتی مٹی مجھے سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔مجھے سکون چاہیے  تھا، زندگی میں پل پل غلاظت سے ملی اذیت نے سکون نہ لینے دیا ،مگر اب موت کے بعد بھی اتنی بے سکونی کیوں میرا مقدر تھی؟۔میرے کانوں میں داخل ہوتے کیڑوں کی حرکت مجھے خوفزدہ کر رہی تھی۔جسم پر رینگتے کیڑے عجیب ہلچل میں تھے۔وہ بھوکے تھے۔ان کو بھی بھوک سے غرض تھی نہ کہ  کسی کے سکون کی پرواہ۔سفید اور کالے کیڑے قبر کی دیواروں میں سوراخ کرتے ہوئے داخل ہو رہے تھے۔میری آنکھوں کو   نوچ رہے تھے۔روشنی نہ تھی مگر قبر میں موجود میری قبر کے دوسرے مکین جو صرف مجھ سے بھوک مٹانے آئے تھے ان کیڑوں میں سے کچھ کی آنکھیں چمک رہی تھی۔پاؤں پر سے رینگتا ہوا کوئی جانور میرے سر کی طرف آ رہا تھا۔کفن پر پڑا کیڑوں کا بوجھ مجھے محسوس ہو رہا تھا۔بچھو میرے گوشت پر رینگتے ہوئے اپنی بھوک مٹانے کو دوڑ رہے تھے۔اچانک قبر کی مٹی تیزی سے گرنا شروع ہوئی۔کیڑوں میں ہلچل تیز ہو گئی ۔افراتفری کا سماں تھا۔میرے وجود پر موجود کوئی بڑا جانور واپس قدموں کی طرف رینگتا چلا جا رہا تھا۔میرے کفن سے بوجھ ہلکا ہو رہا تھا اور دوسری طرف مٹی تیزی سے گر رہی تھی۔ قبر کی سلیب  پیچھے ہٹ رہی تھی۔کیڑے میری آنکھوں سے نکل رہے تھے۔میرے کانوں سے دماغ تک پہنچنے والے جانور قبر میں آئی  اس ہلچل سے بے خبر تھے۔جسم کئی جگہ سے کھا کر پیٹ بھر رہے جانور ایک دم واپس قبروں کے سوراخوں میں گھسنے لگے۔ سلیب  مکمل ہٹ چکی تھی۔میرے وجود پر بے شمار ننھے کیڑے رینگ رہے تھے۔سانپ کی دُم قبر میں ایک سوراخ سے ذرا سی باہر تھی۔کوئی ہنس رہا تھا۔اوپر ہلکی سی روشنی موجود تھی۔مگر روشنی میری دشمن تھی۔ہر صبح آنکھ کھلتے ہی روشن سویرے کو دیکھ کر مجھے خود سے نفرت ہوتی تھی ۔زندہ رہ جانا کس قدر باعث اذیت تھا ،میں بیان نہیں کر سکتی۔گندگی اور وحشت جو رات میرے کمرے میں ہلچل مچاتی تھی اس گندگی سے نجات صرف موت تھی۔مگر زندگی تو صرف میرے لئے زحمت رہی۔اب روشنی عین میرے اوپر تھی ۔قبر میں آتی روشنی اور آوازیں کیڑے مکوڑوں کو انکی خوراک میں خلل محسوس ہو رہی تھیں ۔کوئی نیچے جھکا اور میری ٹانگ سے پکڑ کر مجھے کھینچنے لگا ۔سانپ نے اپنی دُم مکمل سوراخ میں کر کے خود کو چھپا لیا۔ہوس کی بھوک مٹانے والوں نے گوشت سے بھوک مٹانے والے کیڑوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔

قبر کے کیڑوں کی بھوک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے نفس کی بھوک مٹانے کے لئے مجھے قبر سے نکال کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔
کفن پر پڑی مٹی میرے وجود پر زندگی میں پڑی خاک کی گواہی دے رہی تھی اور جسم پر رینگتے کچھ کیڑے اب بھی اپنی بھوک مٹانے میں مصروف تھے۔میری آنکھوں کی پتلیاں کھائی جا چکی تھی۔میرے دماغ میں کیڑوں کا ہجوم موجود تھا جو مسلسل اب بھی مجھے نوچنے میں مصروف تھا۔مجھے کھینچ کر درخت کے نیچے لایا گیا۔ کچھ کیڑے میرے وجود سے زمین پر گر گئے اور کچھ میرے وجود تلے روندتے چلے گئے۔حیوانیت ہنس رہی تھی۔رات طمطراق سے چھائی ہوئی تھی۔افق پر سے آتی چاند کی ٹھنڈی روشنی بھی حیوانیت کی آگ کو بجھا نہیں پا رہی تھی۔ میری آنکھیں مکمل کھائی جا چکی تھیں ۔چاند پر چرخا کاتتی اماں شرم کے مارے اپنے چرخے میں اپنا سر چھپا چکی تھی۔درختوں پر الٹے لٹک رہے چمگاڈر یہ سب دیکھے بنا ہی خوف اور شرم سے درختوں سے زمین پر گرنا شروع ہو گئے۔پرندوں کے گھونسلوں میں موجود بچے اپنی ماں کے پروں میں چھپ گئے۔قبروں پر پڑا پانی کا پیالہ بلی نے زمین پر گرا دیا۔چیونٹیاں قبر  پر پڑا دانہ چھوڑ کر بھاگنے لگیں ۔قبرستان کے باہر کتوں کے بھونکنے کی آوازیں تیز ہو رہی تھیں۔ایک قبر پر جلتے ہوئے دیئے پر جلتے ہوئے پروانے خود کو جلدی سے فنا کرنے لگے۔ ۔برگد کے درخت پر بیٹھا اُلو مسلسل بنا حرکت کیے سب منظر دیکھ رہا تھا۔
میرے چہرے پر رینگتے کیڑے اور جسم کو نوچتے حیوان ایک دوسرے کے کام میں دخل اندازی نہیں کر رہے تھے۔دونوں اپنی اپنی بھوک مٹانے میں مصروف رہے۔حیوانیت کا کھیل ایک شخص کے بعد دوسرے نے کھیلا۔اس وقت بھی کھلے آسمان تلے میرے جسم پر جانوروں کا مکمل قبضہ تھا۔کچھ جانوروں کو میرا گوشت کھانا تھا اور کچھ جانوروں کو اس گوشت کے کھائے جانے سے پہلے اور دوسرے جسم کے آنے تک اپنے نفس کا پیٹ بھرنا تھا۔زندگی اور موت دونوں میرے لئے زحمت ثابت ہو رہی تھیں ۔میں زندہ مُردوں کے ہجوم کے لئے ہمیشہ زندہ ہوتے ہوئے بھی بے جان رہی اور مر کر بھی بے جان رہی۔میرا وجود محض ایک جسم رہا زندہ ہوتے ہوئے بھی اور مر کر بھی۔اسکی روح تو کسی کو محسوس تک نہ ہوئی۔اس جسم میں موجود زندگی کی اذیت کسی کو کبھی معلوم تک نہ ہوئی۔زندہ مُردوں کی ہوس بجھانے کو قبر کے مُردے بھی اب اذیت سہتے رہتے ہیں ۔ان دونوں جانوروں کی ہوس کی بھوک مٹ گئی  تو مجھے کھینچ کر قبر میں پھینک دیا۔اوندھے منہ قبر میں گری تو سانپ نے پھر سے دم باہر نکال لی۔مٹی واپس میرے وجود کو ڈھانپ رہی تھی اب پھر مکمل اندھیرا تھا ۔اب ان قبر کے جانوروں کے لئے آسانی تھی کہ  جسم پر موجود کفن درخت کے نیچے ہی کہیں رہ گیا تھا۔ اب گوشت کھانے کے لئےاور گوشت ڈھونڈنے کے لئے کیڑوں کو محنت درکار نہ تھی۔سانپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مجھ پر قبضہ کر چکا تھا۔

مگر کاش! یہ آج ہی مجھے مکمل کھا جائیں کہ  اور کسی زندہ مُردے کی بھوک مٹانے کو میں موجود نہ رہوں۔میں زندگی میں بھی اور اب موت کے بعد بھی بھوک مٹا مٹا کر تھک گئی  ہوں۔مجھے کھایا جا رہا تھا اور اب یہ کھا جانا ہی میری نجات ثابت ہو گا۔وگرنہ باپ اور چچا نے جو حیوانیت کے کھیل کھیلے اب وہی کھیل اس قبرستان میں بھی مجھے سہنے ہونگے ۔ماں تو اپنی عزت پر حرف آتے ہی بغاوت کر کے گھر سے نکل گئی  اور مجھے میرے ہی پیدا کرنے والے حیوانوں کے حوالے کر گئی  مگر میں اب کسی زندہ مُردے کی بھوک مٹانا نہیں چاہتی۔یہ جسم پر گوشت ہی باعث اذیت ہے۔جو اب کیڑے مکمل طور پر کھانے میں مصروف تھے۔اب قبر میں میرے پرسکون ہونے میں بس کچھ ہی لمحے باقی تھے۔کاش آج کیڑوں کی بھوک بڑھ جائے۔کاش آج اسی رات اسی لمحے کیڑوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔انکی بھوک کا بڑھ جانا میرے لئے اب واحد رحمت ثابت ہو رہا تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاخ پر بیٹھے اُلو کی آنکھوں سے اب خون بہہ رہا تھا۔بلی کسی قبر میں پڑے گڑھے سے ہڈی نکال کر اسکو ٹٹولنے میں مصروف تھی۔کفن کندھے پر ڈالے قبرستان سے نکلتے ہوئے کوئی بلند آواز میں قہقہے لگا رہا تھا۔تمام مُردے ڈرے سہمے قبروں سے نکل کر قبرستان کے ایک کونے میں کھڑے میری بربادی پر ماتم کناں تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply