شہر کی آنکھیں ویراں ہو چلی
بَستی ہی ساری تباہ ہو چلی
جو کہتے تھے ڈرتے نہیں ہم کبھی
اُنہی کی نگاہیں پریشاں ہو چلی
وُہ صَدی محبت سے آباد تھی
یہ صَدی تو وبا سے تباہ ہو چلی
اَنا کے جو تھے بُت خانے آباد
اُنہی سے خدائی جدا ہو چلی
اُس زیست میں حسرتِ بقاء تھی
یہ زیست وبا سے فنا ہو چلی
جو لگاتے تھے شجرِ الفت کبھی
اُنہی کی ہریالی ویراں ہو چلی
عزیزوں کی آوازیں گمنام ہو چلی
خوشیاں ہی ساری غمناک ہو چلی
کاروانِ دنیا ہے خطرے میں اب
رَمشّا بھی اب تو خاک ہو چلی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں