شطرنج پر ہمارے جیسے ناپختہ اور نئے کھلاڑی نماء اناڑی کا بات کرنا اور اسے بیان کرنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے سمندر سے کوئی ایک کوزہ پانی بھرے اور کہے کہ سمندر کو بغل میں دبا کے← مزید پڑھیے
کردار: عبداللہ، محمد فیصل، فیصل خان، ظاہر شاہ۔ مقام: خنجراب سے براستہ بابوسر ٹاپ گیٹی داس تک۔ وقت: رات دس سے تین بجے تک۔ کہانی: چار دوست جو دن کی روشنی کی بجائے سیاہ راتوں کو کوچ کرنا پسند کرتے← مزید پڑھیے
عظیم الشان محل میں چاروں طرف رنگینی بکھری ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہاں موجود ہر شخص میری خوشی کے لئے ہی معمور کر دیا گیا تھا۔ میں ایک بڑی میز کے سامنے خوش پوش لباس میں ملبوس بیٹھا← مزید پڑھیے
حالیہ ماحول جو بنا ہوا ہے اِس مرض کی وجہ سے وہ اتنا عام نہیں جتنا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے سمجھ رکھا ہے۔ اِن کو اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا کہ باقی کی دنیا جن میں چین،← مزید پڑھیے
جناب رسالت مآبﷺ کے ساتھ نسبت اور عقیدت و محبت کا اظہار ہمارے ایمانی تقاضوں میں سے ہے اور ہر مسلمان کسی نہ کسی انداز میں اِس کا اظہار ضرور کرتا رہتا ہے۔ اِس کے ساتھ یہ بات بھی پیش← مزید پڑھیے
تعارف: ہم کون ہیں؟ دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے رہنے والوں میں ایک پہچان اور شناخت کا ہونا ایک متحد قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ زیادہ تر ممالک میں اپنی قومی پہچان ہی اصل پہچان سمجھی جاتی ہے۔← مزید پڑھیے
سیاست ہر ملک میں ایک الگ انداز سے ہوتی ہے اور اُس اندازِ سیاست میں روایتی طنز و تنقید ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ سیاسی رہنما اپنے مخالف پر لفظی گولہ باری کرتے ہیں اور اُن کے پیروکار← مزید پڑھیے
جان سے پیاری آج آپ کا تیسرا خط ملا مگر میں نے جواب لکھنے تک بہت سوچا۔ شاید تاخیر تم پر گراں گزری ہو۔ بار بار لکھنے لگا اور اپنا لکھا ہوا ٹکڑے ٹکڑے کرتا رہا۔ تم نے پوچھا← مزید پڑھیے
انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات کے عظیم درجے کے ساتھ اِس دنیا میں اُتارا ہے۔ بیشک انسان اللہ تعالی کی ایک عظیم مخلوق ہے۔ اسی عظیم مخلوق میں ہر وہ جذبہ موجود ہے جو اُس کے لئے زندگی← مزید پڑھیے
گھر کے ماحول میں ایک عجیب سی طلب چھپی بیٹھی تھی۔ ہر کسی کی نظروں میں اُس کے آنے کی اُمید دیکھی جا سکتی تھی۔ چھوٹے بڑے اور بزرگ سبھی کو اُس کی آمد کا شِدت کے ساتھ انتظار← مزید پڑھیے
سارے ملک میں جیسے کہرام برپا ہوچکا تھا۔ تبدیلی سرکار پر طنز و تحقیر میں اپنا الثانی نہ رکھنے والوں کی زبان بھی جیسے گویائی سے محروم ہوگئی تھی۔ ہر طرف ایک وحشت نے ماحول کو اپنی لپیٹ ← مزید پڑھیے
افسوس اِس بات کا نہیں ہو رہا کہ تنقید کی وجہ بغض اور کینہ ہے۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ کاش بطور ایک پاکستانی متعلقہ حضرات ماضی کے گزرے ہوئے خودساختہ نجات دہندگان پر بھی اِسی طرز کے جملے کس دیتے تاکہ ملک و قوم میں ایک پائیدار ریاست کا ظہور وجود میں آ جاتا۔← مزید پڑھیے
غزہ کی ایک رات۔۔۔ پانچ سالہ نجلا اپنے پاپا کے ساتھ کھیل کھیل کر تھک چکی تھی اور اب وہ گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اُس کے پاپا نے آج اُس کے لیے بازار سے ایک کھلونہ بندر خریدا← مزید پڑھیے
مولا بخشے ہمارے محلے میں ایک “چاچے” کو جن کے جنازے میں ہم شریک نہ ہوسکے۔ نام تو اُس کا سرور خان تھا مگر سب محلے والے اُسے “چاچے” کہہ کر پکارتے تھے۔ کمال کے انسان تھے۔ یوں سمجھیں کہ← مزید پڑھیے
کہتے ہیں کہ تب تک پڑھو جب تک آگے پڑھنے کی اُمنگ و آرزو قائم نہ ہو جائے۔ یہ جملہ شاید کسی کسی کو سمجھ میں آتا ہے اور کچھ لوگ اِس کو لکھاری کی کچھ لفظی کاوش سے زیادہ← مزید پڑھیے
ہمارا تعلق ایک متوسط خاندان سے ہے یا آپ اسے سفید پوش کہہ سکتے ہیں۔ والد صاحب کی ایک ڈاکخانے میں سرکاری نوکر تھے۔ جس کی تنخواہ اتنی تھی کہ ہمارے کنبے جن میں ہم ہمارے تین بھائی ایک بہن والدہ اور چاچی کے ساتھ ہمارا ایک چچا زاد ہے شامل تھے کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا تھا۔ چچا ہمارے باہر ملک دبئی میں ہوتے تھے مگر ایسے گئے کہ جب بھی پاکستان سے گئے پانچ یا سات سال تک واپس گھر نہیں آتے تھے۔← مزید پڑھیے
وہ اُس کی زندگی کا ایک سیاہ دن تھا۔ جب اُس کے گھر کا ماحول اچانک ماتم کدے میں بدل گیا۔ ایک شخص اُن کے گھر کی گھنٹی بجاتے ہوئے کسی کو پکارتا رہا۔ جب اُس کی ماں دروازے پر← مزید پڑھیے
میرے ان چند الفاظ کی شاید کسی کے سامنے کوئی اہمیت نہ ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ کوئی اِس کو ایک عام سی تحریر سمجھ کر نظریں پھیر لے، یا اپنی موبائل اسکرین کو سکرول کرکے کچھ اور دیکھنے میں← مزید پڑھیے
ہماری قومی ساخت ہی کچھ ایسی بن چکی ہے کہ جہاں دیکھیں ہم کو ہر دوسرا شخص جھوٹا، دھوکے باز، چور اُچکا، زانی، ڈاکو، ظالم، اور حرام خور نظر آتا ہے۔ جُرم ہوجاتا ہے اور جب خوب دوڑ دھوپ← مزید پڑھیے
فرشتہ مومند سمیت تمام مَسلی ہوئی کلیوں کے نام۔ کبھی کبھی میں اپنی سوچ و خیال کے محور میں خود کو سنی دیول کے روپ میں محسوس کرتا رہتا ہوں۔ اور اُس کے ڈائیلاگ اور مکالمے منہ ہی منہ میں← مزید پڑھیے