حالیہ ماحول جو بنا ہوا ہے اِس مرض کی وجہ سے وہ اتنا عام نہیں جتنا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے سمجھ رکھا ہے۔ اِن کو اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا کہ باقی کی دنیا جن میں چین، ایران اور یورپ خاص کر شامل ہیں وہ اِس مرض سے کترا رہے ہیں۔ اور خاص کر چین نے اپنی نسلوں کی پوری قوت بروئے کار لاکر اِس وباء کو قابو کرنے کی ہمت دکھائی ہے۔ مگر پھر بھی یہ کسی غیر مرئی قوت کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔
ایران میں پھنسے پاکستانی زائرین جن میں زیادہ تر لوگ اِس مرض میں مبتلا ہیں وہ پاکستان آنے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے۔ بطور پاکستانی شہری یہ اُن کا بنیادی حق بنتا تھا اور حکومت انہیں اُن کے اِس حق سے دستبردار نہیں کرسکتی تھی۔۔ مگر یہ تلخ حقیقت بھی سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ آیا پاکستان کی حکومت میں اتنا دم خم موجود ہے کہ وہ اُن آنے والے لوگوں کی مکمل توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کر لے گی؟
حقیقت سے چشم پوشی کی جو سزا آج ایران اور اٹلی بھگت رہے ہیں اللہ تعالی نہ کرے کل وہی سزا پاکستان کے عوام کو بھی بھگتنی پڑے۔ خوف اور دہشت کے سائے تو ویسے بھی میڈیا اور سوشل میڈیا نے پاکستانیوں کے خون میں اُتار دیئے ہیں۔ رہی سہی کسر حکومت کے بےڈھنگ کرتوتوں سے پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
سب سے فاش غلطی تو یہ کردی حکومت نے کہ بارڈر کھول دیا۔
دوسرے درجے پر یہ کہ بارڈر ایسے وقت پر کھولا گیا کہ نہ تو اُن کے پاس اِن نامعلوم مریضوں کی تشخیص کے لئے ضروری ادوایات اور سامان موجود تھا، بلکہ سرے سے کوئی خاص مقام جو کہ مستقل اُن کے لئے مختص کیا گیا ہو ،بھی موجود نہ تھا۔
اس کے بعد بھی عجیب قدم اٹھایا گیا کہ تفتان بارڈر کے ساتھ خاصی زمین ہونے کے باوجود مریضوں کو مُلک کے دوسرے حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔
لاک ڈاؤن کے نام پر تمسخر اڑایا گیا اور اُڑایا جا رہا ہے۔
باقی کی کسر اس بات نے پوری کردی ہے کہ کچھ مریض موقع پا کر فرار بھی ہوچکے ہیں۔ اور نجانے وہ اِس فرار میں کتنے لوگوں سے مل کر اور چھو کر گئے ہیں؟
بائیس کروڑ کے ملک میں یہ سب ہونا اگر کوئی خاص بات نہیں تو عام بھی نہیں کہ اِس سے نظریں چرا کر فراموش کردیا جائے۔
ابھی خبروں میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ تفتان بارڈر پر بنائی گئی خیمہ بستی میں ڈاکٹروں نے جانے سے انکار کردیا ہے۔ یہ تو آپ کو ہمیں اور باقی سب کو معلوم ہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں میں کچھ کو چھوڑ کر سب عوام کا خون چوسنے اور اُن کی ہڈیاں چبانے والے لوگ ہیں۔ ایسے لوگ جن کا خدا پیسہ اور ایمان دولت ہو اُن میں انسانیت کے لئے کچھ خدمت کرگزرنا ایسا ہے جیسے کسی بانجھ سے اولاد کی اُمید رکھنا۔
الفاظ کو تلخی میں ڈبو کر اِس لئے پیش کرنا پڑا کہ آج سوال کچھ لوگوں کا نہیں بلکہ پورے ملک میں بسنے والے لاچار و غربت تلے دبے عوام جو کہ پہلے سے مصائب اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے ہیں اُن کا ہے۔
حکومت کی حالیہ حالت تو یہی ہے کہ اس سنگین صورتحال میں بھی ہمارے وزیر اعظم صاحب کھلے عام قرضے معافی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اِس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر اِس معاملے میں سخت ترین فیصلے نہ کیے گئے تو نجانے اِس آزمائش میں ہمیں کتنے عزیزوں کو کھونا پڑ جائے۔ (اللہ نہ کرے)
ہم سب کو جذبات سے ہٹ کر اور کھلے دماغ کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم کچھ لوگوں کی خاطر اتنے بڑے ملک کو داؤ پر لگانے کی حالت میں ہیں اور کیا یہ ضروری تھا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں