شطرنج۔۔عبداللہ خان چنگیزی

شطرنج پر ہمارے جیسے ناپختہ اور نئے کھلاڑی نماء اناڑی کا بات کرنا اور اسے بیان کرنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے سمندر سے کوئی ایک کوزہ پانی بھرے اور کہے کہ سمندر کو بغل میں دبا کے ساتھ لئے جا رہے ہیں۔ کچھ عرصے سے قریبا ایک سال کے عرصے سے اپنے ایک کزن کے ساتھ اِس پُراسرار اور انتہائی وسیع کھیل کے رموز و اوقاف جاننے میں لگ گیا۔ مہروں کے ناموں سے لیکر اُن کی مار تک شطرنج کے بساط کے ہر ایک گھر کو بار بار سوچا سمجھا اور جاننے کی کوشش کرتا رہا۔ بار بار ناکامی ہوئی بار بار کوشش کی۔ شوق جب جنون میں تبدیل ہوجائے تب دیوانگی جنم لیتی ہے۔ یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ دن رات ایک کرکے یوٹیوب، پی ڈی ایف، رسائل، اخبارات اور ٹی وی شوز تک ہر ایک شے کو کھنگالا اور دیکھنے کی کوشش کی۔

یہاں کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ اتنی ریسرچ اور تگ و دو صرف ایک کھیل کے لئے کیوں اور وہ بھی ایسے کھیل کے لئے جس کا کوئی پاکستان میں نام لیوا تک نہیں؟ شطرنج صرف ایک انڈور کھیل نہیں ہے بلکہ اِس میں ایک دنیا آباد ہے۔ خواہ آپ اس کھیل میں کتنی ہی مہارت کیوں حاصل نا کریں آج تک اس کی گہرائی کوئی ہضم نہیں کرپایا اور نا شاید کو کرپائے گا۔ شطرنج کا ایک حقیقی شیدائی اگر آپ دیکھیں تو اُس کی زندگی کے ہر ایک لمحے میں آپ کو کسی نا کسی مہرے کی چال دیکھائی دے گی۔ وہ اپنی زندگی کو بھی بساط سمجھ کر کھیلنے لگتا ہے اور کبھی مات نا کھانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ یوں تو اس کے خوائص بیان کرنے کے لئے عشرے درکار ہیں لیکن ہم یہاں شطرنج کی بساط اور اُس کے مہروں کو تھوڑا سا بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شطرنج کی چوکور بساط میں چونسٹھ مربع خانے ہوتے ہیں۔ ہر ایک خانہ یا گھر ایک عدد ہندسے اور ایک عدد انگریزی حرف کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر ایسی بساط نہایت ضروری ہوتی ہے جس کے چاروں اطراف میں ہندسے اور انگریزی حروف موجود ہوں۔ چونسٹھ گھروں میں آٹھ کے حساب سے ہر ایک کالم اور رو میں آٹھ آٹھ گھر ہوتے ہیں۔ جن سمتوں میں یعنی کے ایک دوسرے کے روبرو جو کھلاڑی بیٹھتے ہیں اُن کے پہلے دو لائنوں یا لکیروں میں پہلی لکیر میں مہروں کی ترتیب یوں ہوتی ہے کہ بائیں سے شروعاتی پہلے گھر میں رخ/قلعہ، دوسرے میں گھوڑا، تیسرے میں ہاتھی، چوتھے میں بادشاہ، پانچویں میں رانی/وزیر، چھٹے میں دوسرا ہاتھی، ساتویں میں دوسرا گھوڑا، آٹھویں میں دوسرا رخ/قلعہ رکھے جاتے ہیں۔ جبکہ اسی طرف کے دوسری لائن پر یعنی کے اس سے آگے ایک قطار میں ایک کے بعد دیگرے بائیں سے دائیں جانب ترتیب وار آٹھ پیادوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔

مُہروں کی چالیں اور اُن کے درمیان ہونی والی “خون ریز” لڑائی کو صدیوں سے انسانی لڑائیوں کے ساتھ جانچا ناپا جاتا رہا ہے۔ شطرنچ کی چالوں اور بساط کے الفاظ ہزاروں محاوروں اور فلموں کا حصہ رہے ہیں۔ شاطر یا شطرو کے معنی چالاک اور عیار کی وجہ ہی شطرنج کا کھیل ہے۔ اِس بساط پر کھیلی جانی والی بازی لاتعداد ذہنی کیفیات سے دوچار کرتی ہے۔ انسانی ذہن کس انداز سے سوچ سکتی ہے اور کیسے کیسے جال بنا سکتی ہے اِس کا اندازه تب ممکن ہے جب اِس کھیل میں خود بازی لگائی جائے اور اپنے مہروں کو بچانے کے لئے سوچا جائے۔ شطرنج میں گھوڑے کی چال کو کافی شہرت حاصل ہے جو کے ڈھائی چال کہلاتی ہے۔

اِس کھیل کے علامتی مہرے دو رنگ کے ہوتے ہیں جن میں کالے اور سفید شامل ہیں۔ بازی کی شروعات سفید مہروں والا کھلاڑی کرتا ہے اور ایک دنیا اِس بات پر متفق ہے کہ پہلی چال کو بہترین انداز اور سوچ سے چلنے والے اکثریت میں جیت جاتے ہیں۔ اِس لئے سفید مہروں کے ساتھ شروعات انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ جس طرح کے ہر ایک کام اور کھیل میں شروعاتی قدم اہم ہوتا ہے اسی طرح ایک شاطر کھلاڑی شطرنج میں پہلی چال سے ہی مخالف کو کافی حد تک گھیر لیتا ہے۔

شطرنج ایک عام کھیل نہیں اور نا ہی ایک عام شخص اِس کو پسند کرپاتا ہے۔ اِس کے لئے گہری سوچ اور دماغی حاضری نہایت ضروری ہے۔ ایک چال میں بھول چوک کرنے سے ساری کی ساری بازی الٹ سکتی ہے۔ جیسا کہ مشہور ڈائیلاگ ہے “اب دیکھو رابرٹ میں ایک چال سے کیسے بازی کو پلٹ دیتا ہوں”۔ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ خواہ ہالی ووڈ ہو یا بالی ووڈ ہر ایک انڈسٹری نے شطرنج سے کافی معنی خیز مکالمے اور الفاظ وصول کیئے ہیں۔

شطرنج کے کھیل کا نام لیا جائے اور سیاست پر بات نا ہو یہ ممکن ہی نہیں۔ شطرنج اور سیاسی چالوں میں انتہائی یگانگت اور دوستی ہے۔ جس طرح ہر بساط پر موجود وزیر اپنے بادشاہ کو بچانے اور مخالف کو زدوکوب کرنے کے لئے اپنی مہروں والی فوج کو استعمال کرتا ہے بلکل یہی مثال جمہوری سیاست کی ہوتی ہے۔ شطرنج کی چالوں کو دیکھ کر اور سمجھ کر سیاستدان اپنے مخالفین پر برسوں سے وار کرتے آرہے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں شطرنج کا کھیل ناپید ہے بلکہ شاید بہت سے لوگ اِس کے نام سے ہی ناواقف ہیں۔ لوگ اسے ایک علاقائی لوک کھیل “شیربوز” کا نام دیتے ہیں جبکہ وہ ایسا نہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں شطرنج کافی واسیع سطح پر کھیلا جاتا ہے۔ وہاں کے مشہور کاروباری شخصیت ٹاٹا اپنے ٹاٹا سٹیل کے بینر تلے مقابلے منعقد کرتا ہے۔

عالمی سطح پر ورلڈ چیمپئن کا تمغہ 2014 سے ایک نارویجین “ناروئے کا رہنا والا” جس کا نام مگنس کارلسن ہے اُس کے نام ہے جو کہ آج تک برقرار ہے۔ خیال رہے کہ یہ تمغہ مگنس کارلسن نے ایک ہندوستانی حریف وشوانتھن اَنند کو ہرا کر اپنے نام کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر کو شطرنج کی آخری چال کی جانب لے جاتے ہوئے یہی اُمید کی جاسکتی ہے کہ شاید پاکستان میں کبھی نا کبھی اِس کھیل کو عروج ملے اور ہر خاص و عام اِس جناتی کھیل میں مہارت حاصل کرے۔ یاد رہے کہ سیکھنے والوں کے لئے آج جتنی آسانی یوٹیوب اور گوگل نے میسر کی ہے اِس سے پہلے شاید کسی نے سوچا تک نہیں ہوگا کہ شطرنج ایسی سیکھی جاسکی گی۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply