بابوسر ٹاپ کی ایک رات۔۔عبداللہ خان چنگیزی

کردار: عبداللہ، محمد فیصل، فیصل خان، ظاہر شاہ۔

مقام: خنجراب سے براستہ بابوسر ٹاپ گیٹی داس تک۔
وقت: رات دس سے تین بجے تک۔
کہانی: چار دوست جو دن کی روشنی کی بجائے سیاہ راتوں کو کوچ کرنا پسند کرتے ہیں۔

آخر وہ کونسی قوت تھی جو میرے بار بار سمجھانے کے باوجود محمد فیصل کو مجبور کر رہی تھی کہ خنجراب سے نکلے اور ناران پر نہ رکے تو نام “طرم خانوں” میں شمار نہ  ہوگا۔ میرے بہت اصرار کے باوجود چلاس اور بابو سر ٹاپ کے ابتدائی مقام   پرہم رات کے دس بجے رک گئے اور آس پاس اکا دکا موجود مقامی لوگوں سے کسی ہوٹل کا پوچھنے لگے۔ ہمارے حلیے دیکھ کر شاید اُن میں سے ایک دو کو ہماری ذہنی کیفیت پر شک ہو چلا تھا اور شاید اسی وجہ سے جیسے ہی میں اُن کے قریب گیا وہ آئیں بائیں شائیں کرکے یہاں وہاں ہوگئے۔ ایک بھلا آدمی اُونی چادر لپیٹے کھڑا رہا اور بتایا کہ کچھ آگے جانے پر ایک دکان کھلی ہوگی جہاں پر شاید کچھ کھانے کو مل سکے۔ میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور بائیک کو آگے بڑھا دیا۔ اُس رہبر کی بات سچ ثابت ہوئی اور ہمیں کچھ ہی دور ایک دکان سے زرد روشنی چھلکتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ سب کچھ بند ہوچکا ہے اور شاید کھانے کو کچھ باقی نہ  بچاہو۔ ہماری بہت منت سماجت کے بعد باورچی نے چولہا جلایا اور دوسرے ساتھی کو آٹا لاکر چپاتی بنانے کا آرڈر دے دیا۔

(واقعات کو ٹھیک انداز میں پیش کرنے کے لئے مکالمے شاید نہایت ضروری ہیں)

دکان نما ہوٹل میں بیٹھنے کے بعد جب ہم چولہے پر ہاتھ سینک رہے تھے تب ہی ہمارے درمیان کچھ بات چیت شروع ہوگئی۔

عبداللہ: کتنا اچھا ہوتا اگر ہم یہیں کہیں رات بسر کر لیتے اور صبح دن کی روشنی میں بابوسر ٹاپ دیکھتے ہوئے چلتے۔

محمد فیصل: کوئی بات نہیں اتنا راستہ نہیں بس کھانے کے بعد کچھ ہی دیر تو لگنی ہے۔

ظاہر شاہ: ارے تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں ہو؟ رات ہے اور اوپر سے اتنی سخت سردی۔

فیصل خان: اب جبکہ رات بھی ہوگئی اور ادھر کوئی ایسی جگہ بھی موجود نہیں کہ ہم ٹھہر سکیں تو یہی ٹھیک رہے گا کہ ہم بابوسر ٹاپ کراس کریں اور دوسری جانب کہیں کیمپ لگا لیں۔

ہماری یہ باتیں اُس گفتگو میں سے کچھ ہی تھیں جو ہم نے وہاں کی تھی۔ کچھ دیر بعد کھانا تیار ہوگیا جس میں ماش کی دال واحد ڈش تھی اور ہم نے خوب سیر ہوکر کھایا۔ کھانا ختم ہونے پر چائے کا ایک ایک کپ پی کر ہم نے حساب چکتا کیا اور دوبارہ سے بائیکس سٹارٹ کرکے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ رات کے کوئی ساڑھے گیارہ بج گئے ہوں گے اور ہم کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ سردی کی شدت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ میں ظاہر شاہ کے ساتھ بائک پر تھا اِس لئے میں نے اُس سے کہا کہ کہیں رک جاؤ،تاکہ ہمارے پاس جو کچھ جیکٹس وغیرہ ہوں وہ نکال لیں۔ ہم رک گئے اور ہمارے پاس جو کچھ بھی پہننے کے قابل تھا وہ سب میں برابر برابر تقسیم کردیا۔ سب نے چار چار شرٹس اور جینز پہن لیں، مگر اُس کے باوجود سردی تھی کہ بدن میں داخل ہوتے ہی خون کو منجمد کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ خود کو خوب اچھی طرح سے کپڑوں اور ایک ایک عدد سفری کمبل میں ڈھانپنے کے بعد ہمارا سفر پھر شروع ہوگیا اور ساتھ ہی شروعات ہوگئی بابوسر ٹاپ کی چڑھائی کی جس کے آگے ہمارے ستر سی سی کے بائکس بےدست و پا ہوچکے تھے۔

کالی سیاہ ترین رات میں یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہوا کا رخ چاروں اطراف سے کیسے ہوسکتا ہے؟ مجھے اپنی زندگی کی یہ آخری رات لگنے لگی اور دل ہی دل میں جہاں گردی اور آوارہ گردی سمیت اِس طرح کے ایڈونچر پر لعنت بھیجی۔ ہر طرف سے جب شدید سرد ہوا ، جس کے ساتھ ہی برف باری کی شروعات ہوچکی تھی نے ہمیں گھیرا تو ہماری  بائکس نے اُس راستے پر آگے جانے سے صاف انکار کردیا۔

اب حالت یہ ہوچکی کہ ہم چاروں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کھڑے اپنے اپنے ہاتھوں پر سینے سے گرم پھونکیں مار مار کر کسی بھپرے ہوئے سانڈوں کی طرح آوازیں نکالنے لگے۔ جہاں سے ہم نے گرما گرم کھانا کھایا تھا شاید وہاں سے ہم مشکل سے تین کلومیٹر ہی آگے گئے ہوں گے۔ ایک مشورہ یہ ہوا کہ واپسی کی راہ لی جائے اور نیچے کہیں کوئی جگہ ڈھونڈی جائے جہاں رات گزرے جو کہ کچھ ہی رہ گئی تھی۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ یہ ہماری سرشت میں شامل ہی نہیں کہ ہار مان لی جائے۔ میں اور ظاہر شاہ نے بسم اللہ پڑھی اور اب اِس حالت میں ہم بابوسر ٹاپ تک جانے لگے کہ ایک نے بائیک کو آگے ہینڈل سے پکڑے رکھا اور دوسرا اُسے پیچھے سے دھکا دیتا رہا۔ باری باری یہی مشقت ہوتی رہی۔

حالت ایسی کہ کاٹو تو بدن میں قطرہ خون بھی نہ نکلے اور اگر نکلے بھی تو شاید وہ بھی منجمد۔ ایک موڑ کاٹتے ہوئے ظاہر شاہ کہنے لگا کہ شاید اب ایک شخص بائیک پر بیٹھ کر اوپر چڑھ سکے۔ وہ بائیک پر بیٹھا اور پہلے گئیر میں آہستہ آہستہ اوپر جانے لگا۔ میں اُس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا آخرکار وہ کچھ دور نکل گیا اور مجھے ایسا لگا کہ شاید اِس وقت دنیا میں میں ہی اکیلا رہ گیا ہوں۔ ہر طرف سے طرح طرح کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں جو شاید ہوا کا اثر تھا اور ساتھ ہی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی۔ سنسان رات یخ بستہ ہوائیں اور ایسی چڑھائی جس پر چڑھنا شاید گھوڑا بھی گوارا نہ کرے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسے موڑ مڑنے کی بجائے سیدھا ہی چلا اور چڑھا جائے۔ اِس خیال نے دل میں جگہ پکڑی اور ایک موڑ آنے کے بعد میں سیدھا اُس مٹی پر قدم جمانے لگا جو اصل میں برف تھی۔ درمیان تک پہنچنے کے بعد میرا پاؤں پھسلا اور لڑکھڑاتا ہوا نیچے آتا گیا۔

میں نے خود کو سنبھالا اور گلا پھاڑ کر ظاہر شاہ اور باقی دو کو پکارنے لگا۔ مگر شاید وہ کچھ دور چلے گئے تھے۔ اُن کے خیال میں انہوں نے میری صورت میں ریمبو کو پیچھے چھوڑ رکھا تھا۔ میں اٹھا اور تیز تیز قدموں سے اوپر چڑھنے لگا۔ کچھ دور جانے کے بعد مجھے بائکس کی آواز آئی تو قدموں میں اور تیزی آگئی۔ جب اُن کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ تینوں تھکن کے سبب بےسدھ پڑے ہانپ رہے ہیں۔

ایک بار تو ہمیں یہ خیال آن گزرا کہ شاید ہم غلط راستے پر آگئے ہیں۔ لیکن وہ سڑک اور بابوسر ٹاپ کے موڑ ہمیں یہ باور کروا رہے تھے کہ راستہ ٹھیک ہے بس ہم میں ہی کمی ہے۔ خدا خدا کرکے گرتے پڑتے دھکے لگاتے ہانپتے کانپتے ہم جب رات کے تین بجے بابوسر ٹاپ تک جاپہنچے تو ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ ٹاپ پر سردی اتنی شدید تھی کہ ہمیں زیادہ سوچنے کا موقع نہ ملا اور ہم نے نیچے اترنے کا فی الفور فیصلہ کرلیا۔ اُترائی میں سفر کے دوران ہمارے حواس کچھ بحال ہوئے اور کچھ موسم کی سختی بھی جاتی رہی۔

نیچے پہنچنے کے بعد کوئی بیس منٹ سفر کرنے کے بعد ایک جگہ ہمیں کوئی ہوٹل کی کچھ روشنی اور ایک بورڈ دکھائی دیا اور ہم نے وہیں ٹھہرنے کا ارادہ کیا۔ بائکس کھڑی کرکے اُس میں سے سفری خیمہ نکالا اور لگانے کے بعد اندر بیٹھ کر چاروں ایک دوسرے کے  چہروں کو دیکھنے لگے۔ ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم کوئی بہت ہی بڑا معرکہ سر کرکے آئے ہوں۔ گرما گرم چائے تیار ہونے لگی اور ساتھ ہی رات کے یا صبح کے چار بجنے لگے۔ ہم وہ سب سختی بھول کر ہنزہ نگر اور ساتھ ہی دوسرے مقامات کی “رنگینیوں اور شادابی” پر بات کر ہی رہے تھے کہ شدید جھٹکے لگنے لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ جھٹکے زلزلے کے تھے۔ اندھیرہ ہونے کی وجہ سے ہم یہ جان نہ سکے تھے کہ جس جگہ ہم ٹھہرے ہیں کیا وہ جگہ پہاڑیوں سے گھیری ہوئی تو نہیں؟ ہم بدحواسی میں باہر نکلے اور ٹارچ کی روشنی میں یہاں وہاں دیکھنے لگے مگر کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ہم نے جن “موضوعات” پر گفتگو کی شروعات کی تھی اُس کی جگہ کلمے اور استغفار نے لے لی اور یوں چائے پینے کے بعد ہم سفری بستروں میں دبک کر ایسے سوئے کہ صبح کے گیارہ بجے آنکھ کھلی۔ صبح ہوئی تو دیکھا کہ ایک سبزہ زار میں ہم ٹھہرے ہیں اور آس پاس ہریالی ہی ہریالی ہے۔ ساتھ ایک ڈھابہ تھا جہاں پر ہم نے چائے انڈوں اور پراٹھوں کے ساتھ ناشتہ زہر مار کیا اور آگے کی جانب چل پڑے۔ سفر کافی تھا اور کچھ اور واقعات بھی شاید ہماری راہ دیکھ رہے تھے۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply