لاشیں بیچو لاشیں۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

 

ہماری قومی ساخت ہی کچھ ایسی بن چکی ہے کہ جہاں دیکھیں ہم کو ہر دوسرا شخص جھوٹا، دھوکے باز، چور اُچکا، زانی، ڈاکو، ظالم، اور حرام خور نظر آتا ہے۔ جُرم ہوجاتا ہے اور جب خوب دوڑ دھوپ کرنے کے بعد ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ پولیس کو رگڑا  لگا کر سوشل میڈیا پر عام عوام اپنی کوشش کرتی ہے اور حق و انصاف کے لئے آواز بلند کرتی ہے۔ تب جاکر اُس مسئلے کے بارے میں حُکام بالا نوٹس لیتے ہیں۔

حُکام بالا کی غفلت ہو یا پولیس کی کام چوری، حکومتی مشینری کی ناکامی ہو یا قانون کی بالادستی اور رٹ کا کمزور ہونا۔ وجوہات جو بھی ہوں آخر کار ایسا ایک وقت آ ہی جاتا ہے جہاں حکومتی نمائندوں کو عوام پر ڈھائے گئے ظلم کے خلاف اقدامات کرنا ناگزیر  ہوجاتے ہیں۔ یوں ایک رپورٹ کا اندراج  کر کے  مقدمہ بنایا جاتا ہے اور متعلقہ ملزمان کے خلاف ایک کیس دائر کیا جاتا ہے۔

اِس تمام کاروائی میں اگر مظلوم کے ساتھ کوئی شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے تو وہ ہے عوام۔ عوامی قوت ہی وہ شے ہے کہ جس کے دَم پر ماضی قریب میں بہت سے کیسزز پر حکومت نے ایکشن لینا ضروری سمجھا اور فی الفور کاروائی کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ جس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ وہ مظلوم جو انصاف مانگنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھا عوام کی ایک آواز نے اُس کی ساری مشکلات کو ختم کردیا ۔

اب آتے ہیں ملزم، مدعی، گواہ، پولیس، وکیل اور جج کی طرف۔ کیس درج ہوتا ہے کاروائی شروع ہوتی ہے۔ تفتیش ہوتی ہے فائلوں کے انبار لگتے ہیں اور مقدمہ کِچھوے کی چال چلتے ہوئے آگے بڑھنے لگتا ہے۔ جج اور ملزم کو پہلے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گناہ گار کون ہے؟ مگر  روایتی ڈرامہ شروع ہوجاتا ہے۔ پھر وہی تاریخوں میں اُلجھی ہوئی ڈور ہوتی ہے جو ایسی صورت اختیار کرجاتی ہے کہ سلجھانا ایک ناممکن کام بن جاتا ہے۔

اب یہاں سے شروع ہوتا ہے مدعی کا اصل امتحان۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں مدعی اپنے کیس کو لیکر اتنا چکرا جاتا ہے کہ وہ سوچنے لگتا ہے کہ جس انصاف کے لئے وہ سرتوڑ کوشش کرکے یہاں تک پہنچا ہے وہ اب اُس کے فیصلے میں   دلچسپی نہیں لے   رہا۔ یوں مخالف میں وکیل اور ملزم کی جانب سے اِس بات کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ معاملے کو رفع دفع کیا جاسکے۔ وہ مدعی جو پہلے سے ہی دگرگوں حالت تک پہنچا ہوتا ہے مخالف کی اِس آفر کو ایک بیش قیمت خزانے سے کم نہیں سمجھتا۔ ملزمان کچھ دلپشوری کے لئے مدعی کو کچھ خرچہ پانی بھی پیش کرتے ہیں۔ اور یوں ختم ہوتا ہے ایک کیس اور مدعی شکرانے کے نفل پڑھنے بیٹھ جاتا ہے۔

اب بات اور مقصد یہ ہے اور ایک سوال بھی ہے اُس مدعی اور مظلوم سے۔ کہ او انسان کے نام پر ایک داغ اور دھبے سنو۔ جب تم میں اتنی ہمت اور حوصلہ نہیں تھا کہ اپنے حق اور اپنے انصاف کے لئے لڑ مر سکو تو قوم کے جوانوں بوڑھوں اور بیٹیوں کا اتنا وقت کیوں ضائع کیا تھا؟ کیوں رو رو کر ویڈیو پر ویڈیو بناتے گئے اور سوشل میڈیا پر چڑھاتے گئے؟ کیا تمھارا ضمیر یہیں  تک زندہ تھا کہ آخر میں صُلح صفائی کر کروا کر پتلی گلی سے  نکل جاو؟ کہاں ہے وہ تمھارا رونا دھونا؟ کہاں ہیں وہ سسکتی آنکھیں جِن کو دیکھ کر تم نے عام عوام کا جینا محال کردیا تھا؟ کیا مجبوری تھی پھر کیس درج کرنے اور انصاف کے لئے آواز اُٹھوانے کی بھیک مانگنے کی؟

عام عوام ذلیل ہوکر رو رو کر سوشل میڈیا پر حکومت اور ایوانوں کو ہلا کر وزیروں اور قانونی اہلکاروں کی نیند حرام کرکے تمھارے لئے انصاف کی بھیک مانگتے ہیں۔ اور جب تم کو تگڑا مال ملنے کی نوید سنائی جاتی ہے تو اُن تمام قربانیوں کو پسِ پشت ڈال کر میڈیا پر بڑے ٹھاٹ سے یہ کہنے بیٹھ جاتے ہو کہ ہمارے مخالف کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں؟ ارے تم جیسے ناسُوروں نے ہی اِس معاشرے کو امیر اور مالداروں کے کوٹھے کی طوائف بنا دیا ہے۔ جو پہلے تو انصاف کی  بھیک مانگنے کے لئے اپنا کشکول عوام کے سامنے پھیلاتے ہیں۔ اور جب عوام حُب الوطنی اور انسانی جذبات میں آکر اپنا حق ادا کردیتے ہیں تو پھر تم جیسے آجاتے ہیں میڈیا پر اپنا رنڈی رونا رونے کے لئے بس ایسے ہی۔

عوام کی آواز سے بڑھ کر کوئی شے طاقتور نہیں۔ مگر ایسے دُغلے اور ضمیر فروشوں کے لئے آواز اٹھانا حماقت اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ کہ مال دیکھا اور حق سے دستبردار ہوگئے۔ حق مانگنے سے پہلے ہی سوچنا چاہیے  کہ یا مرنا ہے یا مارنا ہے مگر حق لے کر رہنا ہے۔ خومخواہ عوام کے وقت کا ضیاع کرنے کشکول لینے نہیں پہنچتے۔

ارے اگر لاش ہی بیچنی ہے تو پہلے سے کیوں نہیں بیچ دیتے۔ اتنے تھام جھام کی کیا ضرورت ہے؟ بیچو بیچو شوق سے مگر یہ ہمدردی بٹورنے کا کشکول لے کے اپنی صورت عوام کے سامنے لانے سے تو گریز کرو۔ اپنا کیس مشہور کرکے عوامی ہمدردی بٹور کر جب بڑا مال ملنے کی توقع پیدا ہوتی ہے تب آجاتے ہو یہی سنانے کہ صلح ہو گئی؟

اب اگر کوئی یہ تاویل پیش کرے کہ کیونکہ مخالف میں لوگ باآثر ہوتے ہیں اس وجہ سے مدعی کی واپسی عین اُصولی ہے تو اِس میں پھر سوال یہ ہے کہ تب کون ہوگا وہ جو ایسے ظلم کے خلاف کھڑا ہو؟ کیا باآثر افراد کے سامنے ڈٹ جانے کا خوف اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بندہ اپنے حق سے دستبردار تک ہو جاتا ہے؟ کسی نہ کسی کو تو اِس بوسیدہ رواج کا خاتمہ کرنے کے لئے کھڑا ہونا ہی ہوگا۔ ورنہ ایسے ہی لاشیں خریدنے والے مجبور کرتے رہیں گے ورثاءکو لاشیں بیچنے پر۔

آپ کی صلح ہو گئی اچھی بات ہے اور اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ صلح اور دیت سے ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔ مگر سوچنا چاہئے نہ اگر آپ نے اِسی موڑ پر اکر رک جانا ہے تو پہلے سے اپنی منزل طے کرنی چاہئے ناکہ قیمت بڑھا کر اپنے اپنوں کی لاشیں بیچنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خود انصاف کے راستے میں آن کھڑے ہوتے ہو اور پھر رونا روتے ہو ناانصافی کی؟

کراچی، نشوہ کے والد اور دارالصحت اسپتال انتظامیہ میں صلح ہوگئی

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply