• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فاکہہ، چارٹ بسٹرز اور دو ہزار دس کے چاچے۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

فاکہہ، چارٹ بسٹرز اور دو ہزار دس کے چاچے۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

مولا بخشے ہمارے محلے میں ایک “چاچے” کو جن کے جنازے میں ہم شریک نہ ہوسکے۔ نام تو اُس کا سرور خان تھا مگر سب محلے والے اُسے “چاچے” کہہ کر پکارتے تھے۔ کمال کے انسان تھے۔ یوں سمجھیں کہ جیسے مرد کی پرکھ اور ٹھرک دونوں کو جانچنے کی خصوصیات پیدائشی لے کر آئے تھے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ہم جوانی کی دہلیز پر قدم جمانے کی کوششوں میں تھے اور ہر جگہ جہاں آئینہ دکھائی دیتا خود کو دیکھتے رہتے۔ چہرے پر بال داڑھی اور مونچھ کی شکل میں نمودار ہونے شروع ہو گئے تھے۔

ایک دن کیا ہوا کہ ہم اپنے گھر سے نکلے اور محلے کے باہر کچھ دکانوں کے سامنے بنے  سٹال پر چاچے کو براجمان پایا۔ ہم بھی چپکے چپکے ایک کونے میں سے سرکتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔ چاچے کا گیان جاری تھا۔ چاچے کا گیان اچھا کیوں لگتا تھا؟ یہ اُس وقت معلوم نہ تھا۔ ہاں بس اتنا ہم چاچے کی زبانی سنتے رہے کہ آج کل وائس آف امریکہ کی  اُردو سروس سے رات کے نو بجے شاید ایک موسیقی کا فرمائشی پروگرام نشر ہوتا ہے۔ اور اُس کا نام “چارٹ بسٹرز” ہے۔ جس کی میزبان کوئی “گیتی حسین” ہوا کرتی ہے۔ ہم یہ دعویٰ  تو نہیں کرسکتے کہ اُس وقت ہمارے محلے کے سبھی گھروں میں ٹیلی فون کی سہولت موجود تھی۔ مگر پانچ گھر ایسے تھے جن میں اِس سہولت نے ڈیرے  ڈال رکھے تھے۔ جن میں ایک گھر ہمارا بھی تھا۔

بہ زبان چاچے اُس فرمائشی پروگرام میں پاکستان کے بہت سے علاقوں سے لوگ مفت کال ملاتے اور جن کی کال ل مل جاتی وہ خوش نصیب اپنی فرمائش اور  اپنے دوست احباب کو سلام دعا دینے کا شرف حاصل کرلیتا۔ اب ہمیں ایسا کوئی شوق نہ تھا کہ ریڈیو پر فرمائش کریں اور گانے سنیں۔ مگر چاچے نے ایک نام لیا “فاکہہ”۔ اور اُس پر یہ سہاگہ لگایا کہ کیا کمال کی باتیں کرتی ہیں۔ اور دوسری بات یہ بتائی کہ اُس کی کال ہر رات ملتی ہے۔ معلوم نہیں پروڈیوسر صاحب نے کیا چکر چلایا ہے کہ ہماری کال ملتی ہی نہیں؟ اور اُس کی ٹھیک وقت پر مل جاتی ہے۔

خیر ہم نے جو چاچے کی باتیں سنیں اور کسی “فاکہہ” کا اسم مبارک بھی ذہن نشین ہوا تو جھٹ سے گھر میں گھس کر اپنے دادا کا ایک پرانا ریڈیو نکالنے کے لئے اماں سے ضد کرنے لگے۔ وہ ریڈیو تو نہ مل سکا مگر ایک ٹوٹا پھوٹا سا پرانے زمانے کا ایک ریڈیو ہاتھ لگا۔ جس کو والد صاحب نے یہ کہہ کر پھینک دیا تھا کہ اب اِس پر “بی بی سی” کی خبریں نہیں چل رہیں ۔ ریڈیو نکال کر بغل میں دبایا اور   قریبی ایک مستری کے پاس پہنچے۔ صاحبِ بہادر کو آثار قدیمہ کا ریڈیو حوالے کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ” والد صاحب نے بھیجا ہے کہ اسے ٹھیک کردیں”۔ مستری ہمیں ایسے دیکھنے لگے جیسے ہم نے اُس کے سامنے کوئی فرعونی چیز پیش کی ہو۔ کہنے لگے کہ۔۔۔” بیٹا اِس کا زمانہ گیا اب والد سے کہو باہر سے کسی رشتہ دار سے نیا پیناسانک کا ریڈیو منگوائے”۔

مستری صاحب نے جن کا نام اقبال تھا ریڈیو کھولا اور بیس منٹ بعد ریڈیو سے کش کش کی آوازیں آنی شروع ہوگئی۔ ہماری تو جیسی لاٹری نکال آئی۔ اقبال صاحب سے پیسے پوچھے تو بیس روپے کا مطالبہ کیا۔ ہم نے دس کا نوٹ پکڑایا اور بھاگتے ہوئے ریڈیو لے کر دکان سے نو دو گیارہ۔ شام ہوئی اور سب بھائی بہن کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں سونے چلے گئے۔ ہم ریڈیو لئے چپکے سے اپنی جگہ جاکر سونے لگے۔ بھائی اور بہن کو ریڈیو کی بھنک   نہ پڑنے   دی ورنہ وہ ابا سے شکایت کرنے میں دیر نہ لگاتے۔ ریڈیو کے چلنے کی آواز کو ہم نے یوں دبایا کہ اپنے دادا کی نیشنل ریڈیو کے ساتھ ڈبے میں بند سنگل ہیڈ فون ہاتھوں کی صفائی دکھا  کر صندوق سے اڑائی تھی۔

وائس آف امریکہ اُردو سروس کو ٹیون کیے  ہم سنتے رہے اور چارٹ بسٹرز کا انتظار کرتے گئے۔ آخر کار وہ لمحہ آگیا جب گیتی حسین نامی  میزبان کی سُریلی آواز سنائی دی۔ پروگرام کا باقائدہ آغاز ہوچکا تھا اور شاید پہلا گیت سنانے کے بعد جو کہ احمد جہانزیب کا ” کہو ایک دن ” گانا تھا۔ گانا ختم ہوتے ہی کچھ لوگوں کے ٹیلی فون آنا شروع ہوگئے۔ پہلے کوئی صاحب تھے جو قوالی کی فرمائش کرتے ہوئے اپنے دو درجن ساتھیوں اور رشتہ داروں کو سلام دیتے ہوئے رخصت کر دیئے گئے۔ اسی طرح مزید ایک دو آدمیوں کو نپٹایا “گیتی حسین” نے۔ تب ایک اور گیت کے سُر بجنے لگے۔ اور ہم تھے کہ “چاچے” کی بتائی ہوئی فاکہہ نامی کسی ناری کی آواز سننے کو ترستے رہے۔

دوسری غزل ختم ہوئی جو شاید غلام علی صاحب کی تھی۔ ایک دکھی آتما  نے فرمائش کی تھی۔ یوں اب پھر کسی کی کال لینی تھی۔ “سو ہم نے سنی وہ آواز کہ جس کے لئے ہوئے تھے ہم خوار اتنے”۔

ہیلو۔۔۔۔ ایک ادا سے گیتی حسین کی آواز ابھری اور اُس کی زبان پر “فاکہہ” نام ہی تھا۔ دوسری جانب سے جیسے جلترنگ بج اٹھے ہوں۔ ہمارے کمرے میں اندھیرے اور بھائی بہن کی موجودگی کے  باوجود جیسے ہزاروں جگنوں جھلملانے لگے تھے۔ ہم کو دور دور سے پرانے مندروں کی گھنٹیاں سنائی دینے لگی تھیں ۔ ایسے جیسے کسی نے کانوں میں شیرینی گھول کر ڈال دی ہو۔ ہم جہانِ غائب سے حاضر میں وارد ہوئے اور اُس کی آواز سننے لگے۔ کیا بتائیں ہم پر کیا بیتی اُس رات۔ ہندی فلمیں تو چھپ چھپ کہ کبھی کبھار دیکھا کرتے تھے مگر اِس طرح کسی پر دل لٹو نہ ہوا تھا۔ اور اِس میں بھی ہماری کوئی غلطی نہ تھی۔ ہمارے گھر میں وی سی آر کے جو کیسٹس تھے اُن میں سب ریکھا، ہیمامالنی اور پرانے زمانے کی ممتاز کی اداکاری تھی۔ جو ہمیں کیا متاثر کرتی۔

خیر بات ہو رہی تھی اُس رات کی آخر جب اُس کی باتیں سنتے سنتے ہم عالم مدہوشی سے جاگ اٹھے تو ایک دوسرے صاحب کی کال مل گئی۔ اُس نے سب سے پہلے سلام کیا اور پھر “اسپیشل سلام ٹو فاکہہ” کہا۔ ہم نے جو یہ سنا تو تلملاء اٹھے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ مطلب کوئی بھی نام لے؟ اپنے آپ کو تسلیاں دیتے رہے کہ شاید سلام دینے والا کوئی چچا دادا ہوگا۔ پوتی بیٹی سمجھ کر دعا سلام دیا ہوگا۔ مگر ہماری یہ سوچ اُس وقت  خام خیالی ثابت  ہوئی جب ہر دوسرا جس کی بھی کال ملتی رہی وہ سب سے پہلے یہی کہتا

” فاکہہ کو اسپیشل سلام”۔

یار ہم تو کنفیوژیا  گئے۔ اب معلوم ہوا کہ مقابلہ بڑا سخت ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ والد صاحب کے کمرے میں ٹیلی فون لگا تھا اور ہمیں کیا ہمارے فرشتوں کی  بھی شاید یہ جرات نہ  تھی کہ والد صاحب کے کمرے سے ٹیلی فون اڑا لیتے۔ خون کے گھونٹ پیتے گئے اور ہر دوسرے ٹھرکی کے سلام بنام فا  کہہ سنتے گئے۔

آخر جب اختتام قریب آیا تو گیتی حسین نے اعلان کیا کہ ایک آخری کال آئی ہے وہ لیتے ہیں اور فرمائش سناتے ہی پروگرام اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ ہم نے یونہی بےدلی سے اپنے کان سے اکلوتا ہیڈ فون نکالنے کی کوشش کی مگر جیسے ہمارے اوپر چھت پوری آن پڑی ہو۔ آخری شخص نے جب ہیلو کہا تو سماعت پر یقین نہ آیا۔

ہیلو آواز آرہی ہے؟

ہاں ہاں جی بولیے۔۔۔

جی میں سرور خان بول رہا ہوں فلاں جگہ سے۔

ہم “فاکہہ” کو اسپیشل سلام پیش کرتے ہیں۔ اور ایک ہندی گانا جس کے بول ” جادو تیری نظر خوشبو تیرا بدن” ڈر فلم کا اُس کے نام کرتے ہیں۔ مہربانی کرکے سنا دیں۔ ایک بار پھر سب کو سلام اور “فاکہہ” کو اسپیشل سلام۔

فون بند ہوا ساتھ ہی ہمارے دل میں “چاچے” کو قتل کرنے کے  منصوبے بننے شروع ہوگئے۔ اسی دوران گیت شروع ہوا۔

“جادو تیری نظر خوشبو تیرا بدن”

ہم گیت سنتے رہے اور تصور میں صبح چاچے کو اپنے دادے کے خنجر سے ٹکڑے ٹکڑے کرتے گئے۔

بچپن کی ایک یاد۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“چاچے” ہمیں آپ کی کمی محسوس ہوری ہے انکل۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply