غزہ کی ایک رات۔۔۔
پانچ سالہ نجلا اپنے پاپا کے ساتھ کھیل کھیل کر تھک چکی تھی اور اب وہ گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اُس کے پاپا نے آج اُس کے لیے بازار سے ایک کھلونہ بندر خریدا تھا۔ جس کے ساتھ وہ دیر تک کھیلتی رہی اور اپنے پاپا کو بھی اُس بندر سے ڈراتی رہی۔ باپ بھی خوب ڈرتا رہا۔ اُس کی آنکھوں میں وہ سائے لہرا رہے تھے جِن میں اُمید اور خوف کے ملے جلے جذبات نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ بہت سے سوال اُس کے ذہن میں کسی پَھن اُٹھائے سانپ کی طرح لہلہا رہے تھے۔ وہ سوال کیا تھے؟ صرف وہی جانتا تھا۔
اُس نے اپنے ذہن سے وہ خیالات جھٹک دیے اور دوبارہ اپنی بیٹی اپنی نجلا کی طرف پیار بھرے انداز سے دیکھنے لگا۔ وہ اُس دن کے بارے میں سوچتا رہا جب اُس کی نجلا بڑی ہو جائے گی اور وہ بوڑھا مگر اُس کے پیار میں تب بھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اُس کے سینے میں دھڑکتے ہوئے گرمجوش دل میں لاکھوں خواہشیں پروان چڑھ رہی تھیں، جن میں ہر خواہش کی کتاب کے ہر ایک صفحے پر اُس کی نجلا کے لیے ایک خوبصورت مستقبل کے خواب جِگر کے لہو سے لکھے گئے تھے۔
جب سے نجلا کی ماما ایک فضائی حملے میں شہید کر دی گئی تھی تب سے وہ اپنی نجلا کے لیے اور بھی زیادہ جذباتی ہو گیا تھا اِنہی سوچوں میں غرق اُس کی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہو گئیں، اور اُس کا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا، مگر زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ہر طرف باروُد کی ناگوار بُو پھیل گئی۔ تبھی گھٹا ٹوپ اندھیرے اور نہایت خوفزدہ سی تاریکی میں اچانک کسی چیز کے پھٹنے کی مہیب آواز سنائی دی۔ اُس نے جب پہلی بار ایسی آواز سنی تھی تب اُس کی بیوی نے اُس کا ساتھ چھوڑ کر اگلے جہاں کا رخ کیا تھا ۔دو سال کی نجلا کو اُس کی گود میں اکیلا چھوڑ کر۔۔ اور اب پھر ویسی ہی شِدت بھری آواز سنائی دی تھی اُسے۔
اُس نے دیوانگی کے عالم میں اُٹھنے کی کوشش کی مگر وہ اُٹھ نہ سکا اُس نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر اُس کی آنکھیں تو پہلے سے کُھلی ہوئی تھیں، شاید اُس کی بینائی چلی گئی تھی اُس نے اپنے جسم کو ٹٹولا اور اُسے محسوس ہوا کہ اُس کی ٹانگوں پر کسی سخت چیز کا بوجھ پڑا ہوا ہے اُس نے اپنی ٹانگوں کو حرکت دینے کی کوشش کی مگر درد و اَلم کی شدت سے اُس کے منہ سے چیخیں نکل گئیں،اِسی لمحے قریب ہی کہیں کسی چیز نے آگ پکڑ لی اور ماحول اُس کی روشنی میں نہا گیا، اُس کی بصیرت نے کام کرنا شروع کیا اور سب سے پہلے اُس نے اپنی نجلا کی طرف دیکھا اُس کے جسم میں خوف اور بےبسی کا ایک طوفان اُٹھا۔ اُس نے کوشش کی کہ وہ اپنے جسم سے اپنے پیروں کو کاٹ کر اپنی نجلا کے پاس پہنچ جائے مگر اُس کی نجلا کے نازک کلی جیسے جسم پر کنکریٹ کی بھاری سِل جیسے ڈھا دی گئی تھی۔ اُس نے اتنا دیکھا کہ اُس کی نجلا کی سانسیں آہستہ آہستہ گُھٹ رہی تھیں اور اُس کا ننھا ہاتھ اپنے ابا کی طرف وزنی سِل کے نیچے سے نکلا ہوا تھا مگر کاش کہ وہ ابا کے قریب پہنچ پاتا اُس نے ہچکی لی اور اُس کی اُکھڑتی سانسوں نے اُس کے سینے کو اُن گُھٹتی سانسوں سے آزاد کردیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں