نظامِ پاکستان اور مذہب کارڈ۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

سیاست ہر ملک میں ایک الگ انداز سے ہوتی ہے اور اُس اندازِ سیاست میں روایتی طنز و تنقید ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ سیاسی رہنما اپنے مخالف پر لفظی گولہ باری کرتے ہیں اور اُن کے پیروکار اِس گولہ باری پر واہ واہ سمیت مخالف پر نعرے کستے ہیں۔ کرپشن، مہنگائی، بےروزگاری، امن، دفاع، غربت اور صحت یہ وہ نکات ہیں جن کو سیاسی جلسوں میں دنیا کے تمام سیاستدان اپنے مخالف کو پچھاڑنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی سیاست کی ایک تاریخ ہے۔ مندرجہ بالا نکات میں سے ایک اضافہ اور کردیں اور وہ ہے مذہبی کارڈ کا استعمال وہ بھی سیاسی برتری حاصل کرنے کے لئے۔ مذہب کسی بھی انسان کی زندگی کا بنیادی حصہ ہوتا ہے اور وہ اُس پر آنچ برداشت نہیں کرپاتا۔ اِس وجہ سے سیاستدانوں کو اِس کمزوری کو استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام مذہبی اعتبار سے اتنے کمزور ہیں کہ اُن کے عقیدے پر کوئی بھی سیاستدان شب خون مار سکتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستانی قوم اپنے مذہب اپنے عقائد کے لئے اِن سیاستدانوں کے جھوٹے بیانات کے محتاج ہیں؟ تیسرا سوال کیا ہم پاکستانی قوم کو اپنے ایمان پر بھروسہ نہیں جو کسی کے بھی کہنے پر ہم کو اپنا ایمان اور عقیدہ خطرے میں نظر آتا ہے؟

اِن تمام سوالوں کے جوابات انتہائی سادہ اور آسان ہیں۔ وہ جواب ہے ،بالکل نہیں۔ کوئی بھی سیاسی رہنماء اگر مذہبی کارڈ کا استعمال کرتا ہے تو صرف اور صرف اپنے سیاسی فائدے اور ساتھ ملے دوسرے شراکت داروں کے سیاسی فائدےکے لئے۔

ہم پاکستانیوں کو بطور ایک باشعور قوم یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم اور ہمارا عقیدہ و ایمان بالکل مضبوط اور قوی ہے اور ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا جو ہمیں اِس مذہبی کارڈ کے زیر اثر لا کر اپنے مصرف میں لائے۔ ماضی میں اور موجودہ حکومت نے بھی اگر مذہبی کارڈ کا استعمال کرکے عوام کو مذہبی جذبات کے زیر اثر لاکر اپنا فائدہ حاصل کیا ہے تو یہ سیاست کے نام پر ایک کالا بدنما داغ  ہے۔ پاکستان میں اکثریت مسلمان ہے اور ہر ایک مسلمان کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس دین پر قائم ہے اور کس عقیدے کا پیروکار ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر مذہب مخالف کے نعرے لگا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہی کہ ہم پاکستانیوں میں نا عقل و شعور ہے اور نا ہی ہم اپنے دینی احکامات کو جانتے ہیں؟

اگر عمران خان نے ریاستِ مدینہ کا مذہبی کارڈ استعمال کیا ہے تو اُس سے بڑا دھوکے باز اور کوئی نہیں اور اگر آج مولانا فضل الرحمن یہی مذہبی کارڈ کا استعال کرکے حکومت کو شش و پنج میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں ہیں  تو یہ بھی سوائے جہالت کے کچھ اور نہیں ۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر اُن کے گلے میں مذہب کارڈ کا طوق ڈال کر ہانکا جائے اور اپنا مفاد نکالا جائے؟

سیاستدانوں! اگر آپ لوگوں نے ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا ہے اور اپنے مخالف کو ہرانا ہے تو خدارا اِس مذہبی کارڈ کے استعمال سے باز آئیں۔ آپ نے اگر عوام کو سہولت دینی ہے تو اُن کے لئے آپ مخالف پر روزگار، صحت، انصاف، اور تعلیم کا کارڈ استعمال کریں۔ مذہبی کارڈ کا استعمال کرکے آپ نا صرف اپنا سیاسی قد چھوٹا کررہے ہیں بلکہ باقی دنیا میں اپنی عزت بھی نیلام کر رہے ہیں۔

کون ہے اِس ملک میں جو اپنے عقیدے پر جان قربان نہیں کرے گا؟ کوئی نہیں۔ ایسا کوئی نہیں جس میں مذہب کی محبت اور پیغمر زماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق نہ  ہو۔ یہودی ایجنٹ اور دفاع ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا سیاستدان اپنی نماز اور دیگر دینی احکامات اگر حقیقی معنوں میں ادا کرنا سیکھ جائیں تو بیشک اُن کو یہ احساس ہو کہ ملک میں مذہبی کارڈ کی نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے کارڈ کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے ہم وطن پاکستانیوں! ہمیں اِس چُنگل سے نکلنا ہوگا۔ یہ مذہبی کارڈ کھیلنے والے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں اور کھلونا بننے سے ہوشیار ہونا پڑے گا۔ اگر ہمیں کوئی اپنا ہمنوا اور ہم خیال بنانا چاہے تو اُس کے پاس ہمارے حقوق اور ہماری زندگیوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کا کارڈ ہونا ضروری اور لازم کرنا پڑے گا نا کہ مذہبی کارڈ کہ جس کے پیچھے اُن کے اپنے دنیاوی مفاد کا ٹوکرا رکھا ہو۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply