وعدہ خلافیاں۔۔عبدالرؤف

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ عمران خان بہت اچھی تقریر کرلیتے ہیں اور ہر تقریر سے قوم کے دلوں کو چھو لیتے ہیں چاہے وہ دھرنوں کے دوران کی گئی تقریر ہو یا شیروانی پہن کر بحیثیت وزیراعظم قوم سے خطاب ہو یا پھر اقوام متحدہ میں مسلمانوں کا ترجمان بن کر مسلمانوں کے دل کی ترجمانی اور پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں نے آپ کی تقریر کو بحیثیت اک مسلمان ہیرو کی طرح لیا ۔
لیکن کیا تقاریر سے عمران خان نے اب تک کسی مسئلے کا حل نکالا؟ اقوام متحدہ کی تقریر کو اک طرف رکھ کر اگر ملک کی بات کریں اور یہاں انھوں نے قوم سے جو خطابات کیے اس میں سوائے اپوزیشن کی چھترول کے ہے کیا ، صرف اور صرف غریب قوم کو سہانے خواب اور نام نہاد دعوے ،جو اب تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے ،چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ابھی تو صرف تیرہ مہینے ہوئے ہیں ،سوا سال میں کیا ہوتا ہے ، ہم بھی کہتے ہیں کہ سوا سال میں کیا ہوتا ہے لیکن آپ ہی طوطے کی طرح رٹ  لگا رہے تھے کہ ہم پچاس لاکھ گھر دیں گے ، اک کروڑ نوکریاں دیں گے ، قوم کو بھکاری نہیں بنائیں گے انھیں روزگار مہیا کریں گے اور انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے ، اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے ، ڈھیل نہیں ہوگی ، معیشت کو مضبوط کریں گے ۔
یہ سب دعوے آپ کے تھے آپ کی تقریر سن کر قوم بھنگڑے ڈالتے تھے کہ آج تک ایسی تقریر کسی لیڈر نے نہیں کی ،بھٹو کے بعد یہ پہلا لیڈر ہے جو قوم کی آواز بنتا جارہا ہے ۔
لیکن افسوس ہے ، خان صاحب کو یہ بات کون سمجھائے کہ تقریر کے غازیوں سے یہ پاکستان بھرا پڑا ہے اس ملک میں جتنی بھی بےایمانی ، بدعنوانی ، لوٹ مار ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ ، فراڈ ، ان سب کی عمارت اس لچھے دار گفتگو پر کھڑی ہے ، ہر اک لفظوں کی ڈگڈگی بجاتا ہے اور قوم کو چونا لگا کر چلتا بنتا ہے اور خان صاحب نے بھی یہی کیا، صرف اور صرف باتیں ۔۔

اب تک خان صاحب نے تقریروں کے سوا کِیا کیا ہے کوئی اک وعدہ جو وفا ہوا ہو ، اصل میں خان صاحب کو واہم  ہوگیا تھا کہ میں ہی وہ مرد مجاہد ہوں جو اس ملک کی تقدیر بدلے گا لیکن نہ تو یہ ورلڈ کپ کا میچ تھا اور نہ ہی یہ آپ کا کینسر ہسپتال ، ورلڈ کپ آپ نے ٹیم ہوم ورک سے جیتا اور ہاسپٹل آپ نے قوم کی مدد سے بنایا یعنی لوگوں سے چندہ مانگ کر ۔تقریروں سے قوم کا دل نہیں جیتا جاسکتا، قوم وہ وعدے پورے ہوتے دیکھنا چاہتی ہے جو آپ اور آپ کی ٹیم نے اس قوم سے کیے تھے ، اگر وعدوں پر ہی اکتفاء اور انتظار کیا جانے لگے پھر آپ کی گورنمنٹ اور پچھلے ادوار میں کیا فرق رہا ، وہ بھی وعدے اور لارے لپے دیتے رہے اور ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ، اور اب آپ بھی 360 کی اسپیڈ سے وعدوں کا جو ریکارڈ قائم کرنے لگے ہو وہ شاید ستر سال میں بھی نہ بنا ہو ،
سانحہ ساہیوال ابھی قوم کی یاداشت سے اوجھل نہیں ہوا کس طرح پنجاب کی سی ٹی ڈی پولیس نے کار میں بیٹھے نہتے لوگوں پر گولیاں برسائیں اور وہ بھی دن دیہاڑے ، کیا ہوا اس کیس کا انکوائریاں بٹھائی گئیں  ،انویسٹی گیشن ہوئی ہر طرح سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کار میں موجود لوگ دہشتگرد نہیں تھے ، سی ٹی ڈی پولیس نے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا ،اس واقعے پر آپ نے قطر سے اک ٹوئٹ کیا تھا کہ میں پاکستان واپسی پر اعلیٰ انکوائری بٹھاؤں گا کس طرح بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے مارڈالا گیا۔وہ بھی ڈاکوؤں نے نہیں بلکہ پنجاب کی سی ٹی ڈی پولیس نے ، اور آپ نے کہا تھا کہ میں واپسی پر پنجاب پولیس میں اصلاحات لاؤنگا ، وہ اصلاحات تو چھوڑیں ابھی کچھ ہی دن پہلے خبر آئی کہ عدالت نے سی ٹی ڈی کے ان گرفتار چھ ملزموں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کردیا ، وہ 49 لوگ جو چشم دید گواہ تھے انھوں نے ملزموں کو پہچاننے سے انکار کردیا اس طرح عدالت نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا ۔

واہ ! کیا ہی بات ہے اداروں کی ، اک ادارہ شک کی بنیاد پر پورے نہتے خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالتا ہے ، اور اک ادارہ شک کا فائدہ دیتے ہوئے تمام ملزموں کو باعزت بری کردیتا ہے ، اب ہم حکومت سے پوچھیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال میں فرق ہی کیا رہا ،وہاں حکومتی سرپرستی میں نہتے لوگوں پر گولیاں برسائی گئی ، اور یہاں اس حکومت میں ادرے کو بچانے کی کوشش کی گئی ،
کوئی دباؤ تو تھا اس فیملی پر کہ مقتول کا بھائی میڈیا پر آکر کہتا ہے کہ ہم اداروں کے ساتھ ہیں اور عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اسے ہم تسلیم کرتے ہیں اور اس پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے ، سوال یہ ہے کہ کل تک جو خاندان کہہ رہا تھا کہ ہم انصاف لیکر رہیں گے کیوں نہ ہم دھرنے دیں اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا پھر اچانک کس کے دباؤ پر یہ بیان دیا گیا اور اگر کوئی دیت یا معافی والا معاملہ بھی ہے تو اسے منظر عام پر لایا جائے ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ادارے اتنے طاقتور ہیں کہ وہ جمہوری حکومت کو بھی بائے پاس کر کے اپنے مطلب کے فیصلے کرواتے رہیں ،اسے تو چھوڑیں اس صلاح الدین نامی نوجوان جس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اس کے ساتھ پولیس نے کیا کیا اسے بھی تشدد کر کے ہلاک کردیا ، بعد میں صلاح الدین کا والد میڈیا پر آکر کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی رضا کے لئیے سب کو معاف کردیا ،خان صاحب :یہ ہے آپ کی پولیس اصلاحات ، دھرنوں کے دوران آپ بہت بڑے نقاد تھے پنجاب پولیس کے آپ نے ذمہ لیا تھا پنجاب پولیس کو سیدھا کرنے کا ، آپ کے تمام وعدے تقریریں سب دھری کی دھری رہ گئی ۔
اس وقت مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ چیزیں غریب آدمی کی دسترس سے باہر نکلتی جارہی ہیں ، اس اک سال میں مہنگائی کا وہ طوفان آیا ہے کہ پوری قوم خان صاحب کو دہائی دینے لگی ہے ، ایسا لگتا ہے ستر سال کے تمام ریکارڈ اس حکومت نے ہی توڑنے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی تمام طبقہ فکر کے لوگ سڑکوں پر اک ساتھ نہیں نکلے ، لیکن اس اک سال میں تمام طبقہ فکر کے لوگ سڑکوں پر ہیں ان میں سیاستدان بھی ہیں ، تاجر برادری بھی ہے ، ڈاکٹرز بھی ہیں ، نرسز اسٹاف بھی ہیں اساتذہ بھی ہیں ، مزدور بھی ہیں ، ایسا لگتا ہے پوری قوم سڑکوں پر ہے اور حکومت ہے کہ اس کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی ،عمران خان صاحب : قوم نے آپ کو ووٹ اس لئیے دیا تھا کہ آپ اس کرپٹ مافیا سے ہماری جان چھڑائیں  گے ہماری ستر سالہ محرومیوں کو دور کروگے خاندانی سیاست کا خاتمہ کرو گے ، لیکن آپ بھی اسی ڈگر پر چل پڑے آپ کے دائیں بائیں وہی لوگ منڈلا رہے ہیں جو اس سے پہلے کسی اور کی چاپلوسی کرتے تھے ،اب بھی وقت ہے قبلہ درست کرنے کا معاملات کو بہتر کرنے کا ، ورنہ تو دھرنوں کا آغاز تو ویسے بھی ہوا چاہتا ہے ایسا نہ ہوکہ آپ کی حکومت بھی خس وخاشاک کی طرح اس دھرنے کی نظر ہو جائے ۔

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply