تشدد زدہ لاشیں اور شدت پسند عوام۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات کے عظیم درجے کے ساتھ اِس دنیا میں اُتارا ہے۔ بیشک انسان اللہ تعالی کی ایک عظیم مخلوق ہے۔ اسی عظیم مخلوق میں ہر وہ جذبہ موجود ہے جو اُس کے لئے زندگی کے سفر میں ایک فائدہ مند راستہ تلاش کرنے میں مدد دے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم پاکستانی انسان نما جاندار کچھ الگ ہیں۔ یوں تو ہم میں ہر کوئی خود کو دنیا جہاں کی  دیگر اقوام  سے برتر و اعلی سمجھتے ہیں مگر کبھی ہم نے یہ سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے اعمال کیا ہمارے دعوے کی چغلی  نہیں  کھاتے؟

آج اگر ہم میں  سے ہر کوئی اپنے اردگرد کے ماحول پر ایک گہری نگاہ ڈالے  تو وہ کونسی برائی نہیں جو ہم میں موجود نہیں ، یقیناً ایسا کوئی برا عمل نہ ہوگا جو ہم میں موجود نہ ہو۔ چوری چکاری، مار دھاڑ، ڈاکہ لوٹ مار، حرام خوری، کام چوری وغیرہ وغیرہ۔ یہ   اُن لاتعداد کاموں میں  سے کچھ ایسے عمل ہیں جن سے ہم میں ہر کوئی اپنی نگاہ بچا کر پاکبازی اور نیکوکاری کے بلند و بانگ دعوے دار ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندی اور عدم برداشت کے موضوع پر جتنا کچھ لکھا جائے کم ہے۔ ہزاروں تحریریں لکھی گئیں، لاکھوں لوگوں نے اپنا دکھڑا سنانے کی کوششیں کی۔ مگر مجال ہے جو کسی ایک بھی شدت پسند کے کان  پر یا دماغ کی چولوں پر ضرب پڑی ہو۔

آج ہمارے معاشرے میں انتہائی حد تک خطرناک جو بیماری اور جہالت بھرا مرض پروان چڑھ رہا ہے وہ ہے اجتماعی طور پر متشدد یلغار۔ اس مرض نے لاکھوں گھروں کے چراغ بجھا دیے۔ ہزاروں مائیں اپنی  اولاد کی لاش کو ٹھیک حالت میں دیکھنے کے لئے ترستی ہوئی مرگئیں۔ بےشمار باپ اپنی ولاد کی مسخ شدہ لاش  کو دیکھتے ہی دنیا سے گزر گئے۔ مگر نہ ہم میں عقل آئی اور نہ ہی ہماری جہالت ختم ہونے کا نام لیتی ہے۔

ہم جاہل لوگ کبھی دین کے نام پر اور کبھی دنیا کے نام پر انسانی جسم کو لوتھڑوں میں تبدیل کرنے میں کمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ چشم زدن میں ایک جیتے جاگتے انسان کو گوشت کا لوتھڑا بنا ڈالتے ہیں اور گھر واپس جاکر اپنی بیوی کے پہلو میں لیٹ کر پڑوسی کی غیبت شروع کردیتے ہیں بالکل اس انداز سے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

ہم جاہل لوگوں کے اپنے مسائل اتنے ہوتے ہیں کہ ان سے جان چھڑوانا ہماری  غیرت کو للکارتا  ہے مگر ہم ہیں کمال کے بے غیرت اور بزدل۔ اپنے اپنے گھریلو مسائل، معاشی مسائل، اجتماعی مسائل، مسلکی مسائل، خاندانی مسائل سے ہار مانے ہوئے   جواری ہیں۔ اور ایسے کسی انسانی جسم کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ اس جیتے جاگتے انسان پر اپنا غصہ  اور  بھڑاس نکال سکیں۔

گزشتہ دن کراچی میں ایک “چور” کو ایسے ہی کچل کر گوشت کا لوتھڑا بنا دیا گیا۔

کم ہمت اتنے کہ اگر سامنے ہمارے کسی کو کوئی مار رہا ہو تو ہم کنارہ کش ہوجاتے ہیں اس وجہ سے کہ کہیں ہمارا نام نہ آجائے اور ہم اس مسئلے میں نہ پھنس جائیں۔ کم ظرف اتنے کے جھنڈ میں وار کرتے ہیں۔ ہم ذرہ برابر شرم نامی کسی شے سے واقف نہیں۔

نہ ہم نے دین کو سمجھا نہ ہی ایمان کو۔ نہ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہوئے نہ ہی معاشرے میں ضم ہوئے۔ اگر ہم نے کچھ سیکھا تو صرف اتنا کہ ایک حیوان کو پروان چڑھا رہے ہیں اپنے اِس کھوکھلے وجود کے اندر۔ اور معلوم نہیں کب وہ حیوان ہم میں جاگ جائے اور ہم سے کسی انسان جسم کو گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل کرنے کی سفارش کرے اور ہم بغیر چوں و چرا اس حکم پر عمل پیرا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسخ شدہ پُرتشدد لاشیں صرف لاشیں نہیں ہوتیں بلکہ اس میں ہمارا مکرہ چہرہ بھی عیاں ہوجاتا ہے جو ہم بظاہر دیکھ نہیں پاتے۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply