ایک خط کا جواب۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

 

جان سے پیاری آج آپ کا تیسرا  خط ملا مگر میں نے جواب لکھنے تک بہت سوچا۔ شاید تاخیر تم پر گراں گزری ہو۔ بار بار لکھنے لگا اور اپنا لکھا ہوا ٹکڑے ٹکڑے کرتا رہا۔ تم نے پوچھا خط میں کہ دل لگا نوکری میں یا نہیں؟ میرا جواب اب بھی وہی ہے، جو پہلے تھا، انکار ہی اچھا لگتا ہے ہر سوال کے لئے اب تو۔ کیا بتاؤں جب سے دفتر میں بیٹھا ہوں سمجھو  خون کے گھونٹ پی رہا ہوں ۔ ایک دن آپ نے مجھ سے پوچھا تھا اُس دن جب ہم تالاب کے کنارے بیٹھے تھے اور آپ نے نرم لہجے میں بتایا تھا کہ مجھ میں تمھیں کبھی کبھی شیطان دکھائی دیتا ہے اور کبھی میری آنکھیں کسی برگزیدہ درویش کی طرح چمکتی رہتی ہیں۔

میں نے اُس دن کوئی جواب نہیں دیا تھا تمھیں یاد ہوگا مگر آج سوچتا ہوں کہ کاش میں بتا دیتا کہ ہاں میں اپنی شخصیت میں اکیلا نہیں ہوں۔ میری سوچ میں روحانیت اور شر دونوں گُھل مل کر رہتے ہیں اور میں اپنے شعور کی نگاہ سے دونوں کو جراح کرتے دیکھتا اور محسوس کرتا رہتا ہوں۔ کبھی اُن دونوں کے بیچ “میں” اپنی بات نہیں منواتا اور دونوں کو آزاد چھوڑ دیتا ہوں جب اُن میں جو جیت جائے وہی میرا فیصلہ ہوتا ہے۔اور میں نے کہا تھا کہ میں اپنے آپ پر کوئی لفظ نہیں رکھنا چاہتا۔ بس جو محسوس ہوتا ہے وہی میرا اصلی رنگ سمجھ کر خود کو پرکھتا رہتا ہوں۔

دفتر کے بارے میں تم نے پہلے اور دوسرے خط میں بھی پوچھا تھا مگر میں نے جواب نہیں دیا ،اِس بار دے رہا ہوں اور میرا جواب پڑھ کر خود ہی فیصلہ کر لینا کہ آج کل میں کس کے زیر اثر زندہ ہوں خیر یا شر کے۔

کل صبح ہی کی بات ہے میں اپنی میز پر بیٹھا ٹائپ رائٹر پر ایک سند ٹائپ کر رہا تھا عین میرے سامنے صدیقی صاحب کی نشت ہے۔ اُس کے پاس بیٹھے فاروق صاحب اپنی کرسی سے اُٹھ کر آئے جِن کے لبوں پر مسکراہٹ تھی مگر ویسی نہیں جیسے کبھی کبھی تم مسکرایا کرتی ہو، تمھاری مُسکان میں مجھے بال برابر دراڑ نظر نہیں آتی تھی لیکن فاروق صاحب کے چہرے پر کچھ عجیب سی شیطانیت رقصاں تھی۔ میں نے اپنا سر جھکا لیا کہ کہیں اُس کو یہ نہ لگے کہ میں اُن کی طرف متوجہ ہوں۔

میں نے سنا کہ وہ صدیقی صاحب کو ہمارے یہاں دفتر میں کام کرنے والی جگہ میں نئی آنے  والی اُس لڑکی کا ذکر کر رہے تھے “جس کے بال کالے اور نچلے ہونٹ کے نیچے ایک چھوٹا سا کالا تل ہے”۔ میں نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیئے کیونکہ فاروق صاحب کے اِس سوال کے جواب میں کہ “بچی کیسی ہے” صدیقی صاحب نے کہا تھا ” زبردست مال ہے” اِس سے آگے میں سن نہ سکا تھا۔

وہ دن مجھ پر کیسے بیت کر گزرا کیا بتاؤں اور کیا لکھوں؟ مگر آج بتانے کا وعدہ جو کیا ہے دن گزرا اور جب چھٹی ہونے کو تھی تب ہی ہمارے جو “مالک” ہیں خیال رہے مالک یہاں دفتر کے مالک کو کہتے ہیں۔ اُس نے مجھے جو کام دیا تھا وہ تقریباً میں ختم کرچکا تھا اور اب میں نے وہ کاغذات مالک کو دینے تھے اور پھر دو بسیں تبدیل کرکے اپنے کمرے تک پہنچنا تھا۔ اُس دن تھکن سے بُرا حال تھا سر میں درد بھی معلوم نہیں کیسا تھا کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کمبخت۔

خیر میں نے وہ تمام تیارکردہ کاغذات اکھٹے کیے اور دفتر میں موجود مالک کے کمرے کی طرف جانے لگا جیسے ہی میں قریب پہنچا تو دروازہ اَدھ کھلا تھا صرف اتنا کہ میری گناہ گار آنکھ اندر کے کچھ راز دیکھ پائی  اور باریک ہوا کی لہریں اندر کی گفتگو باہر کھڑے مجھ گناہ گار بنی آدم پر آشکار کرسکیں۔ میں کچھ دیر رکا رہا اور دیکھتا رہا، تب مجھے سنائی دیا کہ مالک کچھ کہہ رہا تھا۔ میں نے غور کیا تو الفاظ واضح ہوئے اور مطلب کی پہچان ہوئی۔ سننے کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ مالک اُسی تِل والی کالے بالوں والی لڑکی کا ہاتھ پکڑے کہہ رہا تھا

“میری بات مانو گی تو ہمیشہ خوش رکھوں گا، پیسہ زیادہ ملے گا اور کل سے تمھاری کرسی بھی یہیں  لگادوں گا اپنے اِس کمرے میں”

تب میں نے دیکھا کہ تِل والی لڑکی کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں  اور وہ اپنا ہاتھ ہمارے مالک سے چھڑانا چاہ رہی تھی میں نے اُس کے بھی الفاظ سنے جو کہہ رہی تھی

“میرا ہاتھ چھوڑ دو میں نے گھر جانا ہے میری ماں پریشان ہو رہی ہوگی مجھے یہ نوکری نہیں کرنی”

Advertisements
julia rana solicitors

تب میں واپس مڑا اور وہ کاغذات کسی میز پر رکھ کر تیز تیز قدموں سے دفتر سے  باہر نکلنے لگا اور اپنے ذہن میں خیر و شر اور روحانیت و شیطانیت کو آپس میں ہنگامہ آرائی کرتے صاف محسوس کیا اور اپنے مالک کے بارے میں سوچنے لگا جو ہمیشہ اپنے نوکروں بشمول میرے ایمانداری اور دیانتداری کے سبق پڑھاتا  رہتا تھا۔ایسے گزر رہے ہیں میرے دن کہ ہر روز  ایک نئی جنگ درپیش ہوتی ہے، اپنی دو شخصیتوں کے گھیرے میں۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply