• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی یرغمال ہے؟۔۔عمران حیدر تھہیم

کیا پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی یرغمال ہے؟۔۔عمران حیدر تھہیم

بحیثیت مُسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی آخر الزّماں حضرت مُحمّد صل اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیاتِ طیّبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ نے وہ واقعہ سُنا ہوگا کہ ایک شخص نبی پاک کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتلایا کہ وہ بُھوکا ہے اور بےروزگار ہے تو آپ (ص) نے اُسکی مدد یوں کی کہ اُسے کلہاڑا خرید کر دیا اور مشورہ دیا کہ وہ اس کی مدد سے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر گُزر بسر کرے۔ اُس شخص نے ایسا ہی کیا اور کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ حاضر ہوا اور بتلایا کہ وہ آپ (ص) کی ہدایت پر عمل کرکے خُوشحال ہوگیا۔ اس واقعے سے سبق یہ ملا کہ اگر آپ واقعی دوسروں کے خیر خواہ ہیں تو اُنکی عارضی مالی مدد کرنے کی بجائے اُن کےلیے ایسے اسباب پیدا کریں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر خُود کھڑے ہو جائیں۔ یعنی معاشرے کے محروم طبقے کو اُٹھانا سُنّتِ رسول (ص) ہے۔

پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کےشعبے کا بھی یہی حال ہے کہ یہاں محروم طبقے کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک ہم نے سیاحت کے شُعبے پر توجّہ دینا تو درکنار اِس پر سوچنا ہی گورا نہیں کیا ورنہ تو درحقیقت یورپ اور خصوصاً سوئٹزرلینڈ بھی قدرتی خُوبصورتی میں ہمارے شمالی علاقہ جات سے بہت پیچھے ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا اور خصوصاً فیس بُک کی آمد کے بعد 2010 سے فیس بُک پر سیاحت اور کوہ پیمائی کی طرف لوگ مُتوجہ ہونا شروع ہوئے تو مختلف گروپس، پیجز اور ٹُور آپریٹرز نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو مُلک کے دیگر میدانی علاقوں کے لوگوں کیساتھ جوڑنے کا بِیڑا اُٹھایا۔ شروع شروع میں یہ کام بہت نیکی نیتی کے ساتھ ہوا۔ فیصل آباد، لاہور اور اسلام آباد سے شروع ہونے والے گروپس، پیجز اور کلبز وغیرہ نے بلاشُبہ گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور حیران کُن طور پر حکومتی سرپرستی کے بغیر ہی ایک بہترین ایڈونچر کمیونٹی سوشل میڈیا کے ذریعے وجود میں آ گئی۔ لیکن چند سالوں کے دوران جُونہی یہ کمیونٹی پَھلی پُھولی اور لوگوں نے سیاحت و کوہ پیمائی کے اندر ہوش رُبا پوٹینشل دیکھا تو آناً فاناً غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار لوگ باولے ہو کر اس صنعت کے اندر گُھسنا شروع ہوگئے۔ یہی وہ وقت تھا کہ پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے والی باڈی الپائن کلب آف پاکستان کی ذمّہ داری تھی کہ وہ اس شُعبے کو چینلائز کرنے کےلیے اپنا عملی حصّہ ڈالتی اور پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کے قوانین کو مُرتّب کروا کر حکومت سے نافذ العمل کرواتی تاکہ پاکستان میں اسکو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیکر مُلک کی معیشت میں اسکا فعال کردار پیدا کیا جاتا۔ کیونکہ پاکستان میں یہ انڈسٹری بلین ڈالرز کا پوٹینشل رکھتی ہے۔ تاہم افسوس کہ الپائن کلب آف پاکستان ایک سٹیریو ٹائپ ربڑسٹیمپ ثابت ہوئی۔ مَیں نے گُزشتہ 10 سال میں الپائن کلب کی بس خبروں کی حد تک آنیاں جانیاں ہی دیکھی ہیں کہ کوہ پیماؤں کی فلاں ٹیم آ گئی ہے اور فلاں چلی گئی ہے فلاں کو پرمٹ مل گیا ہے اور فلاں کا رہ گیا ہے۔ نہ سیاحتی گائیڈز کی تربیت، اُنکی ڈاکیومینٹیشن، نہ ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز کی ایڈوانسڈ ٹریننگ اور نہ ہی اُنکےلیے قوانین، انشورنس پلان یا اُنکی ریگولیشن کا کوئی طریقہ کار غرضیکہ ایک بھی دُور رس نتائج دینے والی پالیسی نہیں بنی۔ یعنی اسباب پیدا کرنے کی بجائے ہم نے سیاحت سے وابستہ افراد کو گوروں سے بخشیش لینے کے انتظار میں لگائے رکھا۔ بہت کم اُجرت پر پاکستان کے گائیڈز، ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز اور اُس سے بھی کم اُجرت پر لو آلٹیٹیوڈ پورٹرز کام کرتے رہے اور اس انتظار میں رہے کہ گورا پہاڑ سر کر لے گا تو شاید نیچے آ کر طے شُدہ اُجرت کے علاوہ کوئی دو چار ڈالر بخشیش دے جائے گا جس سے اُسکے گھر کا چُولہا جل سکے گا اور بس۔
عین اسی عرصے کے دوران جب پاکستان کے پہاڑوں میں شمالی علاقہ جات کے سادہ لوح عوام کے ساتھ میدانی علاقوں کے فیس بُکی ٹُورآپریٹرز اور گروپس کی جانب سے استحصال جاری تھا اُدھر نیپال نے عہد کے تقاضوں کے عین مطابق اپنی سیاحت اور کوہ پیمائی کی صنعت کو سائنسی بُنیادوں پر اُستوار کرنا شروع کردیا۔ اپنے گائیڈز اور شرپاؤں کی گوروں کے ذریعے تربیت کروائی اور پھر اُنکی ڈاکیومنٹیشن کرکے ایلیٹ شرپاؤں کا ایک پُول بنا دیا۔ حکومت نے بیک گراؤنڈ پر رہتے ہوئے مختلف ٹُور کمپنیاں لانچ کروائیں اور یُوں اپنی سیاحت کی انڈسٹری کو ملٹی بلین ڈالرز کی انڈسٹری بننے کے راستے پر گامزن کر دیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مغربی لوگ آتے ہیں جن سے سائنسی انداز میں ڈالرز کمائے جاتے ہیں۔ آج کی کارپوریٹ دُنیا میں ساری چیز ہی پریزینٹیشن ہے۔ مثال کے طور آپ کسی ریڑھی سے سموسہ لیتے ہیں تو آپکو 20 روپے میں مل جاتا ہے لیکن وہی سموسہ کسی فائیوسٹار ہوٹل میں آپکو اس پریزینٹیشن کے ساتھ ملے گا کہ مینیو بُک پر آپ انگریزی میں ایک لمبی سی تحریر پڑھیں گے اور اُس سے امپریس ہو کر آرڈر دیں گے تو آگے سے سموسہ آجائے گا لیکن قیمت دیکھیں گے تو 350 روپے۔ نیپالیوں نے بھی ایسا ہی کیا کہ اپنی پریزینٹیشن بہترین کردی اور پیسہ کمانے لگ گئے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ کُھمبُو آئس فال سے کیمپ1 تک راستہ نکالنے والے شرپاؤں کو “آئس فال ڈاکٹرز” اور پھر کیمپ 4 سے اُوپر رسّی لگانے والوں کو “ایلیٹ ٹیم” کا نام دے دیا۔ تاکہ گورے اس ٹرمنالوجی سے امپریس ہو کر دب جائیں اور ڈالرز کی بوچھاڑ کردیں۔ ابھی دو دن پہلے خبر آئی ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر سیزن کی کلائمبنگ کا آغاز ہونے والا ہے چنانچہ آئس فال ڈاکٹرز بیس کیمپ سے روانہ ہو گئے ہیں۔ یعنی جن مغربی لوگوں سے نیپالیوں نے پیسے بٹورنے ہیں اُنہیں اپنی پریزینٹیشن سے کیسے لُبھا رہے ہیں جیسے کوئی بہت بڑے سائنسی کام ہو رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک 5 جماعت پاس شرپا نے ایسا کونسا کورس کرلیا کہ اُسے ڈاکٹر کا نام دے دیا گیا۔ دُنیا بھر میں کسی اَن پڑھ کو کوئی بھی ڈاکٹر کا نام نہیں دیتا لیکن آپ ذرا نیپالیوں کی پریزینٹیشن مُلاحظہ کریں کہ ان پڑھوں کو بھی ڈاکٹرز کا خطاب دے دیا اور یُوں نیپال کا DoT یعنی ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم ایک ایسا مُنافع بخش محکمہ بن گیا جس پر نیپال کی معیشت انحصار کرتی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے عرض کیا کہ کارپوریٹ دُنیا میں پیسہ کمانے کےلیے جدید دور اور جدید ٹیکنالوجی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے مُلک کے سیاحت سے وابستہ افراد کو ان تقاضوں سے بوجوہ دُور رکھا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹر 5000 روپے روزانہ کی اُجرت پر کام کرتا ہے اور نیپالی شرپا اُسی کام کےلیے گورے سے 25000 روپے روزانہ لیکر آتا ہے 5000 روپے ہمارے پورٹر کو دیتا ہے اور پہاڑ پر گورے کو بھی چڑھاتا ہے خُود بھی چڑھتا ہے اور دُنیا کے سامنے گلوریفائی ہونے کے علاوہ 20 ہزار یومیہ بچا کر گھر بھی لے جاتا ہے۔ یہی وہ احساسِ محرومی ہے جس کا شکار ہو کر ہمارا سب سے بڑا iconic climber ہم سے بچھڑ گیا لیکن ہم بجائے اس کے کہ اپنے گائیڈز اور پورٹرز کےلیے اسباب پیدا کریں آنے والے کلائمبنگ سیزن کےلیے اپنے پہاڑوں کو دوبارہ نیپالیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کےلیے ایک بار پھر تیّار اور تُلے بیٹھے ہیں۔ ہم نے بس مُحمّد علی سدپارہ کی بیوہ کو 30 لاکھ دے دینے ہیں، اُسکے ایک بیٹے کو روزگار اور ساجد سدپارہ کو ایک میڈل اور علی سدپارہ کے نام سے ایڈونچر سپورٹس کے ایک سکول کا بس اعلان۔ یعنی وہی عارضی مدد کیونکہ اسباب پیدا کرنے کی سُنّت زندہ کرنے کی ہم کوشش ہی نہیں کرنا چاہتے۔ کیا سدپارہ گاؤں میں صرف ایک ہی سدپارہ تھا؟ کسی کی بلا جانے کہ حسن سدپارہ کی وفات کے بعد اُسکی فیملی کے ساتھ کیا بیتی؟ نثار حسین سدپارہ کے بچے کس حال میں ہیں؟ اور اسوقت سکردو میں صادق سدپارہ کس حال میں اپنی روزی روٹی کما رہا ہے؟ ہم نے ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا ان پہاڑوں میں کھویا لیکن اُن کےلیے اسباب پیدا کرنا تو دُور کی بات ماضی میں تو اُنکی عارضی مالی مدد بھی نہیں کی۔ علی سدپارہ اس لحاظ سے تھوڑا خوش قسمت رہا کہ اُسکے بعد اُسکی فیملی کی کچھ عارضی مدد ہو رہی ہے جس سے دو چار سال اچھے گُزر جائیں گے اُسکے بعد تو علی بھائی کی بیوہ ہماری بہن فاطمہ کےلیے زندگی بہت کٹھن ہے اور ساجد سدپارہ کےلیے ذمّہ داریوں کا پہاڑ سر کرنا زندگی بھر کا چیلنج۔ ہماری تو صرف اتنی ہی ذمّہ داری تھی کہ علی سدپارہ کی تعریفیں کریں اور اُسکی سابقہ فتوحات پر بس عش عش کرتے رہیں۔ کے۔ٹو کی بُلندیوں پر علی سدپارہ غمِ روزگار کی نذر ہو گیا لیکن ہمیں اس سے کیا غرض۔ ہم تو بس انجمن ستائشِ باہمی کے رُکن ہیں اور رہیں گے۔

بول کر داد کے فقط دو بول
خُون تُھکوا لو شُعبدہ گر سے

ہماری سیاحت اور کوہ پیمائی کے سرپرستوں کے بےاعتنائی تو اپنی جگہ یہاں تو مسیحائی کا راگ الاپنے والے فیس بُکی گروپس اور ٹُور آپریٹرز بھی شرپاؤں کی طرز پر شمال کے لوگوں کے وسائل کی پُوری پُوری قیمت وصول کرکے اُسکا چوتھائی حصّہ بھی اُنہیں بھیک کی طرح دے کر خُود کو سیاحت کی خدمت کے علمبردار گردانتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کیمطابق میدانی علاقوں کے بیش تر ٹُور آپریٹرز 75 فیصد کمائی خُود کھاتے ہیں اور 25 فیصد شمالی علاقہ جات میں خرچ کرتے ہیں وہ بھی اُن لوگوں کی خدمات کے عوض۔
یہی وجہ ہے کہ گُزشتہ 10 سال میں یہ تمام ٹُور آپریٹرز مل کر بھی گلگت۔بلتستان کے کسی ایک بھی گائیڈ یا ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹر کو انٹرنیشنل ٹریننگ نہیں دلوا سکے اور نہ ہی اُن کےلیے اسباب پیدا کر سکے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مُخیّر لوگوں سے پیسے مانگ کر شمال کے لوگوں کو بھیک کی طرح بھیج دیتے ہیں۔
آج سے چند سال قبل میرے ساتھ لاہور کی ایک مُخیّر خاتون نے رابطہ کیا اور مشورہ مانگا کہ اُسکی بچوں کے گارمنٹس کی ایک فیکٹری ہے لہٰذا وہ شمالی علاقہ جات کے بچّوں کےلیے سردیوں کےلیے کچھ کپڑے گفٹ کرنا چاہتی ہے اور اُسے ایک ٹُور آپریٹر نے کہا ہے کہ آپ اپنی ڈونیشن مُجھے دے دیں ہم پہنچا دیں گے۔ اُس خاتون نے مُجھے کہا کہ آپ چونکہ ان ٹُور آپریٹرز کو جانتے ہیں لہٰذا آپ مشورہ دیں کہ کیا مُجھے اُس ٹور آپریٹر کو ڈونیشن دے دینی چاہییے یا نہیں۔ مَیں نے کہا کہ بظاہر تو اس میں کوئی قباحت نہیں آپ ڈونیشن دے دیں۔ چنانچہ اُنہوں نے میرے مشورے کے بعد اپنی ڈونیشن اُن صاحب کو پہنچا دی۔ تاہم کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ اُن صاحب نے نئے کپڑے اپنے پاس رکھ لیے اور لنڈے کے کپڑے خرید کر شمال کی طرف بھجوا دیے۔ خبر نہیں کہ نئے کپڑوں کا اُنہوں نے کیا کِیا۔ اور تو اور اُس ٹور آپریٹر صاحب نے بعد ازاں اس احسان کے بدلے اُن خاتون پر ڈورے ڈالنے اور ٹھرک جھاڑنی بھی شروع کردی۔ اُس خاتون کی شکایت کرنے پر مُجھے بہت شرمندگی اُٹھانا پڑی کہ شاید مَیں بھی مردم شناسی میں دھوکہ کھا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مَیں نے آج تک اُس ٹور آپریٹر سے تو اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اُسکے کرتوت کا مُجھے علم ہے تاہم آئندہ مُجھ سے اب کوئی بھی مشورہ مانگتا ہے تو اُسے ڈائریکٹ مدد کرنے کا ہی مشورہ دیتا ہوں۔
پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کے شعبے کو نان پروفیشنل ہاتھوں میں ذلیل و رُسوا ہوتے ہوئے مَیں گُزشتہ 10 سال سے دیکھ رہا ہوں اور اس پر مسلسل آواز بُلند کرتا آرہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
پاکستان میں فیس بُک استعمال کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ٹورازم گروپس اور پیجز میں روزانہ کی بُنیاد پر ایکٹیویٹی دیکھتی ہے۔ مَیں ایسے تمام پاکستانیوں سے پُوچھنا چاہتا ہوں کہ گلگت۔بلتستان کے اپنے لوگوں کی طرف سے آپریٹ ہونے والے چند ایک گروپس یا پیجز کے علاوہ کیا آپ نے میدانی علاقوں کے کسی پیج یا گروپ پر کبھی کوئی ایسی ایکٹویٹی دیکھی ہے کہ پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی سے وابستہ افراد کےلیے روزگار کے اسباب پیدا کرنے کی خاطر کسی قانون سازی پر کوئی بحث ہوتی ہو؟
کبھی کسی پورٹر یا گائیڈ کو بُلا کر اُن سے اُنکی دُکھ بھری داستانیں سُنی ہوں؟ کبھی انٹرنیشنل گائیڈز یا پورٹرز پیدا کرنے کی غرض سے کسی پروفیشنل ٹریننگ کورس کا انعقاد کیا گیا ہو؟
پاکستان میں ایسا ہرگز نہیں ہو رہا۔ اپنی ایک بوٹی کےلیے اگلے بندے کا پُورا بکرا ذبح کرنا ہمارا قومی شعار بن چُکا ہے۔
اگر یہ فیس بُکی دانشور اور ٹُور آپریٹرز خُود کو واقعی شمال کے لوگوں کےلیے مسیحا سمجھتے ہیں تو میرا انکو کُھلا چیلنج ہے کہ آج ہی سامنے آئیں تمام ٹُور آپریٹرز پر مشتمل ایک نان گورنمنٹل آرگنائزیشن/ایسوسی ایشن بناتے ہیں جس میں اپنی اپنی کمپنیوں کی کمائی کے حکومت کو ٹیکس ادا کرنے کے بعد بچ جانے والی آمدن کا 25 فیصد حصّہ صرف گلگت۔بلتستان کےساحت سے وابستہ افراد کی تربیت اورکپیسٹی بلڈنگ پر خرچ کریں گے تاکہ نیپالیوں کے مقابلے میں ہمارے پاس اتنے تربیت یافتہ گائیڈز اور پورٹرز ہوں کہ گورے نیپال سے شرپا نہ لا سکیں۔
بولیں کیا آپ لوگوں کو میری یہ تجویز منظور ہے؟ اگر منظور ہے تو قدم بڑھائیں ورنہ یہ دعوے کرنا بند کر دیں کہ ہم پاکستان میں سیاحت کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ سیاحت کی خدمت نہیں کر رہے بلکہ آپ اسے برباد کر رہے ہیں۔ ایک بہت ہی مشہور فیس بُک گروپ ہے جسے باہر سے بیٹھ کر ایک فوٹوگرافر چلاتا ہے جس کا اوّلین مقصد صرف اپنی فوٹوز بیچنا اور اپنے گروپ اور پیج پر اشتہار بازی کرکے پیسے کمانا ہے۔ ان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بس کے کنڈیکٹر کی طرح سواریاں بیچ کر صرف مڈل مین بن کر اپنا حصّہ جیب میں رکھ کر ٹورازم پر جو احسان کر رہے ہیں وہ بے شک نہ کریں۔ مخالف بیانیے کو برداشت کرنے کی جرآت تو آپ میں بالکل ناپید اور آپ ہیں کہ پاکستان میں سیاحت کے مامے چاچے بنے ہوئے ہیں۔ بہتر ہے باز آجائیں۔
گُزشتہ ماہ کے۔ٹو پر پیش آنے والے حادثے کے بعد مَیں ایک خُوش آئند چیز دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے شعبہء سیاحت پر اجارہ داری کے خواب دیکھنے والے نان پروفیشنل مافیا کے دن تقریباً ختم ہونے کو ہیں کیونکہ علی سدپارہ کے سانحہ نے عام پاکستانی کی توجہ اب اِس شُعبے کی طرف موڑ دی ہے اور زبانِ خلق نقارہء خُدا ہوتی ہے۔ چنانچہ میری رائے میں تو وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان کے سیاحت و کوہ پیمائی کے شعبے کی باگ ڈور پروفیشنل اور کام کرنے والے لوگوں کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ گلگت۔بلتستان سمیت پاکستان بھر سے ایسے گائیڈز، پورٹرز اور ٹُور آپریٹرز پیدا کرنے کےلیے قانون سازی کرنا وقت کی ضرورت ہے جو نیپالیوں کے پروفیشنلزم کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔ ورنہ آنے والے برسوں میں نیپالیوں کا عفریت ہماری سیاحت کو بھی چاٹ جائے گا۔ اِس بابت ابھی سے پلاننگ کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چُکا ہے۔
مَیں آئندہ کسی تحریر میں اِن شاء اللہ کوشش کرونگا کہ پاکستان کے شعبہء سیاحت و کوہ پیمائی کےلیے مؤثر قانون سازی کےلیے اپنی تجاویز پیش کروں تاکہ وہ سینہ بہ سینہ منتقل ہو کر اربابِ اختیار تک پہنچ پائیں اور مقنّنہ کے ذریعے ایک ایسا قانون پاس ہو جو پاکستان میں سیاحت کو ایک مُنافع بخش صنعت میں ڈھال کر مُلکی معیشت کا حصّہ بننے میں معاون ثابت ہو سکے۔

وما علینا الا البلاغ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(تحریر: عمران حیدر تھہیم)

Facebook Comments