سیکولرازم اور اسلام میں مطابقت۔ امجد خلیل عابد

سب سے زیادہ پتلی حالت مجھے اُن لوگوں کی دکھائی دیتی ہے جو ساری دانش کا زور لگاکر سیکولرازم اور اسلام میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں- مجھے ان کی نیت پر شک نہیں، بلکہ یہ اصل امن پسند لوگ ہیں جو دو مختلف نظریات کے مابین ”پیس میکینگ” کی کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں- نیت بھی ٹھیک ہے، لوگ بھی ٹھیک ہیں مگر جوڑ بٹھانا ممکن نہیں-میری نظر میں اُن بہادر لوگوں کی بڑی قدر ہے جو سیکولر ہیں،مُلحد ہیں اور لبرل ہیں اور بنا کسی لگی لپٹی کے ببانگِ دُہل اس کا اعلان کرتے ہیں اور اسلام و سیکولرازم کا باہم عقد کروانے کی کسی بھی بے تُکی کوشش سے الگ رہتے ہیں-

مان لیا کہ سیکولرازم کا اصطلاحی ترجمہ لادینیت کرتے ہوئے بابائے اُردو مولوی عبدالحق “غلطی” کے مرتکب ہوئے، کیونکہ ایک سیکولر نماز بھی پڑھتا ہے اور روزہ بھی رکھتا ہے- مگر یہ سیکولر جب پارلیمان میں بیٹھ کر قانون سازی جیسی اہم ترین ذمہ داری نبھانے لگتا ہے تو کہتا ہے کہ میں سیکولر اعتقادات کا حامل انسان ہوں میں قوانیں وضع کرتے ہوئے الہیات یا دین کو نہیں دیکھوں گا کہ دین اس مسئلہ کے بیچ کیا حکم لگاتا ہے- کیا یہاں دین کا انکار نہیں کیا جا رہا؟ انکار کا استدلال کچھ بھی ہو،یہاں اُس پہ بحث مقصود نہیں-لگتا یوں ہے کہ دین کا جزوی انکار ہو رہا ہے- مجھے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی کسی دین کا جُزوی انکار کرتا ہے یا کُلی، میرا نُکتہ اعتراض بصدِاحترام یہ ہے کہ اگر انکار ہے تو پھر کہا کیوں نہیں جاتا کہ ہاں انکار ہے، کُلی نہیں مگر جُزوی ہے- ذاتی معاملات میں نہیں ریاستی معاملات میں دین کی دخل اندازی سے انکار اور اعتراض ہے-

واضح ہو کہ ہم مخاطب ہیں اُن لوگوں سے جو سیکولرازم اور اسلام کو ایک ہی کُل کے دو جُز سمجھتے ہیں یا ایک دوسرے کا پرتو- اور دائرہِ اسلام میں رہنا چاہتے ہیں- ہم کسی کو زبرستی نہ دائرہ اسلام میں لا سکتے ہیں نہ نکال سکتے ہیں، مگر جو دائرہِ اسلام میں رہنے کا متمنی ہے اور سمجھتا ہے کہ اسلام میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جن کا دراصل سیکولرازم بھی داعی ہے-ایسے میں سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جب ساری ضروریاتِ اخلاقیات اسلام سے پوری ہو رہی ہیں تو ہمیں سیکولرازم کی وکالت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اور سیکولر اخلاقیات کا داعی بننے کا ہم کیا مطلب لیں؟

پھر حیرت تب ہوتی ہے جب معاشی انصاف کی ضمانت دینے کی سیکولرازم کی خوبی بیان کی جاتی ہے اور ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ خلافتِ راشدہ بھی اس چیز کی ضامن رہی ہے- جب اسلام کی دی ہوئی خلافتِ راشدہ میں معاشی انصاف کی ضمانت مل رہی ہے، جب خلافتِ راشدہ ہمارے لیے راہ متعین کر رہی کہ ایک عام آدمی بھی خلیفہِ کا دامن جھنجھوڑ سکتا ہے تو سیکولرازم سے راہِ سلوک کیسی؟یہ بحث الگ  ہےکہ کیوں دارلعلوم دیوبند ہندوستان سیکولرازم کا داعی ہے مگر اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ سیکولرازم ہندوستان کی بقا کا ضامن بھی ہے- ہمارے ہاں کی انگلیوں پر گنی جاسکنے والی اقلیت کو مطمئن رکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے، اگر ہندوستان سیکولرازم کو چھوڑ کر ‘ہندوتوا’ نافذ کرنے کی کوشش کرے گا تو ایک پورا مُلک تخلیق کر دینے جتنی آبادی رکھنے والی اقلیت کی بے چینی کو کیسے سنبھال پائے گا-

Advertisements
julia rana solicitors

ہندوستان کے علماء اگر سیکولرازم کی حفاظت کو فرضِ عین سمجھتے ہیں تو یہ اُنکا اُسی طرح کا فکری تاریخی مغالطہ ہو سکتا ہے جس کے تحت یہ محمدعلی جناح کے ساتھ مسلمانوں کے لیئے علیحدہ ریاست کی تشکیل کو سمجھ نہ پائے-

Facebook Comments

امجد خلیل عابد
ایک نالائق آدمی اپنا تعارف کیا لکھ سکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply