• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

جناب رسالت مآبﷺ کے ساتھ نسبت اور عقیدت و محبت کا اظہار ہمارے ایمانی تقاضوں میں سے ہے اور ہر مسلمان کسی نہ کسی انداز میں اِس کا اظہار ضرور کرتا رہتا ہے۔ اِس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت کن مقاصد کے لیے ہوئی تھی؟ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرﷺ نے انسانی معاشرہ کو خیر کے کن کاموں کی تلقین کی تھی، شر کے کن کاموں سے روکا تھا اور بھرپور محنت کے ساتھ انسانی معاشرے کو کن تبدیلیوں اور اصلاحات سے روشناس کرایا تھا جن کی وجہ سے انہیں پیغمبر انقلاب کہا جاتا ہے۔ موْرخین اِس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں اتنی کم مدت میں اتنے مکمل انقلاب کی اور کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔

نبی کریم ﷺ نے تئیس ۲۳ سال کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اپنی قوم کے مختلف عناصر کو اِس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک ایسی بند مٹھی بن گئی جس کی وجہ سے آپ ﷺ کی قوم صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہو گئی بلکہ اُس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اونچ نیچ و اختلاف بھی ایک ایک کرکے دور ہو گئے۔ یہ صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہو گئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی بالکل ہم آہنگ و ہم رنگ ہو گئی۔ آپ ﷺ کی تبلیغ و سنت سے آپ ﷺ کی قوم صرف خود ہی منظم نہیں ہو گئی بلکہ اُس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا۔

آپ ﷺ نے جہاں حیات بعد الموت کا فلسفہ قرآن و سنت کے عین مطابق اپنی اُمت کے لئے واضح دلائل سے بیان کیا وہیں آپ ﷺ نے دنیاوی زندگی میں بھی ہر ایک انسان کے معاشرتی عمل اور جذبے کو احسن طریقے سے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو بیشک ایک عظیم رہنما کے طور پر نسلِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔

سماجی اصلاحات:

عرب کے سرزمین میں نبی کریم ﷺ کی رسالت سے قبل عرب کا سماج اور معاشرہ دگرگوں حالت کا شکار تھا۔ ہر طرف شخصی طاقت کا راج اور کمزور اور طاقتور کا قانون لاگو تھا۔ کوئی واضح قانون اور معاشرے میں انسانی حقوق کی پہچان نہ تھی۔ امیر اور غریب میں تضاد واضح اور اُس پر فخر کرنے والا معاشرہ مسلط تھا۔

جناب رسالت مآب ﷺ نے انسانی معاشرے میں رہنے والوں کے آپس کے حقوق بیان فرمائے ہیں، یہ حقوق دو نوعیت کے ہیں، پہلی نوعیت شخصی حقوق کی ہے جبکہ دوسری اجتماعی حقوق کی ہے۔ شخصی حقوق کے معنٰی یہ ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کیا حق ہے؟ یعنی ماں کا حق بچے پر اور بچے کا حق ماں پر، میاں کا حق بیوی پر اور بیوی کا حق میاں پر، بھائی کا حق بہن پر اور بہن کا حق بھائی پر، اُستاد کا حق شاگرد پر اورشاگرد کا حق استاد پر، یہ شخصی حقوق ہیں جن کی تفصیلات رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی ہیں۔ اجتماعی حقوق کے معنٰی یہ ہیں کہ معاشرے کا انسان پر کیا حق ہے؟ سماج اور معاشرے کا جو مشترکہ حق انسان پر ہے اسے سماجی خدمت یا سوشل ورک کہتے ہیں۔ معاشرہ اجتماعی طور پر جو انسان سے تقاضا کرتا ہے اُس تقاضے کو پورا کرنا سماجی خدمت کرنا کہلاتا ہے۔

آپﷺ کی سماجی اصلاحت میں جو سب سے پہلے قابل ذکر اصلاح سامنے آتی ہے وہ شخصی برتری کو ختم کرکے تمام مسلمانوں کو ایک صف میں لاکھڑا کرنا ہے۔
آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے “کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر فوقیت حاصل نہیں ہاں مگر تقوی کے”۔

اسی طرح آپﷺ نے اپنی تعلیمات میں سماج اور معاشرے کو جھوٹ، دھوکہ، حق تلفی، غیبت، چوری ڈاکہ زنی، رشوت، ظلم و بربریت، ناحق قتل و خون ریزی، آبروریزی، زنا، سود، بچیوں کو زندہ دفنانے، عورتوں کی تحقیر، حرام کمائی، شراب نوشی، جوا بازی، خیانت، بےانصافی اور توہم پرستی سے منع فرمایا اور اِن تمام برائیواں کے بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے سخت وعید سنائی۔ اِن تمام سماجی برائیوں کے بارے میں آپﷺ نے اپنے تعلیمات میں یہ بتایا کہ ایک انسانی معاشرے میں اِن برائیوں کو جب تک جڑ سے اکھاڑ کر نا پھینکا جائے تب تک ایک فلاحی معاشرہ اور مثبت سماج کا وجود ناممکن ہے۔ آپﷺ نے نا صرف ان تمام سماجی برائیوں کی نشاندھی کی بلکہ اِن کی اصلاح بھی کردی اور اُس دور میں ایک ایسا سماج بنانے میں کامیاب ہوئے جس کی مثال آج تک نہیں ملتی۔

سیاسی اصلاحات:

حضورﷺ کی سیاست اِس اعتبار سے بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپﷺ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔ آپ قارئین جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں قابلِ بیان، بلکہ بعض صورتوں میں قابلِ فخر سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا اُن کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اِس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھہراتا ہے اور قانون بھی اِن باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبر یہی سارے کام اپنی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہی سارے کام اُس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اُس کی زندگی میں بھی اُس کے اس طرح کے کارناموں پر اُس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے انہی کمالات کی بنا پر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔

سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب دورِ  جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ اِن باتوں میں شاطر ہوتے وہی لوگ اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔

حضور اکرمﷺ نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے۔ بلکہ آپﷺ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحب اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپﷺ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔

اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپﷺ کو پیش آئے جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جا سکتی ہے۔ آپﷺ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپﷺ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپﷺ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے۔ دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں۔ عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے۔ قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے۔ آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگو  کرنی پڑی ۔ اور سیاسی گفتگو  کے لیے اپنے وفود اُن کے پاس بھیجنے پڑے۔

بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپﷺ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہر شخص کو اِس بات کا اعتراف ہے کہ آپﷺ نے کبھی کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا۔ اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اُس سے انکار نہیں کیا۔ کسی معاہدہ کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔

اگر آپ قارئین دنیا کے اہل سیاست کو اِس کسوٹی پر جانچیں تو میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہﷺ کے سوا کسی کو بھی آپ اِس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضورﷺ کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔

نبی کریم ﷺ نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا جس میں دنیوی کرّوفر کے بجائے خلافت الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹھ  کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا۔ لیکن اِس سادگی اور فقر و درویشی کے باوجود اُس کے دبدبے اور اُس کے شکوہ کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اُس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے اور ایسی کوئی مشکل نہیں جس کا حل ہمیں اسوہ حسنہﷺ میں نہ ملے۔ اللہ تعالی ہمیں آپﷺ کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply